اتوار، 21 اگست، 2016

درد کی تصویریں!!


سعدیہ قریشی
کہتے ہیں تصویریں بولتی ہیں۔ مگر یہ تصویریں تو ماتم کرتی ہیں۔ نوحہ پڑھتی ہیں۔ خاموشی میں لپٹی درد ناک آہ و فغاں کرتی ہیں۔ یہ کیسی تصویریں ہیں جو دل میں نیزے کی طرح اتر گئیں۔ ایک گہرا درد دل نے محسوس کیا اور آنکھیں جھیل ہونے لگیں۔ کچھ دیر ہی سہی مگر دل نے اس درد کو بے طرح محسوس کیا۔ کچھ دیر ہی سہی مگر دل ان لہو رستی تصویروں کے ساتھ چھلنی ہوتا رہا۔ ان میں پہلی تصویر شام کے اس بچے کی ہے جو پچھلے 48 گھنٹوں میں اخبارات‘ چینلز اور سوشل میڈیا پر بار بار دیکھی گئی۔ مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پانچ سالہ اومران کے ساتھ جو قیامت گزری‘ اس جنگ کی جو وحشت اس نے سہی اس کے اثرات سے وہ کب باہر نکلے گا۔
جنگ زدہ شام کے اس پانچ سالہ بچے کی تصویر آپ نے بھی تو دیکھی ہو گی۔ اس کے معصوم چہرے پر لکھی جنگ کی وحشت اور آنکھوں میں اتری حیرانی کو کون لفظوں میں بیان کر سکتا ہے۔ مگر کیمرے کی آنکھ نے وہ سارا منظر لمحہ بہ لمحہ محفوظ کر لیا!
ایلپو (Aleppo)‘ شام کا وہ شہر جو باغیوں کے قبضے میں ہے اور شامی فوجیوں کی بربریت کا روز نشانہ بنتا ہے۔ یہ ننھا بچہ بھی اسی شہر کے ایک گھر میں رات کے آخری پہر یقیناً نیند کی آغوش میں ہو گا۔ ماں کے ساتھ لپٹا سو رہا ہو گا کہ بیرل بم کے ہولناک حملے میں اس کا گھر بھی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ یہاں سے ساری دنیا نے یہ منظر لمحہ بہ لمحہ دیکھا کہ کیسے ریسکیو ورکرز ملبے کے ڈھیر سے معجزانہ طور پر زندہ بچ جانے والے بچے کو نکال کر ایمبولینس کی سیٹ پر بٹھا دیتے ہیں۔ کیمرے کا لینز اس بچے کے چہرے کو فوکس کرتا ہے۔ لہو اور گرد میں اٹے ہوئے اس کے خدوخال واضح نہیں ہوتے کہ اس کا پیارا اور معصوم چہرہ بری طرح خون سے لتھڑا ہوا ہے۔ سہما ہوا۔ حواس باختہ۔ 5 سالہ بچہ۔ اپنا ننھا ہاتھ چہرے پر پھیرتا ہے اور پھر انگلیوں پر لگے خون کے دھبے صاف کرنے کے لیے ایمبولینس کی سیٹ سے رگڑتا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ یہ ننھا بچہ خاموش کیوں ہے؟ اس کے چہرے پر ایک گہری چپ اور حیرانی ہے۔ ایک وحشت ہے۔ بچے تو ذرا سی چوٹ پر رو رو کے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں‘ تاوقتیکہ انہیں بہلانے کے لیے ان کی پسند کی چاکلیٹ ٹافی یا کھلونا تھما دیا جائے۔ مگر یہ کیسا بچہ ہے؟ درد سے چلایا تو کیا ایک سسکی تک نہ بھری۔ نہ امّی امّی پکارا‘ نہ بابا کو بُلایا۔ جنگ کی ہولناکی اور وحشت نے اس ننھے بچے کو پتھرا دیا۔
یہ بچہ منیر نیازی کے اس شعر کی تصویر جیسا لگا ؎
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیرؔ
غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں
جنگ زدہ علاقوں کے بچے وحشت سے پتھرائے ہوتے ہیں۔ ایک اور تصویر یاد آتی ہے جس نے سوشل میڈیا سے لے کر اہل درد کے دلوں تک ایک ارتعاش پیدا کر دیا تھا۔ وہ بھی جنگ زدہ شام کا 3 سالہ بچہ تھا۔ ایلان کُردی‘ جو اپنے خاندان کے ساتھ پناہ کی تلاش میں یورپ جاتے ہوئے ترکی کے ساحل پر فالتو سامان کی طرح ہاتھ سے گر گیا‘ اور پھر ننھی جان لہروں سے لڑتی ہوئی ساحل پر ہی اوندھے منہ پڑی رہی۔ سرخ ٹی شرٹ اور نیلی نیکر میں ملبوس ایلان کُردی لہروں سے ہار چکا تھا۔ کسی کیمرے نے اس دردناک منظر کو محفوظ کر لیا۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے کوئی گُڈا سا کسی بچے کے ہاتھ سے کھیلتے کھیلتے گر گیا ہے۔ مگر وہ تو ایک جیتا جاگتا ہنستا کھیلتا پچہ تھا‘ جو باپ کے مضبوط ہاتھوں سے چھوٹ کر گر گیا تھا۔ جنگ کی افراتفری میں بچے ایسے ہی بے قیمت ہو جاتے ہیں۔ بعد کی خبروں سے پتا چلا کہ ایلان کُردی کا پانچ سالہ بھائی غالب اور ماں ریحانہ بھی پناہ گزینوں کی کشتی سے گر کر ڈوب گئے تھے۔ 
اب ایک تیسری تصویر ہے بلکہ ایک تصویر نہیں‘ اَن گنت تصویریں ہیں‘ مگر منظر ایک ہی۔ بربریت کی داستان ایک ہی ہے۔ کرب کی کہانی ایک ہی ہے۔ سری نگر کے سرکاری ہسپتال میں قطاروں میں پڑے ہوئے کشمیری نوجوان اور بچے لہو سے بھری آنکھیں‘ اور تکلیف کی شدت سے زرد پڑتے چہرے!! کشمیر میں بھارتی افواج کا ظلم اور بربریت اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ آج کی ہی خبر ہے کہ چوالیس روز میں بھارتی درندے بے گناہ کشمیریوں پر 13 لاکھ چھرے فائر کر چکے ہیں۔ 8 ہزار کشمیری زخمی ہیں‘ سینکڑوں وہ ہیں جن کی آنکھوں کو خواب دیکھنے کی پاداش میں لہو لہو کر دیا گیا۔ 14سالہ کشمیری لڑکی انشاء کی تصویر دیکھی نہیں جاتی۔ یہ تو ویسے ہی خواب دیکھنے کی عمر ہے مگر مقبوضہ کشمیر کا تو ہر بچہ آزادی کا خواب اور خواہشیں لے کر پیدا ہوتا ہے۔ انشاء کی خوب صورت نیلی آنکھوں میں چھرے فائر کر دیے گئے اور اب وہ اپنی بینائی سے محروم ہو چکی ہے۔ سینکڑوں اور کشمیری نوجوان اور بچے اپنی ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں‘ مگر آزادی کے خواب سے محروم نہیں ہوئے!!
کہتے ہیں کہ Every war is the war against children سو اس وقت بھی دنیا بھر میں ہر جنگ زدہ‘ شورش زدہ اور بدامنی کا شکار علاقوں میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے بچے ہی ہیں۔ فلسطینی سرزمین پر جب بھی اسرائیل کا قہر ٹوٹتا ہے‘ ننھے معصوم بچوں کی جانیں لیتا ہے۔ اخبارات اور سوشل میڈیا پر معصوم بچوں کی لاشوں کی تصویریں‘ کراہتے ہوئے زخمی بچوں کی تصویریں‘ وائرل تو ہو جاتی ہے‘ مگر اس سے فرق کچھ نہیں پڑتا‘ وہ طاقتیں جو عالمی امن کی ذمّہ دار اور نگہبان ہیں‘ ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ہم جیسے بے بس لکھاری بس اس درد کو لفظوں میں ڈھالتے رہتے ہیں۔ اپنی بے بسی کا نوحہ پڑھتے رہتے ہیں اور آج بھی کالم کہاں لکھا گیا‘ یہ تو بس نوحہ ہے چند کُرلاتے ہوئے لفظ ہیں!!
(روزنامہ دنیا)   

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں