ہفتہ، 13 اگست، 2016

سخاوت اوررحمت


رضا الدین صدیقی

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:میں حضور اکرم ﷺکی معیت میں مدینہ منورہ کی پتھریلی زمین پر محو سفر تھا کہ جبلِ احدہمارے سامنے آگیا آپ نے مجھے مخاطب فرمایا:اے ابوذر !میںنے عرض کی ، لبیک یارسول اللہ !ارشادہوا، مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اورتین دن گزرجانے کے بعد میرے پاس اس میں سے ایک دینار بھی باقی ہو،(ہاں)سوائے اس چیز کے جس کو میںاپنے قرض کی ادائیگی کیلئے روک لوں، الا یہ کہ میں اس کو اللہ رب العزت کے بندوں میں اتنا، اتنا ، اتنا کہہ کر خرچ کردوں (یعنی اتنافلاں کو ، اتنا فلاں کو دے دو) اورآپ نے اپنے دائیں بائیں اورپشت کی جانب اشارہ فرمایا، پھر محوخرام ہوگئے ، اور ارشادفرمایا :زیادہ مال ودولت والے قیامت کے دن کم دولت والے ہونگے ، الا وہ جو اپنے مال سے اتنا ، اتنا ، اتناکہے اورآپ نے اپنے دائیں بائیں اور پیچھے کی جانب اشارہ فرمایا اورایسے لوگ بہت کم ہیں ، پھر مجھ سے ارشادفرمایا:تم یہیں تؤقف کروجب تک میں تمہارے پاس نہ آجا ئوں یہاں سے جنبش نہ کرنا یہ کہہ کر آپ رات کی تاریکی میںنظروں سے اوجھل ہوگئے (کچھ دیر بعد)میںنے ایک بلند آواز سنی ،مجھے یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں کسی نے آپ سے تعرض نہ کیا ہو، میں نے آپکے پاس جانے کا ارادہ کیا مگر مجھے آپ کا فرمان یاد آگیا کہ میرے واپس آنے تک یہاں سے نہ ہلنا ، سو میں وہیں ٹھہر گیا ، حتیٰ کہ جناب رسالت مآب ﷺ میرے پاس واپس تشریف لے آئے، میںنے عرض کی ،یا رسول اللہ !(صلی اللہ علیک وسلم )میںنے ایک آواز سنی تھی،جس کی وجہ سے میں (آپکی جانب سے ) اندیشہ میں مبتلا ہوگیا تھا (مگر تعمیل ارشادمیں اپنی جگہ سے جنبش نہیںکی)میں نے جب آپ سے اس آواز کا تذکرہ کیا تو آپ نے استفسار فرمایا :کیا تو نے وہ آواز سنی ہے؟ میںنے عرض کی یارسول اللہ میںنے وہ آواز سنی ہے ۔آپ نے فرمایا :وہ (حضرت )جبرائیل (علیہ السلام )تھے، وہ میرے پاس آئے اورکہا، یارسول اللہ ، آپکی امت میں کوئی شخص وفات پاگیا اور (اس عالم میں کہ )وہ کسی کو اللہ تبارک وتعالیٰ کا شریک نہیں ٹھہراتا تھا تو وہ (بالآخر)جنت میں داخل ہو گیا۔ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میںنے (حیرت سے) عرض کی اگرچہ وہ (خدانخواستہ) بدکاری کا ارتکاب کرے یا چوری کربیٹھے ۔ فرمایا :اگر چہ وہ بدکاری کا مرتکب ہویا چوری کر بیٹھے۔(بخاری، مسلم) بعض احادیث میں کسی امر کے بارے میں اجمالاً بیان ہوتا ہے اوربعض میں تفصیلاً۔جن احادیث مبارکہ میں غایت رحمت کا بیان ہو اُنکو پڑھ کر عمل سے کنارہ کش ہونا اور انجام سے بے خوف ہونا مناسب نہیں اورجن احادیث میں گرفت اورسزاکا ذکر ہو اُنکی وجہ سے اللہ رب العزت کی رحمت سے مایوس ہونا مومن کا شیوئہ نہیں ، ایمان امید اورخوف کے درمیان ہے۔
(روزنامہ نوائے وقت)  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں