جمعہ، 12 اگست، 2016

غدّار‘ ایجنٹ اور کافر


اثر چوہان

جمعیت عُلماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل اُلرحمن نے 10 اگست کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں گِلہ کِیا کہ ’’کچھ نیوز چینلز کے اینکر پرسنز مجھے اور دوسرے ارکانِ پارلیمنٹ کو غدّار کہتے ہیں‘‘۔ اُنہوں نے سپیکر جناب ایاز صادق سے کہا ’’آپ اِس معاملے کا نوٹس لیں‘‘۔ مولانا صاحب نے ایوان میں موجود وزیراعظم نواز شریف سے بھی اپیل کی کہ وہ "Pemra" کے حکام کو ہدایات جاری کریں کہ ’’ کوئی بھی اینکر پرسن کسی رُکن پارلیمنٹ کو ’’ غدّار‘‘ یا ’’ ایجنٹ‘‘ نہ کہے‘‘۔
عربی زبان کے لفظ ’’ غدّار‘‘ کے معنے ہیں بے وفا، نمک حرام، فساد کرنے والا اور باغی۔ اور ’’ غدر‘‘ کے معنی ہیں بے وفائی ، بلوہ، ہنگامہ اور بغاوت۔ 1857ء میں انگریزوں کے خلاف ہندو ستانیوں کی بغاوت کو پہلے ’’ غدر‘‘ ہی کہا جاتا تھا لیکن پھر پاکستان اور ہندوستان میں ’’ جنگِ آزادی‘‘ کہا جاتا ہے ۔ مَیں 23 مارچ 1970ء کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مشرقی پاکستان سے چِین نواز نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی صدارت میں منعقدہ کسان کانفرنس میں شرکت کے لئے لاہور سے گیا تھا ۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے نیشنل عوامی پارٹی کے سیکرٹری جنرل جناب مسیح اُلرحمن نے جوشِ خطابت میں صدر جنرل یحییٰ خان کو تین بار کہا ’’یحییٰ خان غدّار ہے‘ یحییٰ خان غدّار ہے‘ یحییٰ خان غدّار ہے‘‘۔
جناب مسیح اُلرحمن کو مارشل لاء کے کسی ضابطے کے تحت گرفتار کرلِیا گیا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی جنرل یحییٰ خان اور جناب مسیح اُلرحمن ، دونوں سے دوستی تھی۔ چند دِن بعد قومی اخبارات میں خبریں شائع ہُوئیں کہ ’’ بھٹو صاحب نے صدر یحییٰ خان کو بتایا کہ ’’ مسیح اُلرحمن بنگالی ہیں ‘‘ ۔ انہیں صحیح اُردو بولنا نہیں آتی۔ اُنہوں نے آپ کو غدّار "Traitor" کے معنوں میں نہیں بلکہ ’’ بے وفا‘‘ (Disloyal) کے معنوں میں کہا ہے‘‘ ۔ مارشل لائی عدالت نے مسیح اُلرحمن صاحب کو ’’ با عزت‘‘ بری کردِیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اگر بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن اور سابق گورنر پنجاب جناب لطیف کھوسہ ، مولانا فضل اُلرحمن اور دوسرے ارکانِ پارلیمنٹ کو غدّار کہنے والے اینکر پرسنز کے وُکلاء صفائی ہُوں تو وہ اپنے مرحوم قائد ذوالفقار علی بھٹو کے انداز میں اُن کی پیروی کریں گے اور عدالت کو بتائیں گے کہ ’’ ہمارے مؤکلوں نے مولانا فضل اُلرحمن اور دوسرے ارکان پارلیمنٹ کو "Traitor" کے معنوں میں غدّار نہیں کہا بلکہ "Disloyal" کے معنوں میں ‘‘کہا ہے۔
ہماری قومی سیاسی تحریک کے مطابق مولانا فضل اُلرحمن کے والد مولانا مفتی محمود جناب ذوالفقار علی بھٹو کے حلیف رہے ہیں اور بے نظیر بھٹو اور صدر آصف علی زرداری مولانا فضل اُلرحمن کے ۔ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی سیاست پر بالائی طبقے کا غلبّہ دیکھتے ہُوئے کسی دِل جلے شاعر نے کہا تھا …
’’ اے کاش مرے آباء ، غدّارِ وطن ہوتے
ہم آج کی دُنیا میں ، سردارِ وطن ہوتے‘‘
لیکن کیا کِیا جائے کہ بے وسائل لوگ جب بھی غدّارانِ وطن بننے کی کوشش کرتے ہیں تو اُنہیں کوئی بھی گھاس نہیں ڈالتا۔ مختلف ادوار میں کئی سیاستدانوں کو غدّار کہا گیا ۔ اُن پر عدالتوں میں مقدمات بھی چلتے رہے لیکن اُن کی غدّاری کو ثابت نہیں کِیا جاسکا اور نہ ہی اُنہیں کسی مُلک کا ایجنٹ ثابت کِیا جاسکا۔ مولانا فضل اُلرحمن نے اپنے سیاسی حریف جناب عمران خان کو ’’ یہودیوں کا ایجنٹ‘‘ کہنا شروع کِیا تو خان صاحب نے بھی جواب میں یہی کہا کہ ’’ مولانا فضل اُلرحمن کے ہوتے ہُوئے یہودیوں کو پاکستان میں کسی اور کو ایجنٹ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ ‘‘ ۔ لیکن مولانا فضل اُلرحمن یا جناب عمران خان نے یہ معاملہ قومی اسمبلی میں نہیں اُٹھایا۔ 1970ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی عوامی مسلم لیگ کے لیڈر شیخ مجیب اُلرحمن کو اقتدار منتقل نہیں کِیا گیا تو ، اُنہوں نے صدر جنرل یحییٰ خان اور قومی اسمبلی میں دوسرے بڑی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد ، جنابِ بھٹو سے ’’ بے وفائی ‘‘ کی ۔ وہ (Disloyal) ہوگئے لیکن شیخ مجیب اُلرحمن کو غدّار (Traitor) کہا گیا ۔ پاکستان دولخت ہُوا تو مشرقی پاکستان کا نام بنگلہ دیش ہوگیا۔ اور شیخ مجیب اُلرحمن بنگو بندھو ’’بابائے بنگلہ دیش‘‘ کہلائے۔
مغربی پاکستان کو ’’ نیا پاکستان‘‘ قرار دینے والے وزیراعظم بھٹو نے "O.I.C" کے سربراہوں کو گواہ بنا کر بنگلہ دیش کو تسلیم کرلِیا ۔ بھٹو صاحب کے بعد آنے والے حکمرانوں نے بھی تسلیم کئے رکھا ۔ کیا ہمارا کوئی صدر / وزیراعظم کسی بھی بین الاقوامی فورم پر شیخ مجیب اُلرحمن کو غدّار کہہ سکتا ہے ؟ ۔ البتہ کبھی کبھی بنگلہ دیش کی عدالتوں سے اپنے غدّاروں کو سزائیں دینے کی خبریں آتی ہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ وزیراعظم صاحب "Pemra" کے چیئرمین اُس کے دوسرے افسران اور مولانا فضل اُلرحمن اور دوسرے ارکانِ پارلیمنٹ کو ’’ غدّار‘‘ کہنے والے اینکر پرسنز کو کیا سزا دیں گے؟۔ دیں گے بھی یا دونوں فریقوں سے مُک مُکا کر لِیا جائے گا ؟ لیکن ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسلامیۂ جمہوریہ پاکستان میں مختلف مسالک کے عُلماء مسلمانوں کے خلاف جو کُفر کے فتوے جاری کرتے ہیں اُن کا محاسبہ کب ہوگا اور کون کرے گا؟۔ سپریم کورٹ، فیڈرل شریعت کورٹ، اسلامی نظریاتی کونسل نے کبھی اِس مسئلے پر غور کیوں نہیں کِیا؟ اور سب سے بڑی بات کہ مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ اور بانیٔ پاکستان قائداعظمؒ کے خلاف جِن کانگریسی مولویوں نے کُفر کے فتوے دئیے تھے اُن کا فیصلہ کون کرے گا؟۔ حضرت عیسیٰ ؑاور امام مہدیؓ تو نہ جانے کب تشریف لائیں گے؟۔
تحریکِ پاکستان کے دوران لاہور کے علاقہ پیسہ اخبار میں جمعیت عُلماء اسلام کے مولانا غلام غوث ہزاروی کی صدارت میں منعقدہ جلسئہ عام میں مولانا مفتی محمود سٹیج پر بیٹھے تھے جب ، مجلس احرار کے مولوی مظہر علی اظہر المعروف مولوی اِدھر علی اُدھر نے حضرت قائداعظمؒ کو ’’ کافرِ اعظم‘‘ قرار دِیا تھا ۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا مفتی محمود کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ’’ خُدا کا شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامل نہیں تھے ‘‘۔ پاکستان میں سیاست کرنے والے اور صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے پاکستان کی تاریخ میں نام پیدا کرنے والے مفتی محمود اور اُن کے مذہبی / سیاسی وارثوں نے قائداعظمؒ اور اُن کے عقیدت مندوں سے معافی کیوں نہیں مانگی؟۔ کب مانگیں گے؟ اور کون منگوائے گا؟
قیام پاکستان سے پہلے بھارت میں داراُلعلوم دیو بند کے بعض کانگریسی مولویوں نے کُفر سازی کی فیکٹریاں کھول رکھی تھیں، اب بھی ہیں۔ اگست 2005ء میں داراُلعلوم دیو بند کے مہتم مولوی مرغوب اُلحسن نے ممبئی کے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہُوئے اپنی اوقات سے بڑھ کر بات کی اور کہا ’’ محمد علی جناح ؒنماز نہیں پڑھتے تھے ۔ شراب پیتے تھے ۔ مَیں انہیں مسلمان نہیں سمجھتا‘‘۔ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے ’’نوائے وقت‘‘ میں اور مَیں نے اپنے روزنامہ ’’ سیاست‘‘ لاہور میں مولوی مرغوب اُلحسن کی خُوب ٹُھکائی کی اور اُس کے سہولت کاروں کی بھی لیکن مسلم لیگ کے ہر دھڑے نے خاموشی اختیار کئے رکھی۔ جو لوگ کانگریسی مولویوں کی باقیات سے اتحاد کرتے ہیں اُن کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ کوئی بتائے کہ قائداعظمؒ کے خلاف کُفر کا فتویٰ دینے والے کانگریسی مولویوں کی باقیات سے کیا سلوک کِیا جائے؟

(روزنامہ نوائے وقت)  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں