سانحۂ کوئٹہ پر جہاں ہر آنکھ اشکبار اور ہر چہرہ مغموم و سوگوار ہے‘ وہیں عوام شدید غم و غصہ کی کیفیت میں بھی ہیں کہ آخر دہشت گردی کے ناسور سے انہیں کب خلاصی ملے گی اور حکمران اپنی آئینی ذمہ داریوں کے مطابق شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کب یقینی بنا پائیں گے۔ گزشتہ روز ملک بھر پر طاری اس سوگوار فضا میں وکلاء برادری سانحۂ کوئٹہ کے شہداء کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرتے ہوئے اپنی کمیونٹی اور عوام کے عدم تحفظ پر سراپا احتجاج بھی بنی رہی اور صدر سپریم کورٹ بار سید علی ظفر سمیت ملک بھر کی وکلاء کی نمائندہ تنظیموں کے عہدیداران اس تقاضے میں یک زبان نظر آئے کہ اگر حکومت شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داریاں نبھانے کی اہل نہیں تو اقتدار سے الگ ہو جائے تاکہ اہل افراد آگے آئیں اور ملک میں وحشت بن کر نازل ہونیوالی دہشت گردی اور بدامنی پر قابو پائیں۔ گزشتہ روز سول ہسپتال کوئٹہ کے خودکش حملے میں زخمی ہونیوالے دو مزید وکلاء دم توڑ گئے جس سے شہداء کی تعداد 73 ہوگئی جبکہ متعدد دیگر زخمیوں کی حالت ابھی تک تشویشناک ہے چنانچہ ملک کی کریم وکلاء برادری کا غم و غصہ میں آنا فطری امر ہے کہ انہوں نے گزشتہ روز اپنے صدر اور سابق صدر سمیت اپنے قابل قدر ساتھیوں کی لاشیں اٹھائی ہیں جبکہ ملک کی صحافی برادری کی جانب سے بھی اسی تناظر میں غم و غصہ اور عدم تحفظ کا اظہار ہو رہا ہے کہ کوئٹہ سانحہ میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنیوالے دو نجی ٹی وی چینلوں کے کیمرہ مین بھی سفاک دہشت گردوں کی بربریت کی بھینٹ چڑھ کر جاں بحق ہوئے ہیں۔ بلاشبہ صحافی برادری کیلئے بھی یہ صورتحال کسی المیہ سے کم نہیں کہ موجودہ دس برس کے دوران پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران دہشت گردی کی وارداتوں میں 43صحافی اور کیمرہ مین جاں بحق ہوچکے ہیں جس کے نتیجہ میں وکلاء برادری اور دیگر مکاتب زندگی کی طرح صحافی برادری بھی اپنے لئے سخت عدم تحفظ محسوس کررہی ہے جبکہ سابق اور موجودہ حکمرانوں کا معاملہ ایسا رہا ہے کہ انہیں شہریوں کی جان و مال کے تحفظ سے کوئی سروکار ہی نظر نہیں آتا۔ انکی جانب سے دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد رسمی افسوس اور ہمدردی کا اظہار ضرور کیا جاتا ہے اور شہداء و زخمیوں کے لواحقین کو امداد کے چند ٹکڑے بھی خیرات کر دیئے جاتے ہیں اور اسکے ساتھ ہی یہ رٹارٹایا فقرہ بھی ادا ہو جاتا ہے کہ آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک ہم دہشت گردی کی جنگ جاری رکھیں گے۔ خدا نہ کرے کہ اس جنگ میں ہمارا آخری شہری بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ جائے مگر دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد سکیورٹی انتظامات میں جو خامیاں نظر آتی ہیں انہیں دور کرنے کیلئے سنجیدگی کے ساتھ کوئی تردد نہ کیا گیا تو حکومتی‘ ریاستی اتھارٹی اور ہمارے سکیورٹی اداروں کی مشاقی کو چیلنج کرتے یہ سفاک دہشت گرد اس وطن عزیز کو خاک و خون میں ڈبونے کے اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب رہیں گے۔
دو سال قبل کے آرمی پبلک سکول کے المناک سانحہ اور چند مہینے پہلے گلشن اقبال پارک میں ایسٹر کے دن ہونیوالے دھماکے کے بعد گزشتہ روز سول ہسپتال کوئٹہ میں اسی نوعیت کے سانحہ نے پوری قوم کے دل لرزا کر رکھ دیئے ہیں جبکہ وہ اپنے حکمرانوں‘ سیاست دانوں اور سکیورٹی اداروں کے بے نیازی والے طرز عمل کو بھانپ کر مزید خوفزدہ اور مزید عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ روز کے سانحہ کے بعد وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف اپنے الگ الگ پروگرام کے تحت کوئٹہ پہنچے اور سول ہسپتال کوئٹہ میں زخمیوں کی عیادت کی جس سے عوام میں یہ تاثر مزید گہرا ہوا کہ ملک کی فضائوں پر طاری دہشت گردی کی وحشت کے باوجود ہماری سول اور عسکری قیادتیں ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سکیورٹی ایجنسیوں کو ملک بھر میں کومبنگ اپریشن کا حکم دیا جو دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے درست اقدام ہے تاہم ایسے اقدامات ایک قومی ذمہ داری کے حوالے سے حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں کی مشترکہ سوچ اور حکمت عملی کے تحت اٹھائے جائیں تو یہ زیادہ مؤثر ہوسکتے ہیں۔ اس تناظر میں قوم کے ذہنوں میں یہ سوچ بھی مستحکم ہو رہی ہے کہ پشاور کے سانحۂ ’’اے پی ایس‘‘ کے بعد دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے قومی اتفاق رائے سے وضع کئے گئے نیشنل ایکشن پلان کی ایک ایک شق پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد ہو گیا ہوتا تو یقیناً گزشتہ روز کے سانحۂ کوئٹہ کی نوبت نہ آتی۔ اب قومی سیاسی و دینی قیادتوں کی جانب سے سانحۂ کوئٹہ کی بنیاد پر حکومت سے فی الفور ایک نئی اے پی سی طلب کرنے کا تقاضا کیا جارہا ہے تاکہ اس میں نیشنل ایکشن پروگرام پر نظرثانی کرکے اسے مزید مؤثر بنایا جائے اور اس کو مکمل عملی جامہ پہنانے کے بھی مؤثر اقدامات اٹھائے جائیں۔ اس حوالے سے قومی سیاسی قائدین اور قوم کے منتخب نمائندوں کا بے نیازی پر مبنی طرز عمل اور ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ والی مفاداتی سیاست بھی قوم کے ذہنوں میں کھٹک رہی ہے۔ منتخب نمائندوں کی اس سے بڑی بے حسی اور کیا ہو سکتی ہے کہ سانحۂ کوئٹہ کے بعد قومی اسمبلی کے جاری اجلاس میں سرکاری اور اپوزیشن بینچوں پر اتنی تعداد بھی موجود نہیں تھی کہ وہ اس منتخب فورم پر سانحۂ کوئٹہ کیخلاف مذمتی قرارداد ہی منظور کرالیتے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ ملک اور قوم اس وقت دہشت گردی کے سنگین خطرات کی زد میں ہے مگر اپوزیشن جماعتوں کی سیاست کی ترجیح اول آج بھی پانامہ لیکس پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی بنی ہوئی ہے جبکہ اس وقت ساری حکومتی اور اپوزیشن قیادتوں کی ترجیح اول نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کرانے کی ہونی چاہیے تاکہ ہماری دھرتی کو بے گناہ انسانوں کے خونِ ناحق سے رنگین کرنیوالے سفاک دہشت گردوں کے آئندہ کے عزائم کے آگے بند باندھا جاسکے۔ گزشتہ روز عمران خان نے اپنی حکومت مخالف سرگرمیاں ترک کرکے کوئٹہ کا دورہ کیا ہے اور سول ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کرتے ہوئے انکے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے بھی گزشتہ روز کوئٹہ جا کر سانحۂ کوئٹہ کے متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے جو دہشت گردوں کو قومی یکجہتی کا تاثر دینے کے حوالے سے مستحسن اقدام ہے تاہم اس وقت محض رسمی اور زبانی کلامی نہیں‘ قومی سیاسی قائدین کو دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے کی مشترکہ لائن آف ایکشن طے کرکے اسے عملی جامہ پہنایا جاتا ہوا بھی قوم کو دکھانا چاہیے۔
گزشتہ روز کے سانحۂ کوئٹہ کے حوالے سے وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کوئٹہ میں طلب کئے گئے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں اس امر کا اظہار کیا کہ سانحۂ کوئٹہ درحقیقت ہمارے اقتصادی راہداری منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے جس میں اندرونی اور بیرونی عناصر شریک ہیں جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے سانحہ کوئٹہ میں بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے براہِ راست ملوث ہونے کا دعویٰ کیا اور پورے وثوق کے ساتھ اس امر سے آگاہ کیا کہ انکے پاس اسکے ثبوت بھی موجود ہیں۔ ہمارا دشمن تو یقیناً ہماری ترقی و خوشحالی کے ضامن کسی بھی منصوبے کی تکمیل نہیں چاہے گا کیونکہ وہ ہمارا کسی صورت خیرخواہ نہیں ہو سکتا مگر دشمن کی ایسی گھنائونی سازشوں کو ناکام بنانے اور اسے منہ توڑ جواب دینے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ سانحہ کوئٹہ میں اندرونی یا بیرونی جو بھی عناصر ملوث ہیں‘ انہیں اس گھنائونی واردات کا موقع تو ہمارے سکیورٹی انتظامات میں موجود خامیوں کو بھانپ کر ہی ملا ہے۔ یہ خامیاں دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد اجاگر ہوتی ہیں مگر انہیں دور کرنے اور سکیورٹی اداروں میں اصلاح احوال کیلئے آج تک کوئی مؤثر اور عملی اقدام اٹھایا جاتا نظر نہیں آیا۔ سانحۂ کوئٹہ میں جن مظلوم گھرانوں کو اپنے 75کے قریب اپنے پیاروں کی لاشیں دفنانا پڑی ہیں‘ کیا وہ اس عذر کو قبول کرلیں گے کہ دشمن کی ہمارے سی پیک منصوبے پر نظر ہے اور اس لئے ہمارے پیاروں سے یہ قربانی لی گئی؟ پشاور کے سانحہ اے پی ایس اور لاہور میں گلشن اقبال پارک کے خودکش حملے کے بعد اب سانحۂ کوئٹہ نے ہمارے سکیورٹی انتظامات پر آج پھر اسی تناظر میں کئی سوالات اٹھا دیئے ہیں جن میں اگر حکومتی گورننس دائو پر لگی نظر آتی ہے تو سکیورٹی ایجنسیوں کی کارکردگی بھی چیلنج ہو رہی ہے۔ اس صورتحال میں سکیورٹی انتظامات پر قوم کا اعتماد و اطمینان اسی صورت حاصل ہو سکتا ہے جب سول اور عسکری قیادتیں یکسو ہو کر نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کریں گی۔ قوم کی آنکھوں سے ٹپکتی مایوسی و وحشت سے قومی قیادتوں کو بخوبی اندازہ لگا لینا چاہیے کہ انہیں مزید بے عملی کی صورت میں کس ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
دو سال قبل کے آرمی پبلک سکول کے المناک سانحہ اور چند مہینے پہلے گلشن اقبال پارک میں ایسٹر کے دن ہونیوالے دھماکے کے بعد گزشتہ روز سول ہسپتال کوئٹہ میں اسی نوعیت کے سانحہ نے پوری قوم کے دل لرزا کر رکھ دیئے ہیں جبکہ وہ اپنے حکمرانوں‘ سیاست دانوں اور سکیورٹی اداروں کے بے نیازی والے طرز عمل کو بھانپ کر مزید خوفزدہ اور مزید عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ روز کے سانحہ کے بعد وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف اپنے الگ الگ پروگرام کے تحت کوئٹہ پہنچے اور سول ہسپتال کوئٹہ میں زخمیوں کی عیادت کی جس سے عوام میں یہ تاثر مزید گہرا ہوا کہ ملک کی فضائوں پر طاری دہشت گردی کی وحشت کے باوجود ہماری سول اور عسکری قیادتیں ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سکیورٹی ایجنسیوں کو ملک بھر میں کومبنگ اپریشن کا حکم دیا جو دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے درست اقدام ہے تاہم ایسے اقدامات ایک قومی ذمہ داری کے حوالے سے حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں کی مشترکہ سوچ اور حکمت عملی کے تحت اٹھائے جائیں تو یہ زیادہ مؤثر ہوسکتے ہیں۔ اس تناظر میں قوم کے ذہنوں میں یہ سوچ بھی مستحکم ہو رہی ہے کہ پشاور کے سانحۂ ’’اے پی ایس‘‘ کے بعد دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے قومی اتفاق رائے سے وضع کئے گئے نیشنل ایکشن پلان کی ایک ایک شق پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد ہو گیا ہوتا تو یقیناً گزشتہ روز کے سانحۂ کوئٹہ کی نوبت نہ آتی۔ اب قومی سیاسی و دینی قیادتوں کی جانب سے سانحۂ کوئٹہ کی بنیاد پر حکومت سے فی الفور ایک نئی اے پی سی طلب کرنے کا تقاضا کیا جارہا ہے تاکہ اس میں نیشنل ایکشن پروگرام پر نظرثانی کرکے اسے مزید مؤثر بنایا جائے اور اس کو مکمل عملی جامہ پہنانے کے بھی مؤثر اقدامات اٹھائے جائیں۔ اس حوالے سے قومی سیاسی قائدین اور قوم کے منتخب نمائندوں کا بے نیازی پر مبنی طرز عمل اور ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ والی مفاداتی سیاست بھی قوم کے ذہنوں میں کھٹک رہی ہے۔ منتخب نمائندوں کی اس سے بڑی بے حسی اور کیا ہو سکتی ہے کہ سانحۂ کوئٹہ کے بعد قومی اسمبلی کے جاری اجلاس میں سرکاری اور اپوزیشن بینچوں پر اتنی تعداد بھی موجود نہیں تھی کہ وہ اس منتخب فورم پر سانحۂ کوئٹہ کیخلاف مذمتی قرارداد ہی منظور کرالیتے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ ملک اور قوم اس وقت دہشت گردی کے سنگین خطرات کی زد میں ہے مگر اپوزیشن جماعتوں کی سیاست کی ترجیح اول آج بھی پانامہ لیکس پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی بنی ہوئی ہے جبکہ اس وقت ساری حکومتی اور اپوزیشن قیادتوں کی ترجیح اول نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کرانے کی ہونی چاہیے تاکہ ہماری دھرتی کو بے گناہ انسانوں کے خونِ ناحق سے رنگین کرنیوالے سفاک دہشت گردوں کے آئندہ کے عزائم کے آگے بند باندھا جاسکے۔ گزشتہ روز عمران خان نے اپنی حکومت مخالف سرگرمیاں ترک کرکے کوئٹہ کا دورہ کیا ہے اور سول ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کرتے ہوئے انکے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے بھی گزشتہ روز کوئٹہ جا کر سانحۂ کوئٹہ کے متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے جو دہشت گردوں کو قومی یکجہتی کا تاثر دینے کے حوالے سے مستحسن اقدام ہے تاہم اس وقت محض رسمی اور زبانی کلامی نہیں‘ قومی سیاسی قائدین کو دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے کی مشترکہ لائن آف ایکشن طے کرکے اسے عملی جامہ پہنایا جاتا ہوا بھی قوم کو دکھانا چاہیے۔
گزشتہ روز کے سانحۂ کوئٹہ کے حوالے سے وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کوئٹہ میں طلب کئے گئے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں اس امر کا اظہار کیا کہ سانحۂ کوئٹہ درحقیقت ہمارے اقتصادی راہداری منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے جس میں اندرونی اور بیرونی عناصر شریک ہیں جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے سانحہ کوئٹہ میں بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے براہِ راست ملوث ہونے کا دعویٰ کیا اور پورے وثوق کے ساتھ اس امر سے آگاہ کیا کہ انکے پاس اسکے ثبوت بھی موجود ہیں۔ ہمارا دشمن تو یقیناً ہماری ترقی و خوشحالی کے ضامن کسی بھی منصوبے کی تکمیل نہیں چاہے گا کیونکہ وہ ہمارا کسی صورت خیرخواہ نہیں ہو سکتا مگر دشمن کی ایسی گھنائونی سازشوں کو ناکام بنانے اور اسے منہ توڑ جواب دینے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ سانحہ کوئٹہ میں اندرونی یا بیرونی جو بھی عناصر ملوث ہیں‘ انہیں اس گھنائونی واردات کا موقع تو ہمارے سکیورٹی انتظامات میں موجود خامیوں کو بھانپ کر ہی ملا ہے۔ یہ خامیاں دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد اجاگر ہوتی ہیں مگر انہیں دور کرنے اور سکیورٹی اداروں میں اصلاح احوال کیلئے آج تک کوئی مؤثر اور عملی اقدام اٹھایا جاتا نظر نہیں آیا۔ سانحۂ کوئٹہ میں جن مظلوم گھرانوں کو اپنے 75کے قریب اپنے پیاروں کی لاشیں دفنانا پڑی ہیں‘ کیا وہ اس عذر کو قبول کرلیں گے کہ دشمن کی ہمارے سی پیک منصوبے پر نظر ہے اور اس لئے ہمارے پیاروں سے یہ قربانی لی گئی؟ پشاور کے سانحہ اے پی ایس اور لاہور میں گلشن اقبال پارک کے خودکش حملے کے بعد اب سانحۂ کوئٹہ نے ہمارے سکیورٹی انتظامات پر آج پھر اسی تناظر میں کئی سوالات اٹھا دیئے ہیں جن میں اگر حکومتی گورننس دائو پر لگی نظر آتی ہے تو سکیورٹی ایجنسیوں کی کارکردگی بھی چیلنج ہو رہی ہے۔ اس صورتحال میں سکیورٹی انتظامات پر قوم کا اعتماد و اطمینان اسی صورت حاصل ہو سکتا ہے جب سول اور عسکری قیادتیں یکسو ہو کر نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کریں گی۔ قوم کی آنکھوں سے ٹپکتی مایوسی و وحشت سے قومی قیادتوں کو بخوبی اندازہ لگا لینا چاہیے کہ انہیں مزید بے عملی کی صورت میں کس ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
(روزنامہ
نوائے وقت)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں