محمد بشیر احمد جھمرہ
قرار داد پاکستان پاس ہونے کے بعد قائد اعظم نے ہندوستان کے طول و عرض میں دورے کرنے کا پروگرام بنایا۔ 1942ءمیں قائد اعظم کے لائل پور (حال فیصل آباد) کے دورہ کا پروگرام تھا میں اس وقت ڈی بی ہائی سکول چک جھمرہ میں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔ شہر میں سیاسی بحث مباحثے روزانہ کا معمول تھے۔ شہر میں ہندوﺅں کی آبادی کا تناسب مسلمانوں سے زیادہ تھا وہ پاکستان کے خلاف شدو مد سے اعتراضات اٹھاتے۔ مقامی ہندو آڑھتی سیٹھوں اور والد صاحب کے حلقہ احباب کے درمیان یہ مباحث اکثر ہمارے ہاں ہی تیسرے پہر مغرب سے پہلے ہوتے۔ میں کھیلتے کودتے رک کر اکثر اس بحثہ بحثی کو سنا کرتا تھا۔ انہی دنوں مردم شماری کی مہم شروع ہوئی جس میں مادری زبان ’ہندی‘ یا ’اردو‘ کا تنازعہ بڑی اہمیت حاصل کر گیا۔ ہندو قیادت نے ’ہندی‘ لکھنے کی مہم چلائی تو مسلمانوں نے ’اردو‘ کو مادری زبان لکھنے کی مہم چلائی۔ روزانہ شام کو لاٹھی بردار جلوس نکلتے مسلمان نوجوان جن میں میرے بڑے بھائی میاں محمد صدیق پیش پیش تھے اردو کے حق میں ترانے گاتے نعرے لگاتے میں اور میرے ساتھی بھی ان جلوسوں میں شامل ہو کر خوب نعرے بازی کرتے چک جھمرہ کے سب مسلمانوں نے مردم شماری میں مادری زبان اردو لکھوائی مہم بڑی کامیاب رہی۔ پنجاب کے دوسرے شہروں میں بھی سب مسلمانوں نے مادری زبان ’اردو‘ ہی لکھوائی۔
یہ تھا ماحول جب قائد اعظم کے دورہ¿ لائل پور کا اعلان ہوا۔ پروگرام کے مطابق قائد اعظم بذریعہ ٹرین تشریف لا رہے تھے۔ مقررہ دن شہر اور مضافات سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کا جم غفیر چک جھمرہ سٹیشن کا رخ کرنے لگا۔ شہر کے اندر قریبی دیہات سے آمدہ لوگ سبز پرچم ہاتھوں میں لئے جلوسوں کی شکل میں بازاروں میں نعرے لگاتے ہوئے سٹیشن کا رخ کر رہے تھے۔ ہم بچوں میں بھی قائد اعظم کی ایک جھلک دیکھنے اور پرجوش نعروں سے استقبال کرنے کا بڑا شوق تھا۔ 12 بجے دن گاڑی کی آمد کا وقت تھا۔ میں اور میرے آٹھ دس ساتھی تھے، ہم نے سٹیشن کا رخ کیا اور جلوسوں میں شامل ہو کر خوب نعرے لگائے۔ چک جھمرہ کا ریلوے پلیٹ فارم کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سٹیشن کے باہر بھی ہر طرف لوگ ہی لوگ اور سبز جھنڈے لہرا رہے تھے۔ پلیٹ فارم پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ خوب دھکم پیل ہو رہی تھی۔ اتنے بڑے ہجوم میں 10/12 سالہ بچوں کی کیا حیثیت، سب نے اپنے اپنے طور پر گھسنے کی کوشش شروع کی۔ میں بفضل خدا نہایت صحت مند، قوی جسم، ہندڑھیل، نڈر کھلاڑی، قسم کا بچہ تھا جس کام کا ارادہ کرتا اسے پورا کر کے ہی دم لیتا۔ جس ہجوم میں گھس کر لوگوں کی ٹانگوں اور چھوٹے موٹے خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلسل آگے بڑھتا گیا اور مسلم لیگ نیشنل گارڈ کے رضا کاروں کی صف تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ دستہ عین پلیٹ فارم کے کنارے پر کھڑا تھا اور مخصوص وردی میں ملبوس جناح کیپ پہنے ہوئے ننگی تلواریں ہاتھوں میں لئے چاک و چوبند رضا کار اپنے قائد کے انتظار میں ڈیوٹی پر مامور تھے۔ میں نے بھی ان کے درمیان جا سر نکالا۔ دھکم پیل اتنی تھی کہ کئی لوگ پلیٹ فارم سے ریلوے ٹریک پر گر رہے تھے۔ انتظار کی گھڑیاں لمبی ہوتی جا رہی تھیں وقفہ وقفہ کے بعد گھوڑ سوار لوگ آ کر اطلاع دے رہے تھے کہ گاڑی فلاں سٹیشن سے چل پڑی ہے اور آ رہی ہے۔ راستے کے ہر چھوٹے بڑے سٹیشن پر لوگوں کے بے پناہ استقبالی ہجوم اور نعروں کے درمیان گاڑی بہت آہستہ چل رہی تھی بالآخر شام 5 بجے کے قریب سٹیشن کے باہر والے سگنل ڈاﺅن ہوئے تو عوام کا جوش خروش انتہاءکو پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر بعد ٹرین کا انجن نظر آنے لگا۔ انجن کے سامنے کے پائیدان پر جھنڈے بردار نوجوانوں کی قطار صاف نظر آنے لگی۔ ساری گاڑی مسلم لیگ کے جھنڈوں اور جھنڈیوں سے سجی ہوئی تھی۔ گاڑی کے دونوں اطراف ڈبوں کے دروازوں کے پائیدانوں پر وقار اور شاہانہ انداز میں سجی سجائی دلہن کی طرح ٹرین خراماں خراماں پلیٹ فارم کی حد میں داخل ہوئی تو ہجوم کے جوش اور شوق دیدار میں دھکا بازی اور قائد اعظم زندہ باد پاکستان زندہ باد کے نعروں کی گونج میلوں تک سنی جا رہی تھی۔
پروگرام کے تحت قائد اعظم کی گاڑی نے آہستہ رفتار سے رکے بغیر جھمرہ سٹیشن سے گزرنا تھا لیکن ہجوم قائد اعظم کی ایک جھلک دیکھنے پر مصر تھا۔ ایک بڑی تعداد گاڑی کے آگے لیٹ گئی۔ گاڑی رک گئی میں سالار دستہ کے پیچھے دبک کر نیشنل گارڈ کے جوانوں کے ہمراہ گاڑی کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے قائد اعظم کے ڈبہ کے دروازے کے عین سامنے جا پہنچا۔ اتنے میں پچھلے ڈبہ سے قائد اعظم کے ساتھ سفر کرنے والے نیشنل گارڈ کے رضا کار ننگی تلواریں ہاتھوں میں لئے لپک کر نیچے کودے اور قائد اعظم کے دروازے کے ارد گرد حصار بنا لیا۔ قائد اعظم زندہ باد قائد کی جھلک دیکھنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ تھوڑے وقفہ کے بعد دروازہ کھلا تو .... حضرت قائد اعظم شیروانی میں ملبوس جناح کیپ پہنے دروازے پر رونق افروز ہوئے اور ہاتھ ہلا ہلا کر اپنے شیدائیوں کی سلامی قبول کی۔ نیشنل گارڈ کے دستے نے تلواریں ہوا میں لہرا کر قائد اعظم زندہ باد کے نعرے کے ساتھ فوجی انداز میں سلامی پیش کی۔ میں نے بھی دایاں ہاتھ ماتھے کے قریب لے جا کر سلامی پیش کی۔ کیا وقت تھا‘ کیا منظر تھا۔ میں صرف 5 یا 6 فٹ کے فاصلے پر کھڑا قائد اعظم کو سلامی پیش کر رہا تھا وہ لمحے میرے بچپن کی یادوں کا عظیم ترین سرمایہ ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح ساتھ والی کھڑکی سے اندر بیٹھی صاف نظر آ رہی تھیں۔ ایک ڈیڑھ منٹ بعد قائد اعظم اندر تشریف لے گئے، دروازہ بند ہوا، گاڑی نے ہلکی سی وسل بجائی اور حرکت میں آگئی۔ نعرے تیز سے سے تیز تر ہوتے گئے۔ حتیٰ کہ گاڑی آہستہ آہستہ نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ چک جھمرہ سے بھی کئی نوجوانوں نے گاڑی پر چڑھنے کی کوشش کی رش اتنا تھا کہ بہت کم کامیاب ہوئے۔ لائل پور کے وسیع و عریض دھوبی گھاٹ میدان میں جلسہ کا انتظام تھا۔ جھمرہ سے سینکڑوں لوگ گھوڑوں اور سائیکلوں پر سوار ہو کر اور بڑی تعداد میںپیدل لائل پور روانہ ہوئے۔ یہ قائد اعظمؒ سے میری پہلی ”ملاقات“ تھی۔
یہ تھا ماحول جب قائد اعظم کے دورہ¿ لائل پور کا اعلان ہوا۔ پروگرام کے مطابق قائد اعظم بذریعہ ٹرین تشریف لا رہے تھے۔ مقررہ دن شہر اور مضافات سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کا جم غفیر چک جھمرہ سٹیشن کا رخ کرنے لگا۔ شہر کے اندر قریبی دیہات سے آمدہ لوگ سبز پرچم ہاتھوں میں لئے جلوسوں کی شکل میں بازاروں میں نعرے لگاتے ہوئے سٹیشن کا رخ کر رہے تھے۔ ہم بچوں میں بھی قائد اعظم کی ایک جھلک دیکھنے اور پرجوش نعروں سے استقبال کرنے کا بڑا شوق تھا۔ 12 بجے دن گاڑی کی آمد کا وقت تھا۔ میں اور میرے آٹھ دس ساتھی تھے، ہم نے سٹیشن کا رخ کیا اور جلوسوں میں شامل ہو کر خوب نعرے لگائے۔ چک جھمرہ کا ریلوے پلیٹ فارم کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سٹیشن کے باہر بھی ہر طرف لوگ ہی لوگ اور سبز جھنڈے لہرا رہے تھے۔ پلیٹ فارم پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ خوب دھکم پیل ہو رہی تھی۔ اتنے بڑے ہجوم میں 10/12 سالہ بچوں کی کیا حیثیت، سب نے اپنے اپنے طور پر گھسنے کی کوشش شروع کی۔ میں بفضل خدا نہایت صحت مند، قوی جسم، ہندڑھیل، نڈر کھلاڑی، قسم کا بچہ تھا جس کام کا ارادہ کرتا اسے پورا کر کے ہی دم لیتا۔ جس ہجوم میں گھس کر لوگوں کی ٹانگوں اور چھوٹے موٹے خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلسل آگے بڑھتا گیا اور مسلم لیگ نیشنل گارڈ کے رضا کاروں کی صف تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ دستہ عین پلیٹ فارم کے کنارے پر کھڑا تھا اور مخصوص وردی میں ملبوس جناح کیپ پہنے ہوئے ننگی تلواریں ہاتھوں میں لئے چاک و چوبند رضا کار اپنے قائد کے انتظار میں ڈیوٹی پر مامور تھے۔ میں نے بھی ان کے درمیان جا سر نکالا۔ دھکم پیل اتنی تھی کہ کئی لوگ پلیٹ فارم سے ریلوے ٹریک پر گر رہے تھے۔ انتظار کی گھڑیاں لمبی ہوتی جا رہی تھیں وقفہ وقفہ کے بعد گھوڑ سوار لوگ آ کر اطلاع دے رہے تھے کہ گاڑی فلاں سٹیشن سے چل پڑی ہے اور آ رہی ہے۔ راستے کے ہر چھوٹے بڑے سٹیشن پر لوگوں کے بے پناہ استقبالی ہجوم اور نعروں کے درمیان گاڑی بہت آہستہ چل رہی تھی بالآخر شام 5 بجے کے قریب سٹیشن کے باہر والے سگنل ڈاﺅن ہوئے تو عوام کا جوش خروش انتہاءکو پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر بعد ٹرین کا انجن نظر آنے لگا۔ انجن کے سامنے کے پائیدان پر جھنڈے بردار نوجوانوں کی قطار صاف نظر آنے لگی۔ ساری گاڑی مسلم لیگ کے جھنڈوں اور جھنڈیوں سے سجی ہوئی تھی۔ گاڑی کے دونوں اطراف ڈبوں کے دروازوں کے پائیدانوں پر وقار اور شاہانہ انداز میں سجی سجائی دلہن کی طرح ٹرین خراماں خراماں پلیٹ فارم کی حد میں داخل ہوئی تو ہجوم کے جوش اور شوق دیدار میں دھکا بازی اور قائد اعظم زندہ باد پاکستان زندہ باد کے نعروں کی گونج میلوں تک سنی جا رہی تھی۔
پروگرام کے تحت قائد اعظم کی گاڑی نے آہستہ رفتار سے رکے بغیر جھمرہ سٹیشن سے گزرنا تھا لیکن ہجوم قائد اعظم کی ایک جھلک دیکھنے پر مصر تھا۔ ایک بڑی تعداد گاڑی کے آگے لیٹ گئی۔ گاڑی رک گئی میں سالار دستہ کے پیچھے دبک کر نیشنل گارڈ کے جوانوں کے ہمراہ گاڑی کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے قائد اعظم کے ڈبہ کے دروازے کے عین سامنے جا پہنچا۔ اتنے میں پچھلے ڈبہ سے قائد اعظم کے ساتھ سفر کرنے والے نیشنل گارڈ کے رضا کار ننگی تلواریں ہاتھوں میں لئے لپک کر نیچے کودے اور قائد اعظم کے دروازے کے ارد گرد حصار بنا لیا۔ قائد اعظم زندہ باد قائد کی جھلک دیکھنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ تھوڑے وقفہ کے بعد دروازہ کھلا تو .... حضرت قائد اعظم شیروانی میں ملبوس جناح کیپ پہنے دروازے پر رونق افروز ہوئے اور ہاتھ ہلا ہلا کر اپنے شیدائیوں کی سلامی قبول کی۔ نیشنل گارڈ کے دستے نے تلواریں ہوا میں لہرا کر قائد اعظم زندہ باد کے نعرے کے ساتھ فوجی انداز میں سلامی پیش کی۔ میں نے بھی دایاں ہاتھ ماتھے کے قریب لے جا کر سلامی پیش کی۔ کیا وقت تھا‘ کیا منظر تھا۔ میں صرف 5 یا 6 فٹ کے فاصلے پر کھڑا قائد اعظم کو سلامی پیش کر رہا تھا وہ لمحے میرے بچپن کی یادوں کا عظیم ترین سرمایہ ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح ساتھ والی کھڑکی سے اندر بیٹھی صاف نظر آ رہی تھیں۔ ایک ڈیڑھ منٹ بعد قائد اعظم اندر تشریف لے گئے، دروازہ بند ہوا، گاڑی نے ہلکی سی وسل بجائی اور حرکت میں آگئی۔ نعرے تیز سے سے تیز تر ہوتے گئے۔ حتیٰ کہ گاڑی آہستہ آہستہ نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ چک جھمرہ سے بھی کئی نوجوانوں نے گاڑی پر چڑھنے کی کوشش کی رش اتنا تھا کہ بہت کم کامیاب ہوئے۔ لائل پور کے وسیع و عریض دھوبی گھاٹ میدان میں جلسہ کا انتظام تھا۔ جھمرہ سے سینکڑوں لوگ گھوڑوں اور سائیکلوں پر سوار ہو کر اور بڑی تعداد میںپیدل لائل پور روانہ ہوئے۔ یہ قائد اعظمؒ سے میری پہلی ”ملاقات“ تھی۔
(روزنامہ
نوائے وقت)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں