بدھ، 10 اگست، 2016

سانحہ کوئٹہ : گلیوں کو چپ لگی ہے نگر بولتے نہیں !


پاک فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کی انتھک محنتوں، کاوشوں اورقربانیوں کی وجہ سے آج ملک امن کی ڈگر پر چل تو پڑا ہے لیکن گاہے بگاہے دہشت گرد سراُٹھاتے نظر آتے ہیں… پیر کی صبح بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی پر فائرنگ کی گئی، جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے، انہیں سول ہسپتال کوئٹہ پہنچایا گیا۔ ان کی حالت دیکھنے کیلئے سینئر وکلاء سمیت بہت سے وکلاء سول ہسپتال پہنچے۔ وکلاء کے ہسپتال پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد ایمرجنسی کے گیٹ کے باہر زور دار بم دھماکہ ہوا جس سے قیامت صغریٰ برپا ہو گئی۔ اس بم دھماکے کے نتیجے میں 70 افراد جاں بحق اور 108سے زائد زخمی ہو گئے۔
کوئٹہ شہر اس بم دھماکے کے بعد لہو لہو ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ 9/11کے بعد پاکستان کو بدترین قسم کی دہشتگردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
11 ستمبر کے فوری بعد ہی جنرل پرویز مشرف نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے پاکستان کے تمام تر وسائل عالمی طاقت کی جھولی میں ڈال کر ریاست پاکستان کو امریکا کا تابع مہمل بنا دیااور آج بھی ہم اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں… اور عوام کا حال تو بقول شاعر یہ ہوگیا ہے کہ … ؎
جبر کی بھاری چٹانیں ہر طرف رکھ دی گئیں
مجھ کو یوں چنوایا گیا زیست کی دیوار میں
کل جب کوئٹہ دھماکے کے بعد چند ویڈیوز اور تصاویر نظر سے گزریں تو یقین مانیں کہ مجھ سمیت ہر پاکستانی بے بسی کی تصویر بن کر رہ گیا اور ہر عام پاکستانی یہ سوچ رہا تھا اور حکومت کو کوس رہا تھا۔ ’’میں عقاب ہوں لیکن اڑان نہیں بھر سکتا کہ چوہوں نے میرے پر کتر دیئے ہیں۔ میں بلبل ہوں لیکن چہک نہیں سکتا کہ گلشن کی روش روش، ڈال ڈال اور پات پات پر اُلوئوں کا قبضہ ہے۔ میں غزال ہوں لیکن قلانچ اور چوکڑی نہیں بھر سکتا کہ میرے صحرا کے ہر پست و بلند ٹیلے کی اوٹ میں ’’شکاریوں کی رجمنٹ ‘‘ آتشیں، آہنی اور آدم خور بندوقیں تانے بیٹھی ہے ۔ میں گلاب ہوں لیکن کھلنا نہیں چاہتا کہ باغباں کب کے مرکھپ گئے اور باغ گل چینوں کی تحویل میں ہے۔ میں وہ کبوتو ہوں جو خونخوار جنگلی بلیوں کے غول کے محاصرے میں آنکھیں بند کیے بے بسی کی حالت اور سکتے کے عالم میں کھڑا ہے ۔ میں بنجر دھرتی پر اُگے درخت کے گھونسلے میں پڑا اُس چڑیا کا ’’بوٹ‘‘ ہوں جو میرے لیے دانے دُنکے کی تلاش میں کہیں دور نکل گئی ہے اور مجھے تنہا پا کر آسماں سے بھوکی چیلیں اپنی چونچیں کھولے اور پر پھیلائے میری طرف بڑھ رہی ہیں، وہ میرے وجود پر جھپٹا ہی چاہتی ہیں اور بے بسی کا فالج ہے کہ لقمہ اجل بننے سے قبل ہی اُس نے مجھے سانس لیتا ہوا لاشہ بنا دیا ہے۔ میں بھیڑ کا وہ معصوم سہما ہوا پیاسا میمنہ ہوں ، دریا کے نشیبی کنارے پرنیلی آنکھوں والے ہٹے کٹے خونخوار بھیڑیے نے میری نازک گردن پر اپنے تیز دھار دانت نکوس رکھے ہیں اور اُسکے نوکیلے پنجے میرے نازک وجود کی کھال پانی آلودہ کرنے کے ’’جرم ‘‘میں اُدھیڑ رہے ہیں۔ میں وہ یوسف ہوں، جسے اُسکے ’’مشفق و مہربان‘‘ بھائی ویرانے کے اندھے کنوئیں میں دھکیل اورپھینک کر بھا گ گئے ہیں اور میرے باپ کو میرا خون آلود کُرتا دکھا کر مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بار بار اُسکی توجہ میرے کُرتے پر جمے خون کے دھبوں کی جانب مبذول کروانے اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے ’’دلائل و براہین‘‘ بروئے کار لا رہے ہیں۔ میں ’’ مہا بلی‘‘ کے عہد کا وہ ’’گستاخ باغی ‘‘ہوں ، جس کے ہاتھ قلم کرنے ، زبان گدی سے کھینچ لینے اور آنکھوں میں دہکتی سرخ سلاخیں پھیرنے کے بعد نو تعمیر کردہ دیوار میں زندہ چنوا دیا گیا ہے۔میں وہ قلم ہوں جس کی نِب کو جرأت اظہار اور حریت فکر کے دشمن پابندیوں کے ہتھوڑوں کی پیہم ضربوں سے توڑ اور موڑ دینے کے بعد یہ اعلان کر رہے ہیں کہ اُنکے نزدیک کسی شہری کی جیب میں قلم پایا گیا تو اُس سے وہی سلوک کیا جائے گا جو امریکا اور اُس کے حلیف مغربی ممالک کی وحشی افواج نے عراق کووسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے کے جرم کی سزا دینے کیلئے روا رکھا تھا سچ لکھنا دہشت گردی پھیلانے کے جرم کے مترادف ہے ۔ سچے قلمکار کا وہی حشر ہو گا جو کوئٹہ دھماکے میں ان نہتے صحافی بھائیوں کا ہوا۔ میں پاکستانی ہوں لیکن مقبوضہ چیچنیا ، مقبوضہ کشمیر،مقبوضہ فلوجہ، مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ عراق کے حریت پسندوں کی طرح چار دوستوں کے ساتھ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ مسلح وردی پوشوں نے میرے ہر شہر کو گروزنی ، سری نگر ، تورا بورا ، غزہ اور فلوجہ بنا کر رکھ دیا ہے اسی لیے تو بقول شاعر کہتا ہوں کہ …؎
گلیوں کو چپ لگی ہے نگر بولتے نہیں
دیوار و در وہی ہیں مگر بولتے نہیں
کوّے کہاں چلے گئے، چڑیوں کو کیا ہؤا
جو بولتے تھے شام و سحر، بولتے نہیں
ہائے اب نوحہ کناں ہے پورا پاکستان کہ نہ جانے ان دہشت گردوں اور سانپوں کا اگلا ٹارگٹ کیا ہوگا… کیوں کہ کیا خبر کہ دہشت گرد کب، کہاں اور کس وقت اپنا کام دکھا دیں… بلوچستان میں ہونے والا یہ واقعہ بہت بڑا حادثہ ہے جس میں معاشرے کے اہم ترین طبقے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ وکلاء معاشرے میں انسانی حقوق کی عمل داری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور لوگوں کو انصاف پہنچانے میں ان کا اہم حصہ ہے۔ اس واقعہ میں کوئٹہ کے بے شمار اہم اور سینئر وکلاء جاں بحق ہو گئے جو بہت بڑا نقصان ہے۔ یہ بم دھماکہ سکیورٹی کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد پورے ملک میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے مگر اسکے باوجود کوئٹہ میں یہ واقعہ ہو گیا۔ اس میں ہمارے سکیورٹی اداروں اور انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی پر سوال کیساتھ ساتھ حکومتی کارکردگی کا بھی شاخسانہ ہے۔ ہسپتال کے گیٹ پر بم باندھ کر خود کش حملہ آور کا پہنچنا نہایت اہم ہے، اسے ٹریس کیوں نہ کیا جا سکا۔ اسی طرح انٹیلی جنس اداروں کو بھی اپنی پرفارمنس کا جائزہ لینا ہو گا۔ نیشنل ایکشن پلان پر زیادہ سختی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی شدید ضرورت ہے۔ واقعہ کے بعد یہ اعلیٰ عہدے دار اور سکیورٹی ادارہ متحرک ہے۔ تمام اداروں کو بر وقت چوکنا رہنا چاہیے تا کہ دہشت گردوں کو روکا جا سکے۔ بھارت کشمیر میں اٹھنے والی تحریک سے پریشان ہے اور اس نے اپنے بے شمار ایجنٹ بلوچستان میں داخل کر رکھے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان ایجنٹوں کو پکڑا جائے تا کہ ہمارے عوام ایسے حادثات سے محفوظ ہو سکیں۔ یہ حادثہ انٹیلی جنس اداروں اور سکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی ہے۔ بلوچستان بار کے صدر پر فائرنگ کے بعد سکیورٹی اتنی سخت ہو جانی چاہیے تھی کہ کوئی خود کش بمبار شہر میں اس طرح آسانی سے وکلاء کو ہسپتال میں نشانہ نہ بنا سکتا۔ ہمارے سکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کو اپنے طریق کار، سیٹ اپ اور دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کیلئے نئے عزم سے مربوط ہونا ہو گا تا کہ ہم دشمنوں کے عزائم کو ناکام کر سکیں۔ اللہ ان دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو نست و نعبود کرے (آمین)۔
(روزنامہ نوائے وقت)  


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں