محمد ایوب صابر
بھیڑ اور بھیڑیا جانوروں کے ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بھیڑ انتہائی شریف النفس اور بھیڑیا انتہائی شریر النفس ہوتا ہے۔ بھیڑ سے ہم دودھ، گوشت اور کھال حاصل کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کی اون سے تیار کردہ کپڑاسردیوں میں کپکپاہٹ دور کرنے میں مدد کرتا ہے جبکہ بھیڑئیے کے خوف سے انسان گرمیوں میں بھی کانپنے لگتے ہیں۔ جس طرح چینی باشندے اکثر ہم شکل ہوتے ہیں اسی طرح ہر بھیڑ کی شکل دوسری بھیڑ سے قدرے مشترک ہوتی ہے۔ بھیڑ کا دودھ گوالے کو بہت پسند ہوتا کیونکہ گاڑھا ہونے کی وجہ سے اس کے اندر زیادہ مقدار میں پانی ’’جذب‘‘ کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ آج کل ہم لوگ بھیڑ چال ہو گئے ہیں، جہاں ذرا سا ہنگامہ دیکھا جوق در جوق منہ اٹھائے اس میں شامل ہو گئے اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ بھیڑوں کے گِلے کی طرح جمع اس جمِ غفیرسے اگر پوچھو کہ تم لوگ کس مقصد کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے تو سب ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنا شروع کر دیں گے گویا ہم لوگ بھی بھیڑچال چلنے لگے ہیں اور بلا مقصد کسی طرف بھی منہ اٹھا کر چلے جاتے ہیں۔
بھیڑ میں بظاہر کوئی برائی نظر نہیں آتی بشرطیکہ وہ سفید رنگ کی ہو۔ ہاں البتہ کالی بھیڑوں سے خود کو دور رکھنا خاصا مشکل کام ہے۔ آج کل ہمارے معاشرے میں کالی بھیڑوں کی تعداد اِس قدر زیادہ ہو چکی ہے کہ سفید بھیڑ تلاش کرنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ اب ٹیکس چوروں کو ہی لیجئے، اِن سے بڑی کالی بھیڑیں اور کون ہو سکتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اربوں روپے عیاشی میں لٹانے والے حضرات سے جب ٹیکس کے بابت دریافت کیا جائے تو ادا کردہ سالانہ انکم ٹیکس کی رقم ان کے گھر میں ملازم خانساماں کی ماہانہ تنخواہ سے بھی کم ہوتی ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کی نظر میں ملکی معیشت کا استحکام اور قدر و قیمت ایک خانساماں سے بھی سو گنا کم ہے۔
ہم اپنے وطنِ عزیز کو کب تک ان کالی بھڑوں کے رحم و کرم پر چھوڑیں کے جن کے دل میں ذرا سا بھی احساسِ ندامت نہیں ہے۔ یاد آیا جرمن ٹینس اسٹار اسٹیفی گراف کے والد کو صرف ٹیکس کی مد میں تھوڑی سی ہیرا پھیری کرنے کی وجہ سے جیل کی ہوا کھانا پڑی تھی جبکہ ہمارے ٹیکس نا دہندگان سے بھی بڑی کالی بھیڑیں محکمہ انکم ٹیکس میں موجود ہیں۔ جس طرح واپڈا کا میٹر ریڈر ’’چائے پانی‘‘ لے کر گھر یا فیکٹری کا میٹر بند رکھنے کا طریقہ خود بتاتا ہے اسی طرح ٹیکس ریٹرن میں ہیرا پھیری کے سارے گُر خود انکم ٹیکس انسپکٹر بتاتا ہے جو اس نے برسوں کی ریاضت سے سیکھے ہیں۔ اِن کے ہاتھوں کا کمال دیکھ کر تو نٹور لال بھی کانوں کو ہاتھ لگا لے۔ بھیڑ اور کرکٹ میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ آپ نہیں سمجھے !کوئی بات نہیں میں وضاحت کر دیتا ہوں۔ پاکستا ن کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور غیرسرکاری مذہب کرکٹ ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بھیڑیں آسٹریلیا میں پیدا ہوتی ہیں اور دنیا کی مضبوط ترین کرکٹ ٹیم بھی آسٹریلیا کو تصّور کیا جاتا ہے۔ چند برس پہلے دہشت گردوں نے لاہور میں سری لنکا کے کرکٹ کھلاڑیوں کی سری اڑانے کے لئے بہت نشانے لگائے تھے لیکن خوش قسمتی ہے تمام کھلاڑی اپنی سری بچا کر سری لنکا پہنچ گئے۔
اس سانحے کے بعد تمام بین الاقوامی کرکٹ ٹیموں نے پاکستا ن آ کر کرکٹ کھیلنے سے انکار کر دیا۔ بالآخرآسٹریلیا نے عندیہ دیا ہے کہ وہ پاکستان آ کر کرکٹ کھیلنے کے لیے تیار ہیں۔ اس غرض سے انہوں نے ایک حکمتِ عملی طے کی ہے۔ سب سے پہلے اپنی بیمار بھیڑوں کو پاکستان روانہ کریں گے۔ تمام پاکستانی بشمول کرکٹ کھلاڑی ان بیمار بھیڑوں کا گوشت کھائیں اور اگر اس گوشت کو کھانے کے بعد وہ کھیلنے کے قابل رہیں تو آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم پاکستان آنے کا فیصلہ کرے گی۔
اس معاہدے کے تحت آسٹریلوی بیمار بھڑیں پاکستان کی بندر گاہ پورٹ قاسم پر اتار دی گئی ہیں۔ اس ساری ’’حکمتِ عملی ‘‘ کا پردہ ایک ٹی وی چینل نے چاک کر دیا ہے۔ اب آسٹریلیا سے درآمد شدہ بھیڑوں کا دن رات معائنہ کیا جا رہا ہے۔ وہ بھیڑیں بیماری سے زیادہ دن رات کے ڈاکٹری معائنے اور اور خون کے نمونے لینے سے لاغر ہو کر مر رہی ہیں۔ آسٹریلوی حکام کا کہنا ہے کہ یہ بھیڑیں پاکستان پہنچنے سے پہلے فٹ بال کھیلنے بحرین بھی گئی تھیں۔ بحرینی عوام میں کالی بھیڑیں تلاش کرنا مشکل مرحلہ ثابت ہوا۔ آسڑیلوی حکام نے پاکستان کی کالی بھیڑوں سے رابطہ کر کے انہیں اپنی سفیدبھیڑوں کے استقبال کے لئے تیار کر لیا تھا۔ آسٹریلوی بھیڑوں کو تندرستی کی جعلی ڈگری جاری کر دی جائے گی لیکن ان کا منصوبہ بھی ’’بھیڑ کی لات ٹخنوں تک ‘‘ثابت ہوا ہے۔ آج کل ہر کوئی اِن آسٹریلوی بیمار بھیڑوں کی فکر میں لاغر نظر آ رہا ہے۔
پاکستانی حکومت نے ان بیمار سفید بھیڑوں کی تلف کرنے کا کچا پکا ارادہ کر لیا ہے۔ آسٹریلوی حکام نے پاکستانی حکومت کو باور کرایا ہے کہ اِن بھیڑوں کو تلف کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ کچھ دنوں بعد بھولے عوام سارے قصّے کو بھول جائیں گے۔ آسٹریلیا کا استدلال ہے کہ پاکستان میں پہلے کون سا تندرست جانوروں کا گوشت فروخت ہوتا ہے۔ آسڑیلوی سفید بھیڑیں بلا ناغہ معائنے سے اس قدر تنگ آ چکی ہیں کہ خود کشی پر آمادہ نظر آ رہی ہیں۔ اِ ن بھیڑوں میں کچھ سرکردہ بھیڑوں نے طنزیہ انداز میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کر دیا ہے کہ ہماری فکر چھوڑیں کیونکہ ہم سے زیادہ خطرناک اور زہریلی تو وہ کالی بھیڑیں ہیں جو سارے معاشرے کا حق کھا رہی ہیں۔ پہلے اُن کی ٹھکانے لگانے کی فکر ہونی چاہئے جن کی وجہ سے آپ کا شمار دنیا کے پہلے 10کرپٹ ترین ممالک میں ہو چکا ہے۔ یہی وہ کالی بھیڑیں ہیں جو آپ کے منہ پر بدنامی کی کالک مَل رہی ہیں۔ اب آسٹریلیا نے آخری وارننگ دی ہے کہ اگر آپ نے ہماری سفید بھیڑوں کو تلف کیا تو ہم پاکستان سے کرکٹ روابط بحال نہیں کریں گے۔ آسٹریلیا کا کیا ہے اُن کی بھیڑ جہاں جائے گی وہیں منڈے گی۔ اس کے برعکس ہمارے لئے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اگر کرکٹ کی بحالی چاہتے ہیں تو بیمار آسڑیلوی بھیڑوں کا گوشت کھانا پڑے گا۔ میرے خیال میں کرکٹ کو بھول کر قومی صحت کی فکر کریں جو کسی کھیل سے زیادہ اہم ہے کیونکہ آسٹریلوی بھیڑوں کو قبول کرنا قومی صحت کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔ اس کے ساتھ عہد کریں کہ آئندہ انتخابات کے موقع پر تمام کالی بھیڑوں کو ووٹ کے ذریعے تلف کریں گے تاکہ ایک صحت مند اور روشن پاکستان کی تکمیل کا خواب شرمندہ ء تعبیر ہو جائے، وہ خواب جو ہمارے بزرگوں نے جاگتی آنکھوں دیکھا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں