آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کیخلاف جاری اپریشن میں کامیابی کیلئے نوجوان نسل کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا‘ ہم نے دہشت گردوں اور انکے مددگاروں کیلئے زمین تنگ کردی ہے‘ اپریشن ضرب عضب پورے ملک میں پختہ عزم کے ساتھ جاری رہے گا‘ دہشت گردوں کا آخری حد تک پیچھا کرینگے۔ آج ہم جس پرامن فضا میں سانس لے رہے ہیں‘ وہ عوام اور فوج کی بے پناہ قربانیوں کا ثمر ہے۔ گزشتہ روز شندور کے مقام پر پولو فیسٹیول کی اختتامی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف نے کہا کہ اس تاریخی فیسٹیول کے انعقاد سے دہشت گردوں کو پیغام جاتا ہے کہ پاکستان بلاخوف و خطر اپنی روایات کو جاری رکھے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں امن و امان کیلئے پاکستان کے عوام اور افواج نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ اپریشن ضرب عضب اسی جذبے اور پختہ یقین کا تسلسل ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ پاکستان بہت جلد دنیا میں امن و سلامتی کی پہچان بنے گا۔
ملک میں فرقہ واریت کی بنیاد پر اگرچہ دہشت گردی کی پہلے بھی وارداتیں ہوتی رہتی تھیں‘ تاہم یہ مقامی نوعیت کی اور فروعی اختلافات رکھنے والے محض دو فرقوں تک محدود رہتی تھیں جبکہ گزشتہ دہائی کے آغاز میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکہ نے اپنی اتحادی نیٹو فورسز کے ذریعے افغان سرزمین پر دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ کا آغاز کیا جس میں ہمارے کمانڈو جرنیلی آمر مشرف نے اپنے اقتدار کے تحفظ کی خاطر امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کیا اور اسکے تحت نیٹو فورسز کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی گئی اور ہمارے چار ایئربیسز بھی نیٹو جنگی جہازوں کے تصرف میں آئے تو اسکے ردعمل میں ہماری سرزمین پر بھی دہشت گردی کا ناسور پھیلنا شروع ہو گیا۔ تقریباً 12 سال تک جاری رکھی گئی اس جنگ میں نیٹو فورسز کو بھی کچھ حاصل نہ ہوا اور بالآخر اپنا مشن ادھورا چھوڑ کر نیٹو ممالک کو اپنی افواج بتدریج واپس بلوانا پڑیں تاہم امریکہ نے آج بھی افغانستان میں مخصوص تعداد میں اپنی افواج رکھی ہوئی ہیں۔ اسکے باوجود افغانستان کا امن آج بھی دگرگوں ہے اور آج بھی خودکش حملوں سے افغان دھرتی لرز رہی ہے اور وہاں کے حکمران کابل تک محدود نظر آتے ہیں۔ افغان جنگ کی وجہ سے ہی ہمیں بھی اپنی سرزمین پر بدترین دہشت گردی کو بھگتنا پڑا جبکہ دہشت گردوں کے ہاتھوں اور امریکی ڈرون حملوں میں جتنا بھاری جانی نقصان پاکستان کا ہوا اور جس بے دردی کے ساتھ ہماری معیشت کا انجرپنجر ہلایا گیا‘ اتنا نقصان پچاس ممالک پر مشتمل نیٹو کی افواج کا مجموعی طور پر بھی نہیں ہوا ہوگا۔ ہمارے ان بھاری جانی و مالی نقصانات کی امریکہ کو بھی مکمل آگاہی ہے اور دنیا بھی دہشت گردی کی جنگ میں ہماری قربانیوں کی معترف ہے۔
ہمارے گلے پڑی اس پرائی بلا نے خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری گھناﺅنی وارداتوں کا سلسلہ پورے ملک میں پھیلایا اور دہشت گردوں نے ہمارے قبائلی و شمالی علاقہ جات میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنالئے تو ان کیخلاف سخت گیر فوجی اپریشن ہماری مجبوری بن گیا کیونکہ اس سے شہریوں کی جان و مال خطرے میں تھی تو حکومتی رٹ بھی تواتر کے ساتھ چیلنج ہو رہی تھی۔ اسی تناظر میں پیپلزپارٹی کے سابق دور حکومت میں جنوبی وزیرستان کے علاقوں سوات‘ دیر‘ چترال‘ مالاکنڈ‘ مہمند ایجنسی اور فاٹا میں سکیورٹی فورسز کا مرحلہ وار اپریشن شروع کیا گیا جسے اپریشن راہ راست کا نام دیا گیا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی زیرکمان شروع ہونیوالے اس اپریشن کے دوسرے مرحلے کا نام اپریشن راہ نجات قرار پایا جس سے یہ تاثر دینا مقصود تھا کہ ہم نے افواج پاکستان کے اپریشن کے ذریعے ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے نجات دلا دی ہے مگر فی الواقع ایسا نہیں تھا کیونکہ دہشت گردوں نے جنونی وزیرستان اپریشن کے دوران راہ فرار اختیار کرکے شمالی وزیرستان اور ملک کے دوسرے علاقوں میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنالئے تھے۔ اگر اس وقت اپریشن کا تسلسل برقرار رکھا جاتا اور بھاگنے والے دہشت گردوں کا پیچھا کرکے انکی سرکوبی کی جاتی تو ممکن ہے آج ہم دہشت گردی سے محفوظ پاکستان میں زندگی بسر کررہے ہوتے تاہم اس وقت کی فوجی قیادت کی اپنی حکمت عملی تھی جس کے باعث شمالی وزیرستان اپریشن سے گریز کیا گیا جبکہ اسکے منفی اثرات دہشت گردوں کے مزید متحرک و مستحکم ہونے کی صورت میں مرتب ہوئے جنہوں نے بالخصوص بلوچستان اور کراچی کو ہدف بنا کر دہشت گردی کا نیا سلسلہ شروع کر دیا جبکہ پنجاب میں خودکش حملوں کی وارداتیں بڑھ گئیں۔ ملک میں عدم استحکام کا تاثر دینے والی اس صورتحال نے ہمارے ازلی دشمن بھارت کو بھی پاکستان میں ”را“ کا نیٹ ورک پھیلانے اور پاک افغان سرحد کے ذریعے اپنے تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں داخل کرنے کا نادر موقع فراہم کیا چنانچہ میاں نوازشریف کے اقتدار میں آتے آتے ملک دہشت گردوں کے نرغے میں آچکا تھا اور بالخصوص کراچی اور بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے ذریعے فتنہ فساد برپا کرنا روزمرہ کا معمول بن چکا تھا۔ میاں نوازشریف نے اقتدار میں آتے ہی دہشت گردی کا خاتمہ اپنی ترجیح اول بنایا اور سب سے پہلے کراچی کی بدامنی کی طرف توجہ دی جہاں تمام مکاتب زندگی کے نمائندہ لوگوں سے مشاورت کے بعد انہوں نے رینجرز اور پولیس کے مشترکہ ٹارگٹڈ اپریشن کا فیصلہ کیا۔ یہ اپریشن 3 سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی جاری ہے جبکہ 16 دسمبر 2014ءکو آرمی پبلک سکول پشاور میں معصوم بچوں اور اساتذہ کے ساتھ سفاکانہ دہشت گردی کے واقعہ کے بعد سول اور عسکری قیادت کا پیمانہ¿ صبر لبریز ہوگیا اور تمام سیاسی دینی قیادتوں کی مشاورت سے شمالی وزیرستان میں اپریشن ضرب عضب کا فیصلہ کیا گیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس اپریشن کے نتیجہ میں افواج پاکستان کو دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں‘ نتیجتاً ملک کے مختلف حصوں میں تسلسل سے ہونیوالی دہشت گردی کی وارداتوں کا زور ٹوٹ چکا ہے اور اب وہ منتشر و مایوس ہو کر دہشت گردی کی اکادکا وارداتوں تک آگئے ہیں۔ یہ کامیابی اس لئے حاصل ہوئی کہ اپریشن ضرب عضب کا دائرہ صرف شمالی وزیرستان تک محدود نہیں رہنے دیا گیا بلکہ ملک کے جس بھی حصے میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک اور ٹھکانوں کی نشاندہی ہوتی ہے‘ وہاں سرعت کے ساتھ اپریشن کا دائرہ وسیع کر دیا جاتا ہے۔ یقیناً یہ سول اور عسکری قیادتوں کی بہترین حکمت عملی اور اپریشن ضرب عضب کیلئے عوام کی بے لوث سپورٹ کا ہی نتیجہ ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے موجودہ سال کو دہشت گردی کے خاتمہ کا سال قرار دے کر اب تک ہونیوالی کامیابیاں قوم کے ساتھ شیئر کرنا شروع کر دی ہیں۔ اگر جنوبی وزیرستان اپریشن کی طرح اپریشن ضرب عضب بھی محض شمالی وزیرستان تک محدود رکھا جاتا تو پھر ملک میں پھیلے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو کبھی نہ توڑا جا سکتا۔ اب آرمی چیف دہشت گردوں اور انکے مددگاروں کیلئے زمین تنگ ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں اور اپریشن ضرب عضب پورے ملک میں پختہ عزم کے ساتھ جاری رکھنے کا اعلان کر رہے ہیں تو یہ قوم کے افواج پاکستان پر اعتماد کا ہی غماز ہے۔ یقیناً اسی اعتماد و یکجہتی کی کراچی کے ٹارگٹڈ اپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے بھی ضرورت ہے مگر بدقسمتی سے سندھ کی حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے اپنے اپنے مفادات اور ٹارگٹڈ اپریشن پر انکے تحفظات کے باعث اب تک ٹارگٹڈ اپریشن کیلئے اتحاد و یکجہتی والی فضا استوار نہیں ہو پائی اور وہاں خود حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی جانب سے اپریشن کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے۔ جس کا پس منظر اپریشن کے دوران انکے اپنے لوگوں کے گرفت میں آنے کا ہے۔ اسی تناظر میں اپریشن کا دائرہ سندھ کے دوسرے علاقوں تک وسیع کرنے کی بھی حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مخالفت ہوئی اور رینجرز کے اختیارات بڑھانے کا معاملہ بھی کھٹائی میں ڈالنے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔ سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اس سلسلہ میں وزارت داخلہ کی بھجوائی گئی سمری پر دستخط کرنے سے معذرت کرلی‘ نتیجتاً رینجرز کے قیام کی مدت ختم ہونے پر ٹارگٹڈ اپریشن بھی رک گیا جس سے اس اپریشن کا سوا تین سال کا سارا سفر کھوٹا ہونے کے خدشات لاحق ہوئے۔ اس پر وفاق کی جانب سے سندھ میں دوسرے آپشن اختیار کرنے کا عندیہ دیا گیا تو پیپلزپارٹی کی ہائی کمان نے دوبئی میں سندھ حکومت اور پارٹی کے عہدیداروں کو بلا کر انکے ساتھ مشاورت کی اور وزیراعلیٰ سندھ کو تبدیل کرنے کے علاوہ رینجرز کے قیام اور اختیارات میں توسیع کو قبول کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ اسی تناظر میں گزشتہ روز نئے وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ نے متعلقہ سمری پر دستخط کر دیئے ہیں۔ چنانچہ اب رینجرز کا ٹارگٹڈ اپریشن پورے سندھ میں مزید اختیارات کے ساتھ شروع ہوگا تو فیصلہ کن بھی ثابت ہوگا۔ اگر سندھ حکومت اور حکمران پیپلزپارٹی کی قیادت کی جانب سے یہی فیصلہ رینجرز کے قیام کی مدت ختم ہونے سے پہلے کرلیا گیا ہوتا تو اپریشن میں کسی قسم کا تعطل پیدا نہ ہوتا۔
یہ طے شدہ امر ہے کہ اپریشن ضرب عضب کی کامیابی کا دارومدار بھی ٹارگٹڈ اپریشن کی کامیابی پر ہے۔ اگر ملک میں امن و امان کا مستقل قیام مقصود ہے تو پھر بغیرکسی لگی لپٹی کے ٹارگٹڈ اپریشن بھی سندھ کے متعلقہ علاقوں تک لے جا کر کراچی‘ سندھ اور ملک بھر میں دہشت گردی کے ناسور سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ توقع کی جانی چاہیے کہ اب سندھ کے نئے حکمرانوں کو بھی اس صورتحال کا ادراک ہوچکا ہوگا اور وہ اب ٹارگٹڈ اپریشن میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہیں ہونے دینگے۔ اس اپریشن میں سرخروئی بلاشبہ پورے ملک کی سرخروئی ہے۔
ملک میں فرقہ واریت کی بنیاد پر اگرچہ دہشت گردی کی پہلے بھی وارداتیں ہوتی رہتی تھیں‘ تاہم یہ مقامی نوعیت کی اور فروعی اختلافات رکھنے والے محض دو فرقوں تک محدود رہتی تھیں جبکہ گزشتہ دہائی کے آغاز میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکہ نے اپنی اتحادی نیٹو فورسز کے ذریعے افغان سرزمین پر دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ کا آغاز کیا جس میں ہمارے کمانڈو جرنیلی آمر مشرف نے اپنے اقتدار کے تحفظ کی خاطر امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کیا اور اسکے تحت نیٹو فورسز کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی گئی اور ہمارے چار ایئربیسز بھی نیٹو جنگی جہازوں کے تصرف میں آئے تو اسکے ردعمل میں ہماری سرزمین پر بھی دہشت گردی کا ناسور پھیلنا شروع ہو گیا۔ تقریباً 12 سال تک جاری رکھی گئی اس جنگ میں نیٹو فورسز کو بھی کچھ حاصل نہ ہوا اور بالآخر اپنا مشن ادھورا چھوڑ کر نیٹو ممالک کو اپنی افواج بتدریج واپس بلوانا پڑیں تاہم امریکہ نے آج بھی افغانستان میں مخصوص تعداد میں اپنی افواج رکھی ہوئی ہیں۔ اسکے باوجود افغانستان کا امن آج بھی دگرگوں ہے اور آج بھی خودکش حملوں سے افغان دھرتی لرز رہی ہے اور وہاں کے حکمران کابل تک محدود نظر آتے ہیں۔ افغان جنگ کی وجہ سے ہی ہمیں بھی اپنی سرزمین پر بدترین دہشت گردی کو بھگتنا پڑا جبکہ دہشت گردوں کے ہاتھوں اور امریکی ڈرون حملوں میں جتنا بھاری جانی نقصان پاکستان کا ہوا اور جس بے دردی کے ساتھ ہماری معیشت کا انجرپنجر ہلایا گیا‘ اتنا نقصان پچاس ممالک پر مشتمل نیٹو کی افواج کا مجموعی طور پر بھی نہیں ہوا ہوگا۔ ہمارے ان بھاری جانی و مالی نقصانات کی امریکہ کو بھی مکمل آگاہی ہے اور دنیا بھی دہشت گردی کی جنگ میں ہماری قربانیوں کی معترف ہے۔
ہمارے گلے پڑی اس پرائی بلا نے خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری گھناﺅنی وارداتوں کا سلسلہ پورے ملک میں پھیلایا اور دہشت گردوں نے ہمارے قبائلی و شمالی علاقہ جات میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنالئے تو ان کیخلاف سخت گیر فوجی اپریشن ہماری مجبوری بن گیا کیونکہ اس سے شہریوں کی جان و مال خطرے میں تھی تو حکومتی رٹ بھی تواتر کے ساتھ چیلنج ہو رہی تھی۔ اسی تناظر میں پیپلزپارٹی کے سابق دور حکومت میں جنوبی وزیرستان کے علاقوں سوات‘ دیر‘ چترال‘ مالاکنڈ‘ مہمند ایجنسی اور فاٹا میں سکیورٹی فورسز کا مرحلہ وار اپریشن شروع کیا گیا جسے اپریشن راہ راست کا نام دیا گیا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی زیرکمان شروع ہونیوالے اس اپریشن کے دوسرے مرحلے کا نام اپریشن راہ نجات قرار پایا جس سے یہ تاثر دینا مقصود تھا کہ ہم نے افواج پاکستان کے اپریشن کے ذریعے ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے نجات دلا دی ہے مگر فی الواقع ایسا نہیں تھا کیونکہ دہشت گردوں نے جنونی وزیرستان اپریشن کے دوران راہ فرار اختیار کرکے شمالی وزیرستان اور ملک کے دوسرے علاقوں میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنالئے تھے۔ اگر اس وقت اپریشن کا تسلسل برقرار رکھا جاتا اور بھاگنے والے دہشت گردوں کا پیچھا کرکے انکی سرکوبی کی جاتی تو ممکن ہے آج ہم دہشت گردی سے محفوظ پاکستان میں زندگی بسر کررہے ہوتے تاہم اس وقت کی فوجی قیادت کی اپنی حکمت عملی تھی جس کے باعث شمالی وزیرستان اپریشن سے گریز کیا گیا جبکہ اسکے منفی اثرات دہشت گردوں کے مزید متحرک و مستحکم ہونے کی صورت میں مرتب ہوئے جنہوں نے بالخصوص بلوچستان اور کراچی کو ہدف بنا کر دہشت گردی کا نیا سلسلہ شروع کر دیا جبکہ پنجاب میں خودکش حملوں کی وارداتیں بڑھ گئیں۔ ملک میں عدم استحکام کا تاثر دینے والی اس صورتحال نے ہمارے ازلی دشمن بھارت کو بھی پاکستان میں ”را“ کا نیٹ ورک پھیلانے اور پاک افغان سرحد کے ذریعے اپنے تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں داخل کرنے کا نادر موقع فراہم کیا چنانچہ میاں نوازشریف کے اقتدار میں آتے آتے ملک دہشت گردوں کے نرغے میں آچکا تھا اور بالخصوص کراچی اور بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے ذریعے فتنہ فساد برپا کرنا روزمرہ کا معمول بن چکا تھا۔ میاں نوازشریف نے اقتدار میں آتے ہی دہشت گردی کا خاتمہ اپنی ترجیح اول بنایا اور سب سے پہلے کراچی کی بدامنی کی طرف توجہ دی جہاں تمام مکاتب زندگی کے نمائندہ لوگوں سے مشاورت کے بعد انہوں نے رینجرز اور پولیس کے مشترکہ ٹارگٹڈ اپریشن کا فیصلہ کیا۔ یہ اپریشن 3 سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی جاری ہے جبکہ 16 دسمبر 2014ءکو آرمی پبلک سکول پشاور میں معصوم بچوں اور اساتذہ کے ساتھ سفاکانہ دہشت گردی کے واقعہ کے بعد سول اور عسکری قیادت کا پیمانہ¿ صبر لبریز ہوگیا اور تمام سیاسی دینی قیادتوں کی مشاورت سے شمالی وزیرستان میں اپریشن ضرب عضب کا فیصلہ کیا گیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس اپریشن کے نتیجہ میں افواج پاکستان کو دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں‘ نتیجتاً ملک کے مختلف حصوں میں تسلسل سے ہونیوالی دہشت گردی کی وارداتوں کا زور ٹوٹ چکا ہے اور اب وہ منتشر و مایوس ہو کر دہشت گردی کی اکادکا وارداتوں تک آگئے ہیں۔ یہ کامیابی اس لئے حاصل ہوئی کہ اپریشن ضرب عضب کا دائرہ صرف شمالی وزیرستان تک محدود نہیں رہنے دیا گیا بلکہ ملک کے جس بھی حصے میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک اور ٹھکانوں کی نشاندہی ہوتی ہے‘ وہاں سرعت کے ساتھ اپریشن کا دائرہ وسیع کر دیا جاتا ہے۔ یقیناً یہ سول اور عسکری قیادتوں کی بہترین حکمت عملی اور اپریشن ضرب عضب کیلئے عوام کی بے لوث سپورٹ کا ہی نتیجہ ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے موجودہ سال کو دہشت گردی کے خاتمہ کا سال قرار دے کر اب تک ہونیوالی کامیابیاں قوم کے ساتھ شیئر کرنا شروع کر دی ہیں۔ اگر جنوبی وزیرستان اپریشن کی طرح اپریشن ضرب عضب بھی محض شمالی وزیرستان تک محدود رکھا جاتا تو پھر ملک میں پھیلے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو کبھی نہ توڑا جا سکتا۔ اب آرمی چیف دہشت گردوں اور انکے مددگاروں کیلئے زمین تنگ ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں اور اپریشن ضرب عضب پورے ملک میں پختہ عزم کے ساتھ جاری رکھنے کا اعلان کر رہے ہیں تو یہ قوم کے افواج پاکستان پر اعتماد کا ہی غماز ہے۔ یقیناً اسی اعتماد و یکجہتی کی کراچی کے ٹارگٹڈ اپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے بھی ضرورت ہے مگر بدقسمتی سے سندھ کی حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے اپنے اپنے مفادات اور ٹارگٹڈ اپریشن پر انکے تحفظات کے باعث اب تک ٹارگٹڈ اپریشن کیلئے اتحاد و یکجہتی والی فضا استوار نہیں ہو پائی اور وہاں خود حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی جانب سے اپریشن کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے۔ جس کا پس منظر اپریشن کے دوران انکے اپنے لوگوں کے گرفت میں آنے کا ہے۔ اسی تناظر میں اپریشن کا دائرہ سندھ کے دوسرے علاقوں تک وسیع کرنے کی بھی حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مخالفت ہوئی اور رینجرز کے اختیارات بڑھانے کا معاملہ بھی کھٹائی میں ڈالنے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔ سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اس سلسلہ میں وزارت داخلہ کی بھجوائی گئی سمری پر دستخط کرنے سے معذرت کرلی‘ نتیجتاً رینجرز کے قیام کی مدت ختم ہونے پر ٹارگٹڈ اپریشن بھی رک گیا جس سے اس اپریشن کا سوا تین سال کا سارا سفر کھوٹا ہونے کے خدشات لاحق ہوئے۔ اس پر وفاق کی جانب سے سندھ میں دوسرے آپشن اختیار کرنے کا عندیہ دیا گیا تو پیپلزپارٹی کی ہائی کمان نے دوبئی میں سندھ حکومت اور پارٹی کے عہدیداروں کو بلا کر انکے ساتھ مشاورت کی اور وزیراعلیٰ سندھ کو تبدیل کرنے کے علاوہ رینجرز کے قیام اور اختیارات میں توسیع کو قبول کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ اسی تناظر میں گزشتہ روز نئے وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ نے متعلقہ سمری پر دستخط کر دیئے ہیں۔ چنانچہ اب رینجرز کا ٹارگٹڈ اپریشن پورے سندھ میں مزید اختیارات کے ساتھ شروع ہوگا تو فیصلہ کن بھی ثابت ہوگا۔ اگر سندھ حکومت اور حکمران پیپلزپارٹی کی قیادت کی جانب سے یہی فیصلہ رینجرز کے قیام کی مدت ختم ہونے سے پہلے کرلیا گیا ہوتا تو اپریشن میں کسی قسم کا تعطل پیدا نہ ہوتا۔
یہ طے شدہ امر ہے کہ اپریشن ضرب عضب کی کامیابی کا دارومدار بھی ٹارگٹڈ اپریشن کی کامیابی پر ہے۔ اگر ملک میں امن و امان کا مستقل قیام مقصود ہے تو پھر بغیرکسی لگی لپٹی کے ٹارگٹڈ اپریشن بھی سندھ کے متعلقہ علاقوں تک لے جا کر کراچی‘ سندھ اور ملک بھر میں دہشت گردی کے ناسور سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ توقع کی جانی چاہیے کہ اب سندھ کے نئے حکمرانوں کو بھی اس صورتحال کا ادراک ہوچکا ہوگا اور وہ اب ٹارگٹڈ اپریشن میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہیں ہونے دینگے۔ اس اپریشن میں سرخروئی بلاشبہ پورے ملک کی سرخروئی ہے۔
(روزنامہ نوائے وقت)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں