جمعرات، 4 اگست، 2016

برباد ہوتے سرکاری ادارے اور پیپلز ویلفیئر سنٹر

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی


اعتزاز احسن زبردست آدمی ہیں۔ وکیلوں کے لیڈر رہے ہیں۔ جب وکیل ان سے بیزار اور بدظن بلکہ ’’بدزن‘‘ ہو گئے تو ’’صدر‘‘ زرداری نے چیف جسٹس افتخار چودھری کو بحال کر دیا۔ اس طرح لوگوں کو بے حال کر دیا گیا۔ ’’صدر‘‘ تو چیف جسٹس کے حق میں نہ تھے مگر لوگوں کو بعد میں پتہ چلا کہ یہ کتنا ناحق مطالبہ تھا۔ آج کل ان کی سرگرمیاں دیکھیں جو شرگرمیاں بنتی جا رہی ہیں۔

اعتزاز نے دلیر اور غیور وزیر داخلہ چودھری نثار پر سب خوبصورت جملے کسے ہیں مگر اس سے پہلے تمام وزرا کو رگڑا دیا ہے۔ وہ سب ن لیگ کے ہیں۔ وزرا میڈیا کے سامنے ہم پر تنقید کرتے ہیں۔ جب سپیکر کے چیمبر میں آتے ہیں تو ہمارے پائوں پکڑ لیتے ہیں۔ یہ بات تو پولیس کے بارے میں ایک دوست نے بتائی تھی کہ وہ بیک وقت دو کام کے لیے بروقت بلکہ بیک وقت تیار ہوتے ہیں: ’’گلے پڑنا اور پائوں پڑنا‘‘ جب کوئی طاقتور ہو تو پائوں پڑ جاتے ہیں۔ کوئی کمزور ہو تو گلے پڑ جاتے ہیں۔ ہر دور کے بالخصوص اس دور کے وزراء تو پولیس کے محتاج ہیںاور ان کے مداح ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چودھری نثار کے اعصاب پر میں سوار رہتا ہوں۔ اعتزاز کو شاید علم نہ ہو کہ جب چودھری نثار کسی پر سوار ہوتے ہیں تو شہسوار بن جاتے ہیں۔ اس لیے ان سے بچ کر چلیں۔ یہ ٹھیک کہا اعتزاز نے کہ پانامہ لیکس کے حوالے سے حکومت دو عملی کا شکار ہے۔ پانامہ لیکس تو پاجامہ لیکس بن چکی ہے اور پاجامہ پھٹ چکا ہے۔ اب حکومت والوں نے یہ طے کرنا ہے کہ الف ننگے ہو جائیں یا کوئی چادر وغیرہ لپیٹ لیں۔

’’ٹی او آرز کے معاملے میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک ہو چکا ہے بلکہ ڈیتھ لاک ہو چکا ہے۔‘‘ ڈیڈ لاک کا مطلب بھی وہی جو ڈیتھ لاک میں ہے مگر ڈیتھ سے عام لوگوں کو سمجھ میں جلدی آ جاتا ہے۔ کئی معاملات میں ہر طرح کے رابطوں کی ڈیتھ واقع ہو چکی ہے۔ اعتزاز کہتے ہیں اس حوالے سے میرا رابطہ کسی کے ساتھ نہیں ہے۔ اب معاملہ شاہ محمود قریشی اور اسحاق ڈارکے پاس ہے۔ تو پھر مردہ دفن ہو چکا ہو گا۔

کسی کمیٹی میں چودھری نثار اور اعتزاز احسن کو رکھیں تو مزا آ جائے۔ ایک دفعہ قومی اسمبلی میں اعتزاز احسن نے چودھری نثار کے لیے مخالفت کی انتہا کر دی تھی۔ جانے چودھری نثار کو خاموش کس طرح کرا لیا گیا تھا۔ تب سے اعتزاز احسن چودھری نثار کے لیے بہت بھاری بلکہ بھاری بھرکم ہو گیا ہے۔ اس کے لیے عمران کی زبان میں کہنا چاہیے کہ اعتزاز چودھری کے لیے ’’تگڑا‘‘ ہو گیا ہے۔ پریس کانفرنس کا اعلان کر کے بھی چودھری نثار نے ہتھیار ڈال دیے جو نواز شریف نے اپنی جیب میں رکھ لیے تھے۔ اب وہ کبھی چودھری صاحب کو نہیں ملیں گے۔

چودھری نثار اب گرین پاسپورٹ کی عزت بحال کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے پہلے شناختی کارڈ پر کام کیا گیا ہے۔ ان کے بقول 20 ہزار شناختی کارڈز چیک ہو گئے ہیں۔ یہ میرے جیسے لوگ ہوں گے جو ہر شے ٹھیک رکھتے ہیں۔ اصل میں افغان مہاجرین کے شناختی کارڈز چیک ہونا چاہئیں تھے۔ پہلے تو وزارت داخلے والے یہ بتائیں کہ یہ جعلی شناختی کارڈ ایشو کیسے اور کیوں ہو گئے تھے۔ یہ وزارت داخلہ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ابھی تک ہم سوچ رہے ہیں کہ افغان مہاجرین کا کیا کریں۔ کیا وزیر داخلہ چودھری نثار جو بہت دلیر غیور اور زبردست ہیں وہ افغان مہاجرین کی بستی میں اکیلے بغیر سکیورٹی کے داخل ہو سکتے ہیں۔

قائم علی شاہ کو سابق وزیراعلیٰ کہتے ہوئے دل میں درد ہوتا ہے کیونکہ حاضر سروس وزیراعلیٰ مراد شاہ بھی کچھ نہیں کر سکیں گے۔ ان کے زمانے میں بھی لوگ نامراد ہی رہیں گے۔ وہ بھی رینجرز کے محتاج رہیں گے۔

تین دن تو قائم علی شاہ کو گئے ہوئے بھی ہو گئے ہیں اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کراچی میں بڑھتے ہی جا رہے ہیں میں انشااللہ کوڑے کے ڈھیر دیکھنے کے لیے کراچی جائوں گا۔ کوڑے کے ڈھیر تو شہر کا حسن ہیں۔ ایک ارب روپے کی گاڑیاں بھی کوڑے کا ڈھیر بن گئی ہیں۔ یہ گاڑیاں میوہ شاہ قبرستان میں پڑی ہیں۔ وہ گل سڑ رہی ہیں۔ یہ منظر لاہور میں بھی میں نے دیکھا ہے۔ ڈسٹرکٹ جیل کے سامنے سینکڑوں بسیں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کی طرح پڑی رہیں اور گل سڑ کر ناکارہ ہو گئی تھیں۔ اب نجانے کہاں ہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل کے سامنے یہ جگہ بسوں کی جیل بن گئی تھی۔ کئی برس ہو گئے کہ لاہور کی سڑکوں پر کوئی سرکاری ٹرانسپورٹ نہیں چلتی۔ لوگ فضول قسم کی گاڑیوں ویگنوں میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ بسیں بھی نہیں چلتیں۔

منتظم اور درد دل رکھنے والے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اس طرف توجہ دیں۔ میٹرو سڑک پر ایک میٹرو بس سے کام نہیں چلے گا۔ شاندار پل کے نیچے ٹریفک اکثر بلاک رہتی ہے اور لوگ پریشان ہیں۔ میں نے میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے حق میں بات کی ہے کہ کچھ عرصے کے بعد ٹریفک کے اس خلفشار میں اس بڑے منصوبے کی افادیت کا پتہ چلے گا۔ بس یہ گذارش ہے کہ زیادہ بسیں اس روٹ پر چلائی جائیں۔

میرے بھائی اور انتھک کام کرنے والے بہت اچھی کتابیں شائع کر کے تقسیم کرنے والے اور بھلائی کے کام کرنے والے علامہ عبدالستار عاصم مجھے لے کے 818 رضا بلاک اقبال ٹائون میں ملت اسلامیہ سٹیزنز کمیونٹی بورڈ کے بزرگ دوستوں کے پاس لے گئے۔ ملک مقبول کا تعاون عاصم صاحب کو ہمیشہ حاصل رہا ہے۔ میں اس شاندار بلڈنگ میں جا کے خوش ہوا۔ اس ادارے کو اعلیٰ پڑھے لکھے درد دل رکھنے والے حضرات چلاتے ہیں جن میں محمد حفیظ اللہ چودھری ڈاکٹر محمد یعقوب راعی‘ ڈاکٹر وزیر حسین شاہ سید کرامت بخاری‘ محمد اکرم‘ نسیم انجینئر محمد سلیم شیخ شامل ہیں۔ اس فلاحی تعلیمی اور تعمیری ادارے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کو ایک فلاحی مملکت کیسے بنایا جائے۔ یہ خدمت خلق کا مرکز حیران کن طریقے سے بیک وقت 16 سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہر شعبہ ایک ٹرسٹ کی طرح کام کر رہا ہے۔ لوگوں کو باشعور بنایا جائے۔ بیماریوں کو روکا جائے۔ پولیواور دیگر وبائی اور مہلک بیماریوں کی روک تھام کا موثر بندوبست کیا جائے۔ نوجوانوں اور بزرگوں کو جدید تعلیم کے ساتھ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے مثبت استعمال کو عام کیا جائے۔ خواتین کو تحفظ کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کو فروغ دیا جائے۔ گھروں میں مزدوری کرنے والی غریب عورتوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت کو ممکن بنایا جائے۔

اس مرکز کیلئے لوگوں کو اعتماد حاصل ہے اب تک کروڑوں روپے کے عطیات دیے جا چکے ہیں اس روپے کی پائی پائی ایک امانت کی طرح خرچ کی جا رہی ہے۔ ادارہ ہر سال 80 فیصد نمبر لینے والے 400 بچوں کو انعامات دے چکا ہے۔ یہ بچے دنیا بھر میں اس ادارے اور ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ محمد حفیظ اللہ 88 برس کی عمر میں بھی پوری طرح سرگرم ہیں اور دفتر تشریف لاتے ہیں۔ اس بلڈنگ میں تین منزلیں ہیں اور کئی کمرے ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ ایک صاحب نے کمرے کیلئے بات کی کہ میں یہاں ٹیویشن سنٹر بنائوں گا اور بہت سا کرایہ بھی دوں گا۔ مگر اسے انکار کر دیا گیا کہ بغیر فیس کے یہاں پڑھائو ہم کو کچھ نہ دو مگر بچوں سے بھی کچھ نہ لو۔ اس ادارے کیلئے مخیر حضرات توجہ فرمائیں ادارے کا اکائونٹ نمبر Cd-00-4094-005 پنجاب بنک علامہ اقبال ٹائون لاہور۔ اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

یہاں علاج معالجے کیلئے فری ڈسپنسری حفاظتی ٹیکوں کیلئے مفت سہولیات کمپیوٹر کلاس‘ کپڑوں کی سلائی کٹائی کا کورس، اس کے علاوہ ہر طرح کی سہولت کی فراہمی ہر شعبے کیلئے موجود ہے۔ میں علامہ عبدالستار عاصم کے ساتھ یہاں وزٹ کر کے حیران رہ گیا ہوں۔ بلاشبہ ایک بڑا فلاحی اور تعمیری مرکز ہے۔
(روزنامہ نوائے وقت)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں