بدھ، 10 اگست، 2016

” دہشت گردوں کے خلاف نظریاتی جنگ!“


اثر چوہان

کوئٹہ سِول ہسپتال میں خُود کش بم دھماکے اور فائرنگ سے وُکلاءاور میڈیا کارکنوں سمیت 71 افراد شہید ہوگئے۔ وُکلاءاور صحافیوں کی تنظیموں نے تین دِن تک سوگ منانے اور ہڑتال کا آغاز کردِیا ہے ۔ پورے ملک میں قیامت صُغریٰ کے مناظر ہیں ۔ سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک کارروائی کرنے کے عزم کو دُہرایا ہے اور مختلف سیاستدانوں نے بھی شُہدا کے وُرثاءسے ہمدردی کا اظہار کِیا ہے ۔ مذہبی قائدین میں سے ( تا دمِ تحریر ) صِرف اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین (جمعیت عُلماءاسلام ف ) کے مولانا محمد خان شیرانی کی وہ تقریر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنی ہے جو اُنہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں کی۔
وزیراعظم نواز شریف نے کوئٹہ دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہُوئے کہا کہ ”مجھے کوئٹہ میں قیمتی جانوں کے نقصان پر گہرا دُکھ اور افسوس ہُوا ہے اور آئندہ ہم کسی کو بھی بلوچستان کا امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے!۔ جنابِ وزیراعظم نے یہ کیا کہہ دِیا ؟ ۔ کیا اِس سے پہلے بلوچستان اور دوسرے صوبوں کا امن خراب کرنے والے لوگ وزیراعظم صاحب سے اجازت لیتے رہے ہیں؟۔ جنابِ وزیراعظم نے کہا کہ ” شُہدا کے بچّے میرے اپنے بچّے ہیں ۔ ہم ملک بھر میں دہشت گردوں کا پیچھا کریں گے اور اُن کے خاتمے کے لئے پوری طاقت سے کارروائی کریں گے“۔ اچھی بات ہے ۔ عام طور پر دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کے وُرثاءکے لئے 5 لاکھ روپے زرِ تلافی دینے کا رواج ہے ، حالانکہ شُہدا کے ورثاءکا مقصد مالِ غنیمت وصول کرنا نہیں ہوتا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان ( مسلم لیگ ن کے ) ثناءاللہ زہری نے بڑی پھرتی دکھائی ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ میرے پاس شواہد موجود ہیں جِس سے ثابت ہوتا ہے کہ ” بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ” را“ شامل ہے اور مَیں اِن شواہد کی روشنی میں وزیراعظم صاحب اور دفترِ خارجہ میں بات کروں گا “۔ زہری صاحب نے کہا کہ ”ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے نہیں بیٹھیں گے بلکہ اُن کا ( یعنی دہشت گردوں کا ) مقابلہ کریں گے“۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔ جنابِ ثناءاللہ زہری کے پیش کردہ شواہد کی روشنی میں کم از کم مجھے تو یقین ہے کہ وزیراعظم نواز شریف بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی سے اپنے ذاتی تعلقات کو بالائے طاق رکھتے ہُوئے جب گرفتار شدہ ”را“ کے ایجنٹ کُل بُھوشن یادَو ( جسے الیکٹرانک میڈیا میں ”کَل بھوشن یادیو“ کہا جاتا ہے ) کو سزا دیں گے/ دلوائیں گے ۔ تو کوئٹہ میں 8 اگست کو وُکلاءاور صحافیوں سمیت 71 افراد کی شہادت کا مقدمہ بھی عالمی برادری میں پیش کردیں گے ۔
پاکستان میں جب بھی کوئی سرکاری شخصیت دہشت گردی کی کسی واردات کو ” را“ سے منسوب کردیتی ہے تو عوام کو یقین ہو جاتا ہے کہ ہماری حکومت ہمارے ازلی دشمن بھارت سے بھی نِمٹ لے گی لیکن جلد بازی یا غیر دانستہ طور پر دہشت گردی کی ہر واردات کو ” را“ سے منسوب کرنے سے اُن دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں کو رعایت مِل جاتی ہے جو پاکستان میں ( بری بھلی) جمہوریت کو ختم کر کے اپنے کسی سرغنہ کی ” خلافت“ قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ 8 اگست کو ہی قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہُوئے مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ ”بلوچستان میں کوئی ” را“ اور ” موساد“ نہیں ہے ۔ ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں ۔ قوم سے جھوٹ نہ بولا جائے ۔ مسلح تنظیمیں کِس کی ہیں؟ بتایا جائے!۔ اندرونی طاقتیں دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں “۔
شیرانی صاحب نے اندرونی طاقت کا نام "Establishment" بتایا۔ ہمارے یہاں اکثر سیاستدان اپنے مخالفین کے لئے "Civil Establishment" اور "Military Establishment" کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں ۔ نیٹو افواج کے اہلِ کتاب ( یہودی اور عیسائی فوجیوں ) کے ساتھ ” ملحد سوویت یونین“ کے خلاف جہاد کے لئے عسکریت پسند سِول اور ملٹری ایسٹیبلشمنٹ نے تیار کئے تھے ۔ مولانا محمد خان شیرانی اور اُن کے سینئر اور جونیئر عُلماءیقیناً جانتے ہوں گے ۔ مولانا شیرانی کو یاد ہوگا کہ ”اُن کے مسلک کے لال مسجد اسلام آباد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے لال مسجد اور اپنی اہلیہ اُمّ حسان کی پرنسپل شِپ میں قائم جامعہ حفصہ میں دہشت گردوں کو جمع کر کے خود ” امیر اُلمومنین“ کا لقب اختیار کر کے اور مسجد کے نائب خطیب (سرکاری ملازم اپنے چھوٹے بھائی غازی عبداُلرشید ) کو نائب امیر اُلمومنین مقرر کر کے ملک بھر میں اپنی مرضی کا اسلام نافذ کردِیا تھا اور لال مسجد میں شرعی عدالت بھی قائم کردی تھی“ ۔
مولانا عبداُلعزیز نے اعلان کِیا تھا کہ ” اگر صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز نے نفاذِ اسلام میں رکاوٹ ڈالی تو سارے پاکستان میں خود کُش حملے ہونگے“ اور جب آپریشن "Operation Sunrise" ہُوا تو ایسا ہی ہُوا۔ شیرانی صاحب کو یہ بھی یاد ہوگا کہ آپریشن کے بعد 12 جولائی 2007ءکو اسلام آباد میں ( اُن دِنوں) مُتحدہ مجلس عمل کے صدر قاضی حسین احمد ( مرحوم) ، جنرل سیکرٹری مولانا فضل اُلرحمن اور موجودہ ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبداُلغفور حیدری نے اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ” لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بمباری اور امریکی مفادات کی حفاظت کرنے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو شہید نہیں کہا جاسکتا“۔ امریکی ڈرون حملے میں دہشت گردوں کا سرغنہ حکیم اللہ محسود ہلاک ہُوا تو دہشت گردوں کے سہولت کاروں نے اسے ” شہید “ قرار دِیا اور مولانا شیرانی صاحب کے قائد مولانا فضل اُلرحمن کا تو یہ فتویٰ تھا کہ ” اگر امریکہ کے خلاف جنگ کرتے ہوئے کوئی کُتا بھی مارا جائے تو اُسے بھی شہید کہا جائے گا“۔
مولانا فضل اُلرحمن کے والد مولانا مفتی محمود کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ” خُدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامل نہیں تھے “۔ تحریکِ پاکستان میں بھارت کے مختلف صوبوں میں 15 لاکھ مسلمان شہید ہُوئے تھے ۔ افسوس کہ پاکستان بنانے والوں کی اولاد کہلانے والے جناب الطاف حسین اب برطانوی شہری ہیں ۔ آصف علی زرداری دُبئی میں رہ کر ” سندھ نہ ڈیسوں“ کی لڑائی میں اُلجھے ہُوئے ہیں۔ رہ گئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف وہ تو 29 نومبر 2016ءکو ریٹائر ہونے کا اعلان کر چکے ہیں لیکن اُنہوں نے یہ اعلان کر کے قوم کو خوش کردِیا ہے کہ ” ایجنسیاں پاکستان میں جہاں چاہیں دہشت گردوں کے خلاف "Combing Operation" کریں “ ۔( یعنی فصل کاٹنے والی مشین کی طرح اُن کے جسموں کو اُدھیڑ دیں )۔
مسئلہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں ، اُن کے والد صاحب اور برادرانِ بزرگ کہلانے والوں کا ہے ۔ سندھ میں وزیراعلیٰ مُراد علی شاہ اور اُن کے سیاسی بابا سائِیں رینجرز کے اندرون سندھ آپریشن کے خلاف ہیں اور پنجاب میں ”اشرافیہ کو خونِیں اِنقلاب “ سے ڈرانے والے خادم اعلیٰ بھی مطمئن ۔ وزیراعظم نواز شریف مولانا سمیع اُلحق اور مولانا فضل اُلرحمن کا احترام عزیز از جان جانتے ہیں ۔ سارے کام عسکری قیادت کو کرنا ہوں گے ۔ جنرل راحیل چلے جائیں گے تو کوئی اور جنرل آجائے گا ۔ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت بھی فوج کو ہی کرنا ہوگی۔ دہشت گردوں کے خلاف نہ صرف پاک فوج بلکہ پوری قوم کو نظریاتی جنگ لڑنا ہوگی۔ قائدِاعظمؒ کی مملکتِ خداداد کو بچانے کے لئے!۔
(روزنامہ نوائے وقت)  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں