بدھ، 17 اگست، 2016

ہندو انتہا ء پسندی کے خمار میں ڈوبے مودی


نصرت جاوید

کرفیو زدہ گلیوں میں کسی نہ کسی طرح اپنے گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آنے والے کشمیری بچوں کو صرف اس جرم میں عمر بھر کے لئے نوکیلے چھروں والی گولیاں برسا کر اندھا کردیا جاتا ہے کہ وہ نعرے لگاکر اپنے لئے حقِ خود اختیاری مانگتے ہیں۔ نریندر مودی کو گزشتہ کئی ہفتوں سے سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کشمیر میں حساس دلوں کو ہلادینے والی اس Human Storyکے پھیلائو کو کس طرح روکے۔ کم سن بچوں اور بچیوں کو عمر بھر کے لئے اندھا بنانے کا جواز کیا پیش کرے۔
جواز پیش کرنا اسے مزید مشکل اس لئے بھی دِکھ رہا ہے کہ برہان وانی کے وحشیانہ قتل کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں ’’دہشت گردی‘‘ کی کوئی ایک واردات بھی نہیں ہوئی۔خود کش دھماکے نہیں ہوئے۔ بھارتی فوج اپنے کیمپوں میں محصور ہوئے بیٹھی ہے۔نیم فوجی دستے بکتر بند گاڑیوں میں اہم شہروں اور قصبوں کو ملانے والی سڑکوں کی حفاظت کے لئے نمائشی پٹرولنگ کے لئے بھی تیار نہیں۔
مودی کی BJPکے اشتراک کے ساتھ وزیر اعلیٰ بنی محبوبہ مفتی کو بے گناہوں کی تکالیف کا ازالہ تو دور کی بات ہے،ان کے پیاروں سے منافقانہ ہمدردی کا اظہار کرنے کی بھی جرأت نہیں ہوپارہی ہے۔ اس کے باپ کی بنائی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے صوبائی وزراء عوام سے گھبرا کر بھارتی فوج کے کیمپوں میں چھپے بیٹھے ہیں۔ دلی میں افواہیں گرم ہیں کہ شاید اپنی بے بسی کا رونا روتے ہوئے محبوبہ مفتی وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے ڈالے۔یہ استعفیٰ اپنی سرشت میں لیکن قطعی طورپر ایک سیاسی چال ہوگا۔ حال کے سوالات سے فرار اور اچھے وقتوں کا انتظار کرنے والا قدیمی ہتھکنڈہ۔
محبوبہ مفتی کا استعفیٰ مگر آجائے تو نئی حکومت بنانا مشکل ہوجائے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج لگانا پڑے گا۔ اس کے بعد نئے انتخابات کے بجائے صرف اور صرف فوجی اقدامات کے ذریعے کشمیر کو اسی طریقے سے ’’ٹھیک‘‘ کرنا ہوگا جو اسرائیل نے اپنے مقبوضہ عرب علاقوں کے سلسلے میں اپنایا۔ انتظار اس ضمن میں صرف اگست 2016ء کے ختم ہوجانے کا ہورہا ہے۔ستمبر سے سردیاں شروع ہوجائیں گی۔ ٹورازم کا ’’سیزن‘‘ ختم ہوجائے گا۔ امرناتھ یاترا بھی اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہوگی۔ مقبوضہ وادی کو ،برف گرنے کا موسم شروع ہوجانے سے اگرچہ کہیں پہلے پوری دُنیا سے کاٹ دیا گیا ہے۔ انٹرنیٹ اور براڈبینڈ وغیرہ، جو آج کی دنیا میں پسماندہ ترین علاقوں اور صحرائوں یا پہاڑوں کی بلندیوں پر موجود لوگوں کو اپنے عزیزوں اوردوستوں سے رابطے کی سہولت بہم پہنچاتے ہیں، نسبتاََ جدید اور تعلیم یافتہ کشمیری متوسط طبقے سے چھین لئے گئے ہیں۔ انہیں پتھر کے زمانے میں واپس دھکیل دیا گیا ہے۔ شاید اسی لئے جذبات سے مغلوب ہوئی نئی نسل گلیوں کے پتھر اٹھاکر قابض فوج کو آزادی کے نعروں کے ساتھ للکارتی ہے اور اس ’’گستاخی‘‘ پر نوکیلے چھروں سے بھری گولیوں کا نشانہ بنتی ہے۔
اس تناظر میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے عام پر چارک سے ترقی کرتا پہلے گجرات کا وزیر اعلیٰ اور اب بھارت کا وزیر اعظم بنا نریندر مودی جب ’’بلوچستان کے حقوق‘‘ کی بات کرتا ہے تو مجھ ایسوں کا خون کھول جاتا ہے۔ 770کلومیٹر تک پھیلے ساحل اور معدنی وسائل سے مالا مال بلوچستان کے ساتھ پاکستان کے مرکز میں بیٹھ کر ریموٹ کنٹرول کے خواہاں حکمران طبقات نے یقینا بہت زیادتیاں کی ہیں۔ زیادتی سے زیادہ ان کی عمومی بے اعتنائی مجھے کافی تکلیف پہنچاتی رہی۔ لاہور کی گلیوں میں پیدا ہوکر بالآخر اسلام آباد بسے مجھ ایسے کمزور اور بے وسیلہ صحافی نے اس رویے کے خلاف جب بھی موقعہ ملا صدائے احتجاج بلند کی۔ احتجاج کی اس عادت کی بنا پر ’’غداری‘‘ وغیرہ کے طعنے بھی سنے۔طاقت ور لوگوں کو ناراض کیا۔ نوکیلے چھروں سے بھری گولیوں کی بوچھاڑ سے کشمیر کے بچوں اور بچیوں کو عمر بھر کے لئے اندھا بنانے کے احکامات صادر کرنے والے نریندر مودی کو اس لئے میں یہ موقع فراہم کرنے کو ہرگز تیار نہیں کہ وہ بلوچوں کی ہمدردی میں مگرمچھ کے آنسو بہائے اور خود کو ان کا نجات دہندہ بناکر پیش کرنے کا سوانگ رچائے۔
پاکستان کے آئین کے تحت واضح طورپر عطاکردہ حقوق کے طلب گار بلوچوں کا نریندر مودی خیر خواہ ہو ہی نہیں سکتا۔اسے تو کشمیر سے توجہ ہٹانے کے بہانے درکار ہیں۔ یہ بہانے تلاش کرتے ہوئے وہ بلوچوں کو پاکستان کے دوسرے صوبوں میں مقیم لوگوں کی حمایت سے محروم کرنا چاہ رہا ہے۔ لال قلعہ پر اپنے ملک کی یومِ آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شاید وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں فی الوقت کامیاب بھی ہوگیا ہے۔
پاکستان کے آئین کے تحت واضح طورپر عطاکردہ حقوق کے طلب گار بلوچوں کو ان کے پاکستانی دوستوں سے محروم کرکے RSSکے پرچارک نے ان سے ہرگز کوئی ہمدردی نہیں کی ہے۔خود کو محض ’’آریہ ورت‘‘کے اشوکِ اعظم کا حقیقی جاں نشین ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ جانے اور سمجھے بغیر کہ زمانہ قدیم کا یہ دلاور بالآخر یہ تسلیم کرنے پر محبور ہوگیا تھا کہ جنتا کے دلوں کو تلوار کے زور پر مسخر نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں امن، سکون اور خوش حالی درکار ہوتی ہے۔ دلوں کو جیتنے کے امکانات اس دلاور کو بدھ مت کی تعلیمات میں نظر آئے۔ کٹر ہندو عقیدے میں ہرگز نہیں۔
نریندر مودی کی تقریر کے بعد مجھے اصل دُکھ بلوچوں کے بارے میں ہورہا ہے۔ آج کی دُنیا میں عراق اور شام پر انتشار مسلط کرکے انہیں خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے والی قوتوں نے کردوں کے ساتھ بھی مودی ہی جیسا سلوک کیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی کی وراثت پر نازاں کرد، ایران،عراق ،ترکی اور شام کی جغرافیائی حدوں میں منقسم ہیں۔ ان ممالک میں سے ترکی کو چھوڑ کر باقی کی ’’حدود‘‘ برطانوی اور فرانسیسی سامراج نے اپنے تئیں طے کردی تھیں۔خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اس خلافت کے 600سال تک زیر نگین علاقوں کو اپنی اپنی Domainsمیں تقسیم کرکے بالآخر ان کو انہوں نے رضا شاہ پہلوی جیسے بادشاہوں اور صدام حسین جیسے فوجی آمروں کی معاونت سے قابو میں رکھنے کی کوشش کی۔ رضا شاہ کو مگر امام خمینی کا اسلامی انقلاب ٹکر گیا اور فوجی آمروں کو نام نہاد عرب بہار۔ اس ’’بہار‘‘ نے مگر مکمل نفاق اور انتشار کے بیج بوئے ہیں۔
اس نفاق اور انتشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کردوں کو امید دلائی گئی کہ اگر وہ نئی سامراجی چالوں کے سہولت کار بن جائیں تو بالآخر ایک ’’آزاد اور عظیم‘‘ کرد ریاست کا قیام عمل میں آجائے گا۔عراق اور شام میں بٹے کردوں کی اکثریت اس جھانسے میں آگئی۔ اب توجہ ترکی کے جنوب مشرق میں مقیم کردوں کی طرف منتقل ہورہی ہے۔ رجب اردوان اسی وجہ سے گھبرا کر روس کا دورہ کرنے پر مجبور ہوا اور اسی پیوٹن سے مدد کا طلب گار جس کی فضائی فوج ان دنوں اردوان کے اصل’’شریک‘‘ بشارت الاسد کی حکومت بچائے ہوئے ہے۔اردوان اور پیوٹن کے درمیان ’’سُٹ پنجہ‘‘ہوگیا تو کرد بے چاروں کے ہاتھ ایک بار پھر کچھ نہیں آئے گا۔
اسی لئے تو میں وہ تفصیلی خبر پڑھ کر ہرگز حیران نہیں ہوا جس نے انکشاف کیا ہے کہ ابلاغ کے جدید ترین وسائل اور ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے’’داعش‘‘ اب کردوں سے مخاطب ہورہی ہے۔ ’’داعش‘‘ نے حال ہی میں ہونے والے سانحہ کوئٹہ کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔ اس تنظیم نے مبینہ خودکش کا نام اور تصویر بھی جاری کردی ہے۔
ہندوانتہاء پسندی کے خمار میں ڈوبے مودی کو اندازہ ہی نہیں کہ اس کے دل میں بلوچوں کیلئے جاگی ’’محبت‘‘ وہاں بالآخر ’’داعش‘‘ کو ہی مضبوط تر کرے گی۔ داعش نے بلوچستان میں محفوظ ٹھکانے اور پناگاہیں بنالیں تو اصل نشانہ اس کا ایران اور افغانستان ہوں گے۔’’ولایتِ خراسان‘‘ قائم ہوگئی تو اس کا حتمی پڑائو دہلی کے لال قلعہ میں ہونا ہے جہاں سے مودی نے پیر کے دن ایک احمقانہ بھاشن جھاڑا ہے۔ ’’آبیل مجھے مار‘‘ کی اس سے بہتر مثال ان دنوں کے عالمی تناظر میں ڈھونا کافی مشکل ہے۔ بلوچ مگر اس گھنائونے کھیل میں کردوں کی طرح قربانی کے بکرے کیوں بنیں؟!
(روزنامہ نوائے وقت)  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں