جمعرات، 4 اگست، 2016

وال پیپر: سندھ میں امن کی بحالی مقصود ہے تو ٹارگٹڈ اپریشن میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے


رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے معاملہ پر پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت سے سیاسی کشیدگی بڑھانے کی کوشش
وفاقی وزارت داخلہ نے سندھ حکومت کی جانب سے رینجرز کے اختیارات کے حوالے سے بھیجی جانیوالی سمری گزشتہ روز مسترد کر دی۔ اس سلسلہ میں وزارت داخلہ کے قانونی ماہرین نے رائے دی ہے کہ سندھ اسمبلی کی سمری قانونی معیار پر پوری نہیں اترتی جبکہ یہ آئین کی دفعہ 147 سے بھی مطابقت نہیں رکھتی‘ اس میں کئی قانونی اور آئینی پیچیدگیاں ہیں‘ رینجرز کے اختیارات کو صرف کراچی تک کیوں محدود رکھا جا رہا ہے۔ سمری پر وفاقی وزارت داخلہ کے اٹھائے گئے اعتراضات میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی ملزم کراچی میں کارروائی کرکے سندھ کے کسی دوسرے علاقے میں بھاگ جائے تو رینجرز کو اس کیخلاف وہاں بھی کارروائی کا خصوصی اختیار ہونا چاہیے۔ وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے سمری مسترد ہونے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ گزشتہ روز اچانک بلاول ہاﺅس پہنچ گئے اور انہیں سمری کے حوالے سے بریفنگ دی۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خاں نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں باور کرایا تھا کہ رینجرز کو پورے سندھ میں خصوصی اختیارات نہ دیئے گئے تو ہم دوسرے آپشنز پر غور کرینگے۔ اس سلسلہ میں وفاقی وزارت داخلہ نے سندھ حکومت کو پورے سندھ کیلئے رینجرز اختیارات سے متعلق نئی سمری ارسال کرنے کی ہدایت کی ہے اور باور کرایا ہے کہ اگر سندھ اسمبلی نے نئی سمری نہ بھجوائی تو وفاق ازخود رینجرز اختیارات کا دائرہ پورے صوبے تک بڑھا دیگا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاقی وزارت داخلہ اس معاملہ میں آئین کی دفعات 149, 148,147 کو بروئے کار لانے پر غور کررہی ہے جس پر وفاق اور سندھ حکومت میں کشیدگی بڑھنے کا خدشہ نظر آرہا ہے۔ سندھ حکومت کے مشیر قانون مولابخش چانڈیو کا کہنا ہے کہ وزیر داخلہ چودھری نثار علی ملک کو تصادم کی سیاست کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں مگر انہیں یہ سیاست راس نہیں آئیگی۔
رینجرز کے اختیارات اور قیام میں توسیع کے حوالے سے پیپلزپارٹی کی قیادت اور سندھ حکومت کی جانب سے گزشتہ سال کی طرح اب بھی جس انداز میں تحفظات کا اظہار کرکے پس و پیش سے کام لیا گیا اور رینجرز کے اختیارات کے معاملہ کو آج بھی جس طرح متنازعہ بنایا جارہا ہے اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کو کراچی اور سندھ کے عوام کیلئے امن و امان کی بحالی سے زیادہ اپنے مفادات عزیز ہیں اور وہ رینجرز کے ذریعے ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خوروں‘ لینڈ گریبرز اور دوسرے جرائم پیشہ سماج دشمن عناصر کیخلاف بے لاگ اور سخت اپریشن کے حق میں نہیں‘ حالانکہ کراچی کی روشنیاں لوٹانے اور ملک کے اس تجارتی ہب کو پھر سے تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کیلئے سندھ حکومت کو تو خود اپنی انتظامی حکومتی اتھارٹی کو بروئے کار لانا اور رینجرز کے ٹارگٹڈ اپریشن کو کامیابی سے ہمکنار کرانا چاہیے تھا جس سے سندھ حکومت کی اپنی گورننس کی ہی دھاک بیٹھتی مگر سندھ میں پیپلزپارٹی کے موجودہ ہی نہیں‘ سابقہ دورِ اقتدار میں بھی ٹارگٹ کلرز اور مافیاز کے ہاتھوں عوام کی درگت بنتی رہی اور کراچی کے ساتھ ملک کے دوسرے علاقوں کے تجارتی روابط میں رخنہ پڑتا رہا جبکہ سندھ حکومت کو شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے معاملہ میں اپنی آئینی ذمہ داریوں کا احساس ہوا نہ جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے ہاتھوں مسلسل چیلنج ہونیوالی اپنی اتھارٹی کی کبھی فکر لاحق ہوئی۔
گزشتہ دو دہائیوں سے سندھ میں امن و امان کی جو درگت بنی ہے‘ پیپلزپارٹی بھی حکمران جماعت ہونے کے ناطے اسکی ذمہ دار ہے جبکہ گزشتہ دور میں اس کا ایم کیو ایم متحدہ کے ساتھ حکومتی اشتراک و اتحاد تھا اور اے این پی بھی اسکے ساتھ شریک اقتدار تھی۔ سپریم کورٹ میں کراچی امن کیس کی سماعت کے دوران متذکرہ تینوں حکومتی اتحادی جماعتوں میں عسکری ونگز کی نشاندہی ہوئی اور اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس افتخار محمد چودھری نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ سیاسی جماعتوں میں موجود عسکری ونگز ختم کئے بغیر کراچی کی روشنیاں واپس نہیں لوٹائی جا سکتیں۔ آج سندھ میں پیپلزپارٹی سنگل مجارٹی پارٹی کی حیثیت سے حکومت کررہی ہے مگر سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز ختم کرنے کیلئے سپریم کورٹ کے احکام پر آج تک عمل نہیں کیا جاسکا۔ اسکے برعکس وزیراعظم میاں نوازشریف نے سندھ میں امن و امان کی بحالی کی خاطر رینجرز کے ٹارگٹڈ اپریشن کا تمام سیاسی‘ دینی قیادتوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے نمائندگان کے ساتھ مشاورت سے آغاز کیا تو اس اپریشن کیلئے گرین سگنل دینے کے باوجود حکمران پیپلزپارٹی نے اس پر تحفظات کے اظہار کے ساتھ ساتھ عدم تعاون کی پالیسی بھی اختیار کرلی۔ اس اپریشن کے حوالے سے یہی راستہ پہلے ایم کیو ایم متحدہ کی قیادت نے اختیار کیا تھا جبکہ متحدہ کے ہیڈکوارٹر نائن زیرو پر چھاپے کے دوران وہاں سے گرفتار ہونیوالے متحدہ کے جرائم پیشہ ارکان کے بیانات اور نائن زیرو سے بھارتی ساختہ بھاری اسلحہ کی برآمدگی سے بھارتی ”را“ کی جانب سے تخریبی سرگرمیوں کیلئے متحدہ کی معاونت کے ثبوت بھی مل گئے۔ متحدہ کی قیادت نے اس پر اصلاح احوال کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے سکیورٹی اداروں اور انکی قیادتوں کو چیلنج کرنا شروع کر دیا جس سے رینجرز کے ٹارگٹڈ اپریشن کا متاثر ہونا بھی فطری امر تھا تاہم رینجرز نے اپنی آئینی ذمہ داریوں کی پاسداری کرتے ہوئے ٹارگٹڈ اپریشن جاری رکھا‘ نتیجتاً متحدہ کی قیادت آج ٹیلی فونک خطابات کے ذریعہ بڑھکیں مارتی نظر نہیں آتی اور متحدہ کے کارکنوں کو رینجرز اور دوسرے سکیورٹی اداروں سے محاذآرائی سے گریز کی ہی تاکید کی جاتی ہے۔ اسکے برعکس جب گزشتہ سال پیپلزپارٹی کے قائد سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری عمل میں آئی جنہوں نے دوران تفتیش اپنے بیانات کے ذریعے ناجائز طریقے سے دولت کے انبار لگانے کے الزامات کا اعتراف بھی کرلیا تو پیپلزپارٹی کی قیادت کو اپنے خلاف ڈاکٹر عاصم حسین کے سلطانی گواہ بننے کا خدشہ لاحق ہوا چنانچہ اس صورتحال میں پیپلزپارٹی کی قیادت اور اسکی سندھ حکومت کی جانب سے رینجرز اپریشن پر مختلف تحفظات کا اظہار سامنے آنے لگا اور اسکی پارٹی قیادت نے رینجرز کے ٹارگٹڈ اپریشن میں کیڑے نکالنے شروع کر دیئے۔ اسی تناظر میں گزشتہ سال بھی رینجرز کے خصوصی اختیارات اور قیام میں توسیع سے گریز کیا جاتا رہا اور پھر وفاقی حکومت کے سخت موقف پر مجبوراً وزیراعلیٰ سندھ کو رینجرز کے قیام کی مدت اور اختیارات میں اضافے کی سمری منظور کرنا پڑی۔ پیپلزپارٹی کی قیادت اور سندھ حکومت کی جانب سے اس سال بھی رینجرز کے اختیارات کے معاملہ میں وفاقی حکومت کے ساتھ پھر آنکھ مچولی کا سلسلہ شروع کردیا گیااور متعلقہ سمری پر وزیراعلیٰ سندھ کے دستخطوں سے گریزکے باعث رینجرز کے اختیارات اور اسکے قیام کی مدت میں توسیع نہ ہوسکی۔ کشیدگی کی یہ صورتحال ہنوز برقرار ہے جبکہ سندھ میں امن و امان کی صورتحال پر کنٹرول کرنے کا تاثر دینے کیلئے وزیراعلیٰ سندھ سمیت سندھ کی پوری کابینہ تبدیل کردی گئی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ حکمران پیپلزپارٹی کی ان شاطرانہ چالوں سے بدامنی کے مارے کراچی اور سندھ کے عوام کو اپنے معمولات زندگی میں امن و سکون کی عملداری کبھی نصیب نہیں ہو سکتی جبکہ رینجرز اپریشن نہ ہونے کے باعث کراچی اور سندھ کے دوسرے علاقوں میں عدم تحفظ کی فضا میں اضافہ ہورہاہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کے پس و پیش کے باوجود توقع تھی کہ گزشتہ سال کی طرح اب بھی سندھ حکومت دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کے مصداق رینجرز کے قیام کی مدت اور اسکے پورے سندھ تک دائرہ کار والے اختیارات میں توسیع کردیگی مگر اس معاملہ میں نئی سندھ حکومت کے اعلان کے باوجود پرنالہ اسی جگہ پر قائم ہے اور سندھ حکومت کی جانب سے وفاقی وزارت داخلہ کو بھجوائی گئی سمری میں رینجرز کا دائرہ کار پورے سندھ تک بڑھانے کا معاملہ لٹکادیا گیا ہے۔ یہ اقدام بادی النظر میں رینجرز کی ٹارگٹڈ اپریشن میں اب تک کی کامیابیاں بھی ضائع کرنے کے مترادف ہے جس کا امن و امان کی بحالی کے حوالے سے ملک متحمل نہیں ہو سکتا اس لئے وفاقی حکومت کو ٹارگٹڈ اپریشن برقرار رکھنے کیلئے مجبوراً دوسرے آئینی آپشنز بروئے کار لانا پڑیں گے جن میں سندھ میں گورنر راج کا آپشن بھی شامل ہے جبکہ سندھ حکومت وفاقی وزیر داخلہ کو وفاق اور سندھ میں کشیدگی بڑھانے کا ذمہ دار گردان رہی ہے جسے پیپلزپارٹی کی سیاسی چالبازی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس پارٹی کی قیادت کو فی الواقع کراچی اور سندھ کا امن مقصود ہے تو پھر بے لاگ اپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے رینجرز کا دائرہ کار بہرصورت پورے سندھ تک بڑھانا اور اسکے خصوصی اختیارات پر صاد کرنا ہوگا۔ آج سندھ میں محض اپنی سیاست کو فروغ دینے کی نہیں ٹارگٹڈ اپریشن کو امن و امان کی بحالی کی خاطر کامیاب بنانے کی ضرورت ہے جس پر سیاست برقرار رکھی گئی تو اس کا ملک اور عوام کو ہی خمیازہ بھگتنا پڑیگا۔ بہتر یہی ہے کہ سندھ حکومت وفاق کو دوسرے آپشنز بروئے کار لانے پر مجبور نہ کرے اور رینجرز کے سندھ بھر کے اختیارات کیلئے نئی سمری بھجوادے بصورت دیگر سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کی بھی وہ خود ہی ذمہ دار ہوگی۔
(روزنامہ نوائے وقت)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں