پیدائش کے وقت بچہ پھول کی مانند ہوتا ہے، جوں جوں بڑا ہوتا ہے، اس کی شکل بدلتی جاتی ہے۔ جس طرح موسم انسان پر اثرانداز ہوتے ہیں، اسی طرح حالات کے ہاتھوں شخصیت سنورتی یا بگڑتی جاتی ہے۔ 68 سالہ شخص پڑھا لکھا نہ بھی ہو، غیر معمولی تجربہ کا حامل ضرور ہوتا ہے۔ جسمانی طور پر نحیف تو ہو جاتا ہے لیکن اسکے علم، عقل اور تجربہ کے مقابل کم ہی لوگ آتے ہیں۔ پاکستان جوانی میں ہی ایک بازو علیحدہ ہو جانے سے نحیف ہو گیا تھا۔ ایک بازو کاٹ کر بھی دشمنوں کو چین نہ آیا، وہ آج تک اسی کوشش میں لگے ہیں کہ دوسرا بازو بھی کیوں سلامت ہے۔ ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے، پیسہ خرچ ہورہا ہے، بازوپر جگہ جگہ دہشتگردی کے نشان نمایاں ہیں، باوردی ڈاکٹر رات دن علاج میں مصروف ہیں، آپریشن ضرب عضب بازو کو سلامت رکھنے اور مزید چھلنی ہونے سے بچانے کیلئے پوری قوت سے جاری ہے، لیکن بازو سے کام لینے والے سبھی دل و جان سے بازو کا دفاع کرنے والوں کا ساتھ نہ دیں تو بات نہیں بنتی۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی چونچیں لڑانے کا منظر پوری قوم دیکھ رہی ہے۔ ایک دوسرے کو بے لباس کیا جارہا ہے، ایان علی ماڈل کا آصف زرداری سے کیا تعلق ہے؟ چوہدری نثار اپوزیشن لیڈر کی جڑ کھود لائے ہیں۔ کہتے ہیں میں نے کبھی پوچھا میٹر ریڈر یہاں تک کیسے پہنچا، بلاول اور ایان علی کا ائرٹکٹ ایک ہی اکائونٹ سے بنتا ہے، اسی طرح ن لیگ اور عمران کی توتو میں میں سے اس ملک کو، اس ملک کی سیاست اور اس ملک کے عوام کو کیا حاصل ہوا ہے۔ فارغ عورتیں اس طرح سے لڑتی ہیں، ایک دوسرے کے پول کھولتی ہیں۔ سیاستدانوں کی صحت پر سانحہ کوئٹہ نے کوئی اثر ڈالا ہو یا نہ ہو، البتہ عساکر پاکستان کو ضرور تشویش میں مبتلا کیا ہے۔ دہشتگردی کے ہر بڑے واقعے کے بعد سیاسی اور عسکری قیادت سر جوڑ کر بیٹھتی رہی ہے، غور و فکر کے کئی نئے زاویے سامنے آتے رہے ہیں، قومی اسمبلی میں سانحہ کوئٹہ پر بحث کے دوران اپوزیشن نے حکومتی پالیسیوں کو شدید تقید کا نشانہ بنایا اور قومی ایکشن پلان میں متعلقہ اداروں کی ناکامی کو اجاگر کیا۔ دہشت گردی کیخلاف طویل عرصے سے جنگ جاری ہے۔ آپریشنز کے نتیجے میں ملک کی سکیورٹی صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے۔ تاہم نیشنل ایکشن پلان پر سست روی آپریشن ضرب عضب کو متاثر کررہی ہے۔ بلوچستان میں بعض بیرونی طاقتوں کی غیر معمولی دلچسپی صاف دکھائی دے رہی ہے، بھارتی حکمران پاک چین اقتصادی راہداری کی کھلم کھلا مخالفت کررہے ہیں۔ یہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں کے پیچھے بھارت، اسرائیل، امریکہ، داعش، کالعدم تحریک طالبان، لشکر جھنگوی یا جماعت الاحرار کا ہاتھ ہے۔ نقصان تو پاکستان کا ہورہا ہے، کسی کے دشمن صرف گھر کے باہر نہیں ہوتے، خاندان میں سے ہی لوگ دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ میرجعفر اور میر صادق لندن سے نہیں آئے تھے، اسی طرح پاکستان کے دشمن ہمارے اندر سے ایجنٹ تلاش کرکے ہمیں غیر مستحکم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ سانحہ کوئٹہ کے بعد مولانا محمد خان شیرانی اور محمود خان اچکزئی کے بیانات نے ارتعاش پیدا کیا۔ اچکزئی کا کہنا کہ گدلے پانی سے سوئی ڈھونڈ لینے والی ایجنسیاں دہشت گرد کیوں پکڑ نہیں پا رہیں۔ مولانا شیرانی نے تو واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ بلوچستان میں کوئی ’’را‘‘ (بھارتی ایجنسی) یا موساد (اسرائیلی ایجنسی) نہیں بلکہ ہمارے اپنے ہی پیدا کردہ لوگ ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیرجمالی کے بیان کو کون نظرانداز کرسکتا ہے کہ سکیورٹی گارڈز کی آڑ میں ’’را‘‘ اور طالبان ایجنٹس کی بھرتی ہورہی ہے۔ گارڈز کی کوئی سکریننگ نہیں، سب سے زیادہ بینک ڈکیتیاں یہی کر رہے ہیں۔ پاکستان کا جن دہشتگردوں سے سامنا ہے، اُن کا شمار دنیا کے سفاک اور سخت جان ترین جنگجوئوں میں ہوتا ہے۔ یہ اکثر اوقات شہریوں میں گھل مل جاتے ہیں، معصوم بچوں کے اغواء کار بھی یہی سفاک لوگ ہیں جو مختلف شہری علاقوں میں روپوش ہیں۔ بڑے لوگ پروٹوکول اور اپنی ذاتی سکیورٹی کے حصار میں محفوظ ہیں۔ بڑے بڑے سانحات کانشانہ تو عام شہری بنتے ہیں۔
ہم پُرامن ملک کیوں نہیں بن پارہے، اس لئے کہ ہمارے گرد و نواح کے لوگ ہم سے محبت کرنے والے نہیں ہیں۔ چار میں سے تین ہمسائے ہمارے خلاف ہیں۔ وزیراعظم نے ن لیگ تو کیا پوری پارلیمنٹ میں کسی ایک شخص کو بھی اس قابل نہیں سمجھا کہ اسے وزیر خارجہ کا منصب عطا کردیتے۔ خارجہ امور میں ان کے دائیں سرتاج عزیز ہیں تو بائیں جانب طارق فاطمی۔ شکر ہے ابھرتی ہوئی سپرپاور چین سے ہمارے تعلقات بھائیوں جیسے ہیں۔ ایران سے تعلقات میں دشواری ہے لیکن باہمی تعاون کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ خلیجی ممالک، سعودی عرب اور ترکی سے بھی برادر حقیقی جیسے تعلقات ہیں۔ تعلقات میں سب سے زیادہ تنائو بھارت کے ساتھ ہے۔ مودی کی پاکستان دشمنی روز روشن کی طرح عیاں ہے، یہ علیحدہ بات کہ وہ ظہرانے کیلئے جاتی امرا بلائے گئے۔ بھارت امریکہ کا جگری یار جبکہ چین سے دل میلا رکھتا ہے۔ بھارت امریکہ گٹھ جوڑ ہماری سکیورٹی کیلئے چیلنج ہے۔ افغانستان میں امریکی افواج غیر معینہ مدت کیلئے موجود ہیں۔ افغانستان ہمارے ہاتھوں افغان طالبان کیلئے لشکرکشی چاہتا ہے۔ بھارت کی بھی یہی خواہش ہے۔ مسئلہ کشمیر پر نتیجہ خیز مذاکرات کے بغیر بھارت سے تعلقات کامعمول پر لانا ممکن نہیں۔ بھارت کشمیریوں کی گردن دبانے کیلئے بلوچستان، اندرون سندھ اور کراچی میں حکومت پاکستان کی رٹ کمزور کرنے کے در پہ ہے۔ ’’را‘‘ اور افغان خفیہ ایجنسی بلوچستان لبریشن آرمی کو سپورٹ کررہی ہیں۔ یہ دوسری مکتی باہنی ہے۔
جس طرح ملٹری پالیسی پیشہ ور فوجی تیار کرتے ہیں، اسی طرح خارجہ پالیسی کیلئے پیشہ وارانہ صلاحیت کے لوگ درکار ہیں۔ 2018ء کے الیکشن کو سامنے رکھ کر سیاسی اکھاڑے میں سب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے تلے ہوئے ہیں۔ عسکری قیادت کی طرح سیاسی قیادت بھی ایسی ہونی چاہئے جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ اسکے بعد ہی ہمارے ہمسایوں کے کان کھڑے ہونگے۔ طاہر القادری اور عمران خان نواز شریف مخالفت میں پاکستان کی بھلائی نہیں کررہے۔ سیاسی جماعتیں کسی آئیڈیالوجی کو لیکر نہیں چل رہیں۔ آج کی سیاست شخصیت پرستی کا دوسرانام ہے۔ کسی بھی جماعت کا کوئی کتنا بڑا ورکر ہو، اپنے لیڈر کا متبادل ثابت نہیں ہوسکتا۔ ایم کیو ایم الطاف حسین کی پجاری رہی، پی پی پی بھٹو دے نعرے وجن گے سے آگے نہ گئی، ن لیگ نواز شریف کے علاوہ کسی کو کچھ نہیں جانتی، تحریک انصاف کا دوسرا نام تحریک عمران ہے۔ جس پر سب بیٹھے ہیں وہ چارپائی ڈھیلی ہوتی جارہی ہے، خدانخواستہ گر بھی سکتی ہے۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی چونچیں لڑانے کا منظر پوری قوم دیکھ رہی ہے۔ ایک دوسرے کو بے لباس کیا جارہا ہے، ایان علی ماڈل کا آصف زرداری سے کیا تعلق ہے؟ چوہدری نثار اپوزیشن لیڈر کی جڑ کھود لائے ہیں۔ کہتے ہیں میں نے کبھی پوچھا میٹر ریڈر یہاں تک کیسے پہنچا، بلاول اور ایان علی کا ائرٹکٹ ایک ہی اکائونٹ سے بنتا ہے، اسی طرح ن لیگ اور عمران کی توتو میں میں سے اس ملک کو، اس ملک کی سیاست اور اس ملک کے عوام کو کیا حاصل ہوا ہے۔ فارغ عورتیں اس طرح سے لڑتی ہیں، ایک دوسرے کے پول کھولتی ہیں۔ سیاستدانوں کی صحت پر سانحہ کوئٹہ نے کوئی اثر ڈالا ہو یا نہ ہو، البتہ عساکر پاکستان کو ضرور تشویش میں مبتلا کیا ہے۔ دہشتگردی کے ہر بڑے واقعے کے بعد سیاسی اور عسکری قیادت سر جوڑ کر بیٹھتی رہی ہے، غور و فکر کے کئی نئے زاویے سامنے آتے رہے ہیں، قومی اسمبلی میں سانحہ کوئٹہ پر بحث کے دوران اپوزیشن نے حکومتی پالیسیوں کو شدید تقید کا نشانہ بنایا اور قومی ایکشن پلان میں متعلقہ اداروں کی ناکامی کو اجاگر کیا۔ دہشت گردی کیخلاف طویل عرصے سے جنگ جاری ہے۔ آپریشنز کے نتیجے میں ملک کی سکیورٹی صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے۔ تاہم نیشنل ایکشن پلان پر سست روی آپریشن ضرب عضب کو متاثر کررہی ہے۔ بلوچستان میں بعض بیرونی طاقتوں کی غیر معمولی دلچسپی صاف دکھائی دے رہی ہے، بھارتی حکمران پاک چین اقتصادی راہداری کی کھلم کھلا مخالفت کررہے ہیں۔ یہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں کے پیچھے بھارت، اسرائیل، امریکہ، داعش، کالعدم تحریک طالبان، لشکر جھنگوی یا جماعت الاحرار کا ہاتھ ہے۔ نقصان تو پاکستان کا ہورہا ہے، کسی کے دشمن صرف گھر کے باہر نہیں ہوتے، خاندان میں سے ہی لوگ دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ میرجعفر اور میر صادق لندن سے نہیں آئے تھے، اسی طرح پاکستان کے دشمن ہمارے اندر سے ایجنٹ تلاش کرکے ہمیں غیر مستحکم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ سانحہ کوئٹہ کے بعد مولانا محمد خان شیرانی اور محمود خان اچکزئی کے بیانات نے ارتعاش پیدا کیا۔ اچکزئی کا کہنا کہ گدلے پانی سے سوئی ڈھونڈ لینے والی ایجنسیاں دہشت گرد کیوں پکڑ نہیں پا رہیں۔ مولانا شیرانی نے تو واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ بلوچستان میں کوئی ’’را‘‘ (بھارتی ایجنسی) یا موساد (اسرائیلی ایجنسی) نہیں بلکہ ہمارے اپنے ہی پیدا کردہ لوگ ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیرجمالی کے بیان کو کون نظرانداز کرسکتا ہے کہ سکیورٹی گارڈز کی آڑ میں ’’را‘‘ اور طالبان ایجنٹس کی بھرتی ہورہی ہے۔ گارڈز کی کوئی سکریننگ نہیں، سب سے زیادہ بینک ڈکیتیاں یہی کر رہے ہیں۔ پاکستان کا جن دہشتگردوں سے سامنا ہے، اُن کا شمار دنیا کے سفاک اور سخت جان ترین جنگجوئوں میں ہوتا ہے۔ یہ اکثر اوقات شہریوں میں گھل مل جاتے ہیں، معصوم بچوں کے اغواء کار بھی یہی سفاک لوگ ہیں جو مختلف شہری علاقوں میں روپوش ہیں۔ بڑے لوگ پروٹوکول اور اپنی ذاتی سکیورٹی کے حصار میں محفوظ ہیں۔ بڑے بڑے سانحات کانشانہ تو عام شہری بنتے ہیں۔
ہم پُرامن ملک کیوں نہیں بن پارہے، اس لئے کہ ہمارے گرد و نواح کے لوگ ہم سے محبت کرنے والے نہیں ہیں۔ چار میں سے تین ہمسائے ہمارے خلاف ہیں۔ وزیراعظم نے ن لیگ تو کیا پوری پارلیمنٹ میں کسی ایک شخص کو بھی اس قابل نہیں سمجھا کہ اسے وزیر خارجہ کا منصب عطا کردیتے۔ خارجہ امور میں ان کے دائیں سرتاج عزیز ہیں تو بائیں جانب طارق فاطمی۔ شکر ہے ابھرتی ہوئی سپرپاور چین سے ہمارے تعلقات بھائیوں جیسے ہیں۔ ایران سے تعلقات میں دشواری ہے لیکن باہمی تعاون کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ خلیجی ممالک، سعودی عرب اور ترکی سے بھی برادر حقیقی جیسے تعلقات ہیں۔ تعلقات میں سب سے زیادہ تنائو بھارت کے ساتھ ہے۔ مودی کی پاکستان دشمنی روز روشن کی طرح عیاں ہے، یہ علیحدہ بات کہ وہ ظہرانے کیلئے جاتی امرا بلائے گئے۔ بھارت امریکہ کا جگری یار جبکہ چین سے دل میلا رکھتا ہے۔ بھارت امریکہ گٹھ جوڑ ہماری سکیورٹی کیلئے چیلنج ہے۔ افغانستان میں امریکی افواج غیر معینہ مدت کیلئے موجود ہیں۔ افغانستان ہمارے ہاتھوں افغان طالبان کیلئے لشکرکشی چاہتا ہے۔ بھارت کی بھی یہی خواہش ہے۔ مسئلہ کشمیر پر نتیجہ خیز مذاکرات کے بغیر بھارت سے تعلقات کامعمول پر لانا ممکن نہیں۔ بھارت کشمیریوں کی گردن دبانے کیلئے بلوچستان، اندرون سندھ اور کراچی میں حکومت پاکستان کی رٹ کمزور کرنے کے در پہ ہے۔ ’’را‘‘ اور افغان خفیہ ایجنسی بلوچستان لبریشن آرمی کو سپورٹ کررہی ہیں۔ یہ دوسری مکتی باہنی ہے۔
جس طرح ملٹری پالیسی پیشہ ور فوجی تیار کرتے ہیں، اسی طرح خارجہ پالیسی کیلئے پیشہ وارانہ صلاحیت کے لوگ درکار ہیں۔ 2018ء کے الیکشن کو سامنے رکھ کر سیاسی اکھاڑے میں سب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے تلے ہوئے ہیں۔ عسکری قیادت کی طرح سیاسی قیادت بھی ایسی ہونی چاہئے جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ اسکے بعد ہی ہمارے ہمسایوں کے کان کھڑے ہونگے۔ طاہر القادری اور عمران خان نواز شریف مخالفت میں پاکستان کی بھلائی نہیں کررہے۔ سیاسی جماعتیں کسی آئیڈیالوجی کو لیکر نہیں چل رہیں۔ آج کی سیاست شخصیت پرستی کا دوسرانام ہے۔ کسی بھی جماعت کا کوئی کتنا بڑا ورکر ہو، اپنے لیڈر کا متبادل ثابت نہیں ہوسکتا۔ ایم کیو ایم الطاف حسین کی پجاری رہی، پی پی پی بھٹو دے نعرے وجن گے سے آگے نہ گئی، ن لیگ نواز شریف کے علاوہ کسی کو کچھ نہیں جانتی، تحریک انصاف کا دوسرا نام تحریک عمران ہے۔ جس پر سب بیٹھے ہیں وہ چارپائی ڈھیلی ہوتی جارہی ہے، خدانخواستہ گر بھی سکتی ہے۔
(روزنامہ
نوائے وقت)

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں