اتوار، 14 اگست، 2016

’’سِتم کی رات / صبح آزادی؟‘‘


اثر چوہان

دُنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی سال میں ایک دِن 15 ستمبر کو "Democracy Day" (یومِ جمہوریت) منایا جاتا ہے لیکن ہر ملک کا "Independence Day" (یومِ آزادی) مختلف دِنوں میں۔ آج ہمارا یومِ آزادی ہے لیکن ہم یومِ آزادی کو تجدیدِ عہد کے لئے نہیں بلکہ ایک رسم کے طور پر مناتے ہیں ۔ شاید یہ سوچ کر کہ ’’اگر ہم نے یہ رسم نہ نبھائی تو دوسرے ملکوں کے لوگ ہمیں کیا کہیں گے۔ انگریزی زبان میں آزادی کے لئے "Freedom" اور "Liberty" کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ آزاد ملکوں میں ہر شخص کو ریاست کی طرف سے "The Four Freedoms" (آزادیٔ چہار گانہ) کی گارنٹی دی جاتی ہے۔ یعنی آزادیٔ عقیدہ، آزادیٔ اظہار ، خوف اور غُربت سے نجات۔ علاّمہ اقبالؒ نے اِسی طرح کے آزاد پاکستان کا خواب دیکھا تھا اور قائداعظمؒ نے بھی اعلان کِیا تھا کہ ’’اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت پاکستان میں سارے اِنسانوں کو آزادیٔ چہار گانہ حاصل ہو گی‘‘ لیکن جِن فوجی اور جمہوریت کے علمبردار حکمرانوں، سیاستدانوں اور مولویوں نے علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی عظمت کو دِل سے تسلیم نہیں کِیا اور اُن کے خلاف کُفر کے فتوے بھی دئیے اُنہوں نے ، اور اُن کی صُلبی اور معنوی اُولاد نے پاکستان کے ہر شخص کو ’’آزادیٔ چہار گانہ‘‘ سے محروم رکھنے کے لئے اِتحاد قائم کئے رکھا۔
ستمبر 2001ء میں صدر جنرل پرویز مشرف اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے گئے تو مَیں بھی اُن کی میڈیا ٹیم کا رُکن تھا۔ اجلاس ختم ہُوا تو نیویارک میں مقیم میرے دو بیٹوں ذوالفقار علی چوہان اور انتظار علی چوہان نے مجھے "Statue of Liberty" (مجسمۂ آزادی) دکھایا۔ یہ مجسمہ 1886ء میں فرانس کی طرف سے آزاد امریکہ کو تحفے میں دِیا گیا تھا۔ مجسمے پر شاعرہ "Emma Lazarus" کے تین مصرعوں کی لِکھی گئی "Sonnet" (نظم) کُندہ ہے۔ نظم کے تین مصرعوں کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ ’’ اپنے تھکے ہارے، غریب اور مُشکلات میں گھرے عوام کو میرے سپرد کر دیں جو آزادی کا سانس لینے کے لئے ترس رہے ہیں‘‘۔ شاعرہ نے شاید مجسمۂ آزادی کو ’’آزادی کی دیوی‘‘ قرار دے کر اُس کی طرف سے زندگی کی سہولتوں سے محروم عوام کو یہ پیغام دِیا ہے۔
مَیں 2003ء میں دوسری بار نیویارک گیا تو میرے بیٹوں نے کہا کہ "Statue of Liberty" دیکھنے چلیں؟‘‘ تو مَیں نے اُنہیں کہا کہ ’’ مَیں ایک بار تو دیکھ چکا ہُوں۔ اگراُس "Statue" میں کوئی تبدیلی آگئی ہے تو چلتے ہیں‘‘۔ مجھے 1991ء میں شیخ رشید احمد اور 1994ء میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے ساتھ دو بار عوامی جمہوریہ چین جانے کا موقع مِلا۔ مَیں نے شہرہ آفاق دیوارِ چین صِرف ایک بار دیکھی لیکن عوامی جمہوریہ چین کے بانی چیئرمین مائوزے تنگ کے شیشے کے فریم میں محفوظ جسدِ خاکی کی دونوں بار زیارت کی۔ کتنے عظیم انسان تھے مائوزے تنگ؟ ۔ جب اُن کا انتقال ہُوا تو اُنہوں نے ترکے میں چھ جوڑے کپڑے (Uniforms)‘ ایک لائبریری اور بنک میں چند ڈالر ز چھوڑے۔ ہمارے قائداعظمؒ بھی عظیم تھے جنہوں نے اپنی جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام وقف کردِیا تھا۔
مجھے مِلتِ اسلامیہ کے عظیم ہیرو جمہوریہ تُرکیہ کے بانی ’’اتا ترک ‘‘ غازی مصطفیٰ کمال پاشا کے مزار پر بھی دو بار حاضری کا موقع مِلا۔ 1973ء میں صحافی دوستوں کے ساتھ اور دوسری بار صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ۔ اتاترک نے بھی اپنی جائیداد قوم کے نام کردی تھی۔ آج مَیں سوچ رہا ہُوں کہ ہمارے حکمران اور سابق حکمران جو پاکستان کی دولت لُوٹ کر بیرونی ملکوں میں لے گئے ہیں اور وہاں اُنہوں نے اور اُن کی اولاد نے جو جائیدادیں بنا لی ہیں اور وہ سیاستدان جو برطانیہ، کینیڈا کے شہری ہیں اور دُبئی کے محل میں رہتے ہیں تو اُن کا ہمارے یومِ آزادی سے کیا کام ، قوم اُن کی عِزّت کیوں کرے گی؟
یومِ آزادی پر مبارکباد کے مستحق تو وہ لوگ ہیں کہ جِن کے بزرگوں نے قیامِ پاکستان کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کِیا اور پاک فوج کے اُن افسروں اور اہلکاروں کے وُرثاء جو پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے شہید ہُوئے اور اب بھی دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان کے ارب پتی اور کھرب پتی ’’قارون صِفت‘‘ سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں کو یومِ آزادی کی مبارک باد کیوں دی جائے؟ جنہوں نے پاکستان کے 60 فی صد لوگوں کو غُربت کی لکِیر سے نیچے دھکیل رکھا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کا حلف اُٹھانے کے فوراً بعد جون 2013ء میں راولپنڈی میں عالمی میلاد کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے وزیراعظم کے سمبندھی محمد اسحاق ڈار صاحب نے کہا تھا کہ ’’مجھے حضرت داتا گنج بخش سیّد علی ہجویریؒ نے لاہور سے "On Deputation" وزیرِ خزانہ بنا کر اسلام آباد بھیجا ہے‘‘۔ مَیں ڈار صاحب کے اِس دعوے کو تسلیم نہیں کرتا۔ بھلا حضرت داتا گنج بخشؒ کا ڈار صاحب جیسے لوگوں سے کیا واسطہ؟
جب بھی پاکستان کا یومِ آزادی منایا جاتا ہے تو، مجھے 11 ستمبر 1971ء کو مزارِ قائداعظمؒ پر کی جانے والی چیئرمین پیپلز پارٹی ذوالفقار علی کی تقریر یاد آ جاتی ہے جو دوسرے روز 12 ستمبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے سرکاری ترجمان روزنامہ ’’مساوات‘‘ لاہور کی شہ سُرخی تھی کہ ’’بول اے میرے قائد! سِتم کی یہ رات کب ڈھلے گی؟‘‘ لیکن قائداعظمؒ نہیں بولے۔ پھر بھٹو صاحب چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ ہو گئے۔ پاکستان دولخت ہُوا تو بھٹو صاحب کو سِویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان بنایا گیا۔ بھٹو صاحب، بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور دوسرے حکمرانوں کے دَور میں عوام ’’سِتم کی راتوں اور قہر کے دِنوں میں‘‘ زندگی بسر کرنے کے عادی رہے ہیں۔ اب بھی ہیں۔ ہر دَور میں اخلاق یافتہ اور قانون باختہ بالا دست لوگوں کا تو ہر ’’یوم یومِ آزادی‘‘ رہا ہے۔
علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے مزاروں پر حاضری بھی ایک رسم ہے۔ ضروریاتِ زندگی سے محروم لوگ ’’اب بھی اوہ جی اللہ مالک ہے‘‘ کہہ کر ’’سِتم کی راتوں اور قہر کے دِنوں‘‘ کے گزرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ نوابوں اور جاگیرداروں کی طرح زندگی بسر کرنے والے مولوی صاحبان غریب غُربا کو یقین دلاتے رہتے ہیں کہ ’’امارت اور غُربت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے‘‘۔ کوئی مولوی انہیں یہ نہیں بتاتا کہ ’’40 سال کی مشکلات کے بعد بنی اسرائیل کو تو دکھوں سے نجات مِل گئی تھی لیکن قیامِ پاکستان کے 69 سال بعد بھی غریبوں کی زندگی پر مسلط کِیا گیا عذاب کم کیوں نہیں ہُوا؟ اُن لوگوں کو شرم بھی نہیں آتی جو موقع بے موقع کسی انگریز دانشور کے اِس قول کی جگالی کرتے رہتے ہیں کہ ’’بدترین جمہوریت، بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ بھوکے، ننگے اور بے گھر عوام ’’بدترین جمہوریت‘‘ کو چاٹنے کے لئے شہد کہاں سے لائیں؟ کوئی بتائے تو سہی کہ سِتم کی رات کے بعد اُن کے سارے دُکھ دُور کرنے والی صبحِ آزادی کب اُبھرے گی؟
(روزنامہ نوائے وقت)  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں