رضاءالدین صدیقی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:رزق کا احترام کرو، جو شخص رزق کا احترام کرے گا،اللہ تعالیٰ اسے عزت وافتخار عطاءکرے گااوراس کا رزق بڑھادے گا۔(طبرانی)
٭ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر انسان کو بے شمار نعمتیں عطاءفرمائی ہیں یہ سب اللہ کریم کی طرف سے رزق ہے ۔اب مزید رزق دینے سے پہلے اللہ تعالیٰ بندے کو آزماتا ہے اگر بندہ اللہ کی تقسیم (اورعنایت)پر راضی اورجو کچھ اسے ملا ہے اس کو خوش دلی سے قبول کرے اوراپنے پاک پروردگار کا شکر گزار رہے تو اللہ رب العزت اس کے رزق میں برکت دیتا ہے اور اس کاحصہ بڑھا دیتا ہے ،لیکن اگر وہ پہلے سے ملے ہوئے پر راضی نہ ہو تواس کا حصہ اتنا ہی دیتا ہے اورجو کچھ اس کے پاس اس کی برکتوں سے بھی محروم ہوجاتاہے ۔(شعب الایمان)
٭ جب اللہ تبارک وتعالیٰ کسی انسان کے ساتھ بھلائی کاارادہ فرماتا ہے تواسے اپنی تقسیم رزق پر دل سے راضی کردیتا ہے پھر اللہ کریم اسے جو کچھ عنایت فرماتا ہے وہ اسے بشاشت قلب سے قبول کرلیتا ہے ، تواللہ تعالیٰ اس میں (غیر معمولی)برکت (وسعت)اورفراوانی پیدا کردیتا ہے۔(دیلمی)
٭ جو شخص دین کا علم حاصل کرنے اوراسے سمجھنے کی کوشش کرے، فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں، اس شب روز میں خیر وبرکت آتی ہے اس کا رزق بڑھتا ہے اللہ رب العزت (خود )اس کے رزق کا کفیل بن جاتا ہے ، مشکلات میں اسے سہارا دیتا ہے اوراسے ایسے طریقوں سے رزق دیتا ہے جو اس کے گمان سے بھی باہر ہوں۔(کنزالعمال)
٭ (زندگی میں)وہی انسان کامیاب ہے جسے ایما ن کی دولت اوربقدرِ ضرورت رزق نصیب ہوجائے ،اورجو کچھ اللہ رب العزت کی جناب سے مرحمت ہواس پر قناعت کی توفیق بھی مل جائے ، پس ایسے شخص کے لیے سعادت اورخوشحالی کی بشارت ہے۔ (مسلم، ترمذی، احمد)
٭ جس شخص کا اللہ پر ایمان پختہ ہو، اس کے بارے میں اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اسے بے حساب رزق دے گا، اوروہاں سے دے گاجہاں اس کا گمان بھی نہ جائے۔(دیلمی)٭قناعت (بذات خود) ایک مال ہے، ایسا مال جوایک بندے کے پاس ہمیشہ رہتا ہے اورکبھی ختم نہیں ہوتا یہ ایک ایسا خزانہ ہے جو استعمال کرنے سے کم نہیں ہوتا بلکہ اس میں اضافہ ہوتا ہے ۔ (طبرانی)٭حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،اگر تم دولت مند بننا چاہتے ہو تو قناعت اورمیانہ روی اختیار کرو، جس شخص کے پاس قناعت کا خزانہ موجود نہ ہو،اسے دنیا کا کوئی سرمایہ دولت مند نہیں بنا سکتا۔(ابن عساکر)
٭ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر انسان کو بے شمار نعمتیں عطاءفرمائی ہیں یہ سب اللہ کریم کی طرف سے رزق ہے ۔اب مزید رزق دینے سے پہلے اللہ تعالیٰ بندے کو آزماتا ہے اگر بندہ اللہ کی تقسیم (اورعنایت)پر راضی اورجو کچھ اسے ملا ہے اس کو خوش دلی سے قبول کرے اوراپنے پاک پروردگار کا شکر گزار رہے تو اللہ رب العزت اس کے رزق میں برکت دیتا ہے اور اس کاحصہ بڑھا دیتا ہے ،لیکن اگر وہ پہلے سے ملے ہوئے پر راضی نہ ہو تواس کا حصہ اتنا ہی دیتا ہے اورجو کچھ اس کے پاس اس کی برکتوں سے بھی محروم ہوجاتاہے ۔(شعب الایمان)
٭ جب اللہ تبارک وتعالیٰ کسی انسان کے ساتھ بھلائی کاارادہ فرماتا ہے تواسے اپنی تقسیم رزق پر دل سے راضی کردیتا ہے پھر اللہ کریم اسے جو کچھ عنایت فرماتا ہے وہ اسے بشاشت قلب سے قبول کرلیتا ہے ، تواللہ تعالیٰ اس میں (غیر معمولی)برکت (وسعت)اورفراوانی پیدا کردیتا ہے۔(دیلمی)
٭ جو شخص دین کا علم حاصل کرنے اوراسے سمجھنے کی کوشش کرے، فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں، اس شب روز میں خیر وبرکت آتی ہے اس کا رزق بڑھتا ہے اللہ رب العزت (خود )اس کے رزق کا کفیل بن جاتا ہے ، مشکلات میں اسے سہارا دیتا ہے اوراسے ایسے طریقوں سے رزق دیتا ہے جو اس کے گمان سے بھی باہر ہوں۔(کنزالعمال)
٭ (زندگی میں)وہی انسان کامیاب ہے جسے ایما ن کی دولت اوربقدرِ ضرورت رزق نصیب ہوجائے ،اورجو کچھ اللہ رب العزت کی جناب سے مرحمت ہواس پر قناعت کی توفیق بھی مل جائے ، پس ایسے شخص کے لیے سعادت اورخوشحالی کی بشارت ہے۔ (مسلم، ترمذی، احمد)
٭ جس شخص کا اللہ پر ایمان پختہ ہو، اس کے بارے میں اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اسے بے حساب رزق دے گا، اوروہاں سے دے گاجہاں اس کا گمان بھی نہ جائے۔(دیلمی)٭قناعت (بذات خود) ایک مال ہے، ایسا مال جوایک بندے کے پاس ہمیشہ رہتا ہے اورکبھی ختم نہیں ہوتا یہ ایک ایسا خزانہ ہے جو استعمال کرنے سے کم نہیں ہوتا بلکہ اس میں اضافہ ہوتا ہے ۔ (طبرانی)٭حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،اگر تم دولت مند بننا چاہتے ہو تو قناعت اورمیانہ روی اختیار کرو، جس شخص کے پاس قناعت کا خزانہ موجود نہ ہو،اسے دنیا کا کوئی سرمایہ دولت مند نہیں بنا سکتا۔(ابن عساکر)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں