حافظ محمد عمران
یہاں آسٹریلیا آیا ہار گیا‘ بھارت آیا اسکا برا حال ہوا، ابھی دیکھو سری لنکا کو بھی برے طریقے سے شکست ہوئی، پاکستان کے لئے تو بہت مشکل ہو گا کہ وہ انگلینڈ کے خلاف اسکے میدانوں پر ایشیا جیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔ یہ جو مصباح الحق اسکا بھی اصل امتحان برطانیہ میں ہو گا ایشیا میں تو بہت رنز کر لئے۔ ولایت میں سکور کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ یہ یونس خان کیا کر رہا ہے اسکو تو لگتا ہے گیند ہی نظر نہیں آتا‘ اسکی کرکٹ ختم ہو چکی، اسکو ریٹائرمنٹ لے لینی چاہیے، ٹیم سلیکشن بھی ٹھیک نہیں ہوتی، بورڈ کے فیورٹ سکواڈ کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ اور اس سے ملتے جلتے طنزیہ جملے ہم قومی کرکٹ ٹیم کی انگلینڈ روانگی سے قبل اور سیریز کے دوران بھی سنتے رہے ہیں۔ پاکستان کے سینئر کھلاڑیوں اور ٹیم کے لیے اپنی ساکھ بچانے کا واحد راستہ انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں عمدہ کارکردگی تھا حیران کن نتائج دینے کے حوالے سے شہرت کی حامل پاکستان کرکٹ ٹیم نے برطانیہ کے خلاف چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز دو دو سے برابر کرکے ایک مرتبہ پھر خود غیر متوقع نتائج پیش کرنیوالی ٹیم ثابت کیا ہے۔ اوول کے میدان پر دس وکٹوں سے فتح اور یوم آزادی کے موقع پر یہ کامیابی حقیقی معنوں میں ایک بڑی فتح ہے۔ مصباح اینڈ کمپنی متعصب ناقدین کو بھی اپنے کھیل سے اچھا جواب دیا ہے۔ کامیابی کا کریڈٹ پوری ٹیم کو جاتا ہے۔ ہر کھلاڑی نے اپنی اپنی جگہ فتح میں حصہ ڈالا۔ سب سے اہم چیز قومی ٹیم کے ٹاپ پلئیرز کی بروقت عمدہ پرفارمنس ہے۔ یونس خان‘ اسد شفیق‘ اظہر علی، سرفراز احمد، وہاب ریاض نے ضرورت کے وقت عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔ لارڈز کے بعد غیر موثر رہنے والے یاسر شاہ بھی بروقت فارم میں آئے اور انگلش بلے بازوں کو گھومتی ہوئی گیندوں سے گھما کر رکھ دیا۔
اوول ٹیسٹ کے حقیقی ہیرو تو یونس خان ہیں جنہوں نے چھ اننگز میں ناکام رہنے کے بعد بھرپور انداز میں کم بیک کرتے ہوئے ڈبل سینچری سکور کی اور پہلی اننگز میں ہی اتنے رنز سکور بورڈ پر سجا دئیے کہ میزبان ٹیم رنز کے بوجھ تلے دبی رہی۔ یونس خان لارڈز‘ اولڈ ٹریفورڈ اور ایجبسٹن میں بڑی اننگز کھیلنے میں ناکامی پر تنقید کی زد میں تھے انکے بیٹنگ‘ آوٹ ہونے کے انداز اور بداعتمادی کے ساتھ انگلش باولرز کو کھیلنے میں ناکامی پر خاصی بحث ہو رہی تھی بعض ماہرین نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ سینئر بلے باز کی کرکٹ ختم ہو چکی ہے لیکن اوول کے میدان میں یونس خان نے شاندار انداز میں کم بیک کرتے ہوئے ڈبل سنچری سکور کرتے ہوئے ٹیم کی فتح میں ایک ترین کردار ادا کیا وہ مین آف دی میچ کے حقدار بھی قرار پائے۔ بڑے دباو میں انکی اننگز نوجوان کرکٹرز کے لیے ایک مثال ہے کہ شدید دباﺅاور مشکل حالات میں رنز کیسے کیے جاتے ہیں۔ اسد شفیق نے بھی عمدہ بیٹنگ کا مظاہرہ کیا۔ تیسرے ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں صفر پر آوٹ ہونے کے بعد ان پر خاصا دباﺅ تھا لیکن اس دباو میں انکی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں، قسمت نے بھی انکا بھرپور ساتھ دیا یوں وہ بھی اس کامیابی کے نمایاں کرداروں میں اپنا نام لکھوانے میں کامیاب ہوئے۔ افتخار احمد افتتاحی ٹیسٹ میچ کو یادگار بنانے میں ناکام رہے۔ سمیع اسلم اچھی تکنیک سے ماہرین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے انہیں پوری توجہ کھیل پر رکھتے ہوئے یکسوئی کے ساتھ اپنے کھیل میں نکھار لانے اور ٹیم کا مستقل حصہ رہنے کے لیے تسلسل سے رنز کرنا ہونگے۔ فاسٹ باولر سہیل خان نے کم بیک کو یادگار بنایا انہوں نے تیزی سے وکٹیں حاصل کر کے مخالف ٹیم کو جلد آوٹ کرنے میں بھر پور انداز میں اپنا کردار نبھایا انکی اچھی فارم اور ردھم نے میزبان ٹیم کے بیٹسمینوں کے لیے مشکلات پیدا کیں۔راحت علی نے بھی اچھی باولنگ کی۔وہاب ریاض کو بھی جو کردار دیا گیا تھا وہ اسے نبھانے میں کامیاب رہے ۔ محمد عامر وقت کے ساتھ اور بہتر ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کے نزدیک انہیں اپنی ان سوئنگ کو زیادہ بہتر کرنیکی ضرورت ہے۔
ہاں یاد آیا وزیراعظم صاحب سمیت حکمران طبقہ اور سیاستدان سب نے مبارکباد دی ہے ٹیم کے ہارنے کے بعد مذمت کرنے کی ضرورت تو یقینا نہیں ہوتی لیکن حوصلہ افزائی کا بیان ضرور آنا چاہیے کیونکہ فتح یا شکست دونوں صورتوں میں یہ پاکستان کی ٹیم ہے۔کیا اپنی ٹیم کو ہر دو صورتوں میں قبول کرنیکا رواج ٹاپ لیول سے نہیں آنا چاہیے؟؟؟
اب ون ڈے سیریز ہے وہ ایک نیا،کڑا اور مختلف امتحان ہے،ہمیں غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے تسلسل کے ساتھ اچھی اور مثبت کرکٹ کھیلنا ہو گی۔
(روزنامہ
نوائے وقت)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں