امریکی محکمہ دفاع نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف ٹھوس کارروائی نہ کرنے کے الزام میں پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد کے 30 کروڑ ڈالر روک لئے ہیں۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے وہ سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے جس سے یہ رقم پاکستان کو مل سکتی تھی۔
کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت 2002 سے ہی امریکہ دہشتگردی کیخلاف کارروائی میں پاکستان کی فوجی مدد کرتا رہا ہے۔ یہ ایک طرح سے وہ رقم ہوتی ہے جو پاکستان دہشتگردی کیخلاف کارروائیوں میں خرچ کر چکا ہوتا ہے۔ 2015ء میں بجٹ کے تحت پاکستان کیلئے ایک ارب ڈالر کی رقم طے ہوئی تھی لیکن کانگریس نے اسے جاری کرنے سے پہلے ایک شرط رکھی کہ اس میں سے 30 کروڑ ڈالر تبھی جاری کیے جائیں جب وزیر دفاع حقانی نیٹ ورک کیخلاف پاکستان کی کارروائی سے مطمئن ہوں اور اس کا سرٹیفکیٹ دیں۔ بھارتی لابی کے زیراثر ایشٹن کارٹر نے چند ماہ قبل بھارت کے دورے کے دوران پاکستان سے تعصب کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب امریکہ پاکستان اور بھارت کو یکساں ڈیل نہیں کریگا، بھارت کے ساتھ تعلقات اور رابطوں میں زیادہ اضافہ کیا جائیگا اس بیان کو سامنے رکھا جائے تو ایشٹن کارٹر کی طرف سے پاکستان کیلئے سرٹیفکیٹ جاری نہ کرنے کی وجہ سامنے آ جاتی ہے۔ پاکستان امریکہ سے خیرات کا طلبگار نہیں وہ طے شدہ معاہدے کیمطابق اپنا حق جتاتا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کیمطابق پاکستان نے شمالی وزیرستان میں کئی شدت پسند گروہوں کیخلاف کارروائی کی ہے لیکن حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان پاکستان کے کئی علاقوں میں اب بھی سرگرم ہیں۔ یہ محض پاکستان کو بھارت کے ایما پر زچ کرنے کا ایک بہانہ ہے۔ اس سے پہلے امریکہ نے ایف 16 لڑاکا طیاروں کی خریداری میں پاکستان کو دی جانیوالی اقتصادی امداد پر پابندی لگا دی تھی۔ پاکستان نے کئی بار باور کرایا کہ وہ تمام دہشتگرد گروپوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کر رہا ہے، ضرب عضب میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو تہس نہس کیا گیا ہے۔ ایسے میںحقانی یا کسی بھی طالبان نیٹ ورک کی حمایت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امریکہ کے پاکستان کی امداد روکنے کے اقدام سے دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی بڑھے گی جس سے دہشتگردی کیخلاف جاری جنگ متاثر ہو سکتی ہے۔ اس کا امریکہ اور پاکستان کو یکساں نقصان ہو گا۔
روزنامہ نائے وقت
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں