جمعرات، 18 اگست، 2016

نواز شریف کا دربار


نصرت جاوید

وزیر اعظم پاکستان کے ”منتخب“ نواز شریف یقینا تیسری بار جمہوری عمل کے ذریعے ہی ہوئے ہیں۔ اندازِ حکومت مگر ان کا شاہانہ ہے۔ وزیر اعظم کا ”دفتر“ نہیں ایک دربار ہے اور درباروں میں فیصلہ سازی نہیں سازشیں ہوا کرتی ہیں۔ وہاں بیٹھے مشیر خود کے سپرد ہوئے معاملات پر گہرے غوروخوض کے بعد اپنی تجاویز مرتب کرنے کے بجائے ،دوسرے مشیروں پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں۔ خطرہ انہیں ہر وقت یہ لاحق رہتا ہے کہ کہیں ان کا ”رقیب“ چاپلوسی میں بازی نہ لے جائے۔ اسی لئے حکومتی فیصلوں کے نام پر جو کچھ ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس پر اکثر رونے یا ہنسنے کے بارے میں ہم فیصلہ ہی نہیں کرپاتے ۔
یہاں تک لکھنے کے بعد کھلے دل سے اعتراف مجھے یہ بھی کرنا ہے کہ اپنے دفتر کو دربار کی طرح چلانے میں نواز شریف یکتا نہیں ہیں۔ اپنی ضرورت سے زیادہ متجسس طبیعت کی بنا پر 1985ءسے درباری معاملات کے بارے میں خبریں تلاش کرتے ہوئے میں نے اس سال سے اب تک ہر صدر یا وزیر اعظم کو خواہ وہ فوجی تھا یا سیاسی”بادشاہی“کرتے ہی دیکھا ہے۔ برسوں تک پھیلے اس تجربے نے مجھے اقبال کی اس تڑپ کو پہچاننے میں آسانی بخشی جو وہ تاعمر اس دھرتی کے باسیوں میں جبلی طورپر موجود”خوئے غلامی“ کے بارے میں محسوس کرتے رہے۔
کبھی کبھاربہت شدت سے یہ خواہش میرے دل ودماغ پر طاری ہوجاتی ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر اپنے گھر کے ایک کونے میں بیٹھ کر چاپلوسی کے وہ تمام واقعات لکھ ڈالوں جن کا میں عینی شاہد ہوں۔ واقعات بیان کرتے ہوئے مجھے اور آپ کو بہت طرم خان نظر آنے والوں کے نام لے کر بتاﺅں کہ کونسے حکمران کے روبرو کس موقعہ پر ایسے لوگوں نے کیسے خوشامدانہ کلمات ادا کئے تھے۔
میرے بیان کردہ واقعات پڑھ کر قاری پہلی بار تو قہقہے لگانا شروع ہوجائیں گے۔ تھوڑی دیر بعد مگر ان میں سے حساس دلوں کے مالک اپنا سر فکر میں مبتلا ہوکر ہاتھوں کی پناہ میں لینے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ”درباروں کے لطیفے“ جیسی کتاب کو لکھنے سے مگر خوف آتا ہے۔ میں اسے لکھنے کے چند برس بعد اچانک یا طویل علالت کے بعد اپنے انجام کو پہنچ جاﺅں گا۔ میرے بچوں کو مگر وہ سختیاں بغیر کوئی گناہ کئے بھگتنا ہوں گی جو صرف سچ لکھنے کے جنون میں ان کا باپ ”ورثے“ میں چھوڑے گا۔رزقِ حلال کی لگن نے مجھے اپنی بیوی اور بچوں کو مناسب راحت پہنچانے کے قابل نہیں بنایا۔ میرے اس دُنیا سے چلے جانے کے بعدبھی وہ میری ”حق گوئی“ کی قیمت کیوں ادا کرتے رہیں؟
”درباروں کے لطیفے“ جیسی کتاب لکھنے کا ارادہ ایک بار پھر ترک کرتے ہوئے ایک واقعہ بیان کرنا اب بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ 2013ءکے انتخابات ہونے والے تھے۔ ان انتخابات میں حصہ لینے کے لئے کئی افراد مسلم لیگ نون کا ٹکٹ لینے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔ وحشیانہ ہوس کے اس موسم میں پوٹھوہار کی دھرتی کے ایک فرزند کے دل میں بھی ”سیاسی“ ہونے کی خواہش جاگ اُٹھی۔ پوٹھوہار کی سنگلاخ دھرتی سے اُٹھے اس فرزند نے انگریزوں کی دریافت شدہ ”مارشل ریس“ سے تعلق کی بنا پر ساری عمر فوج میں نوکری کی تھی۔ اس ادارے میں چیف آف سٹاف سے کمتر مگر اعلیٰ عہدوں میں سے ایک سمجھے جانے والے مقام تک پہنچ کر وہ ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ مناسب تھا ریٹائرمنٹ کے بعد گولف کھیلتے،فلمیں دیکھتے،کتابیں پڑھتے،باغبانی پر توجہ دیتے۔ یہ سب نہیں کرسکتے تھے تو اپنے گھر کے ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرتے۔
اس ملک کی ”مزیدخدمت“ کے لئے مگر انہوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کرلیا اور اپنی سیاست کا آغاز انہوں نے پوٹھوہار کے ایک مشہور شہر سے پاکستان مسلم لیگ نون کے ٹکٹ سے قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے ذریعے کرنے کی ٹھان لی۔مشکل ان کی مگر یہ تھی کہ نون کا ٹکٹ مانگنے سے قبل ان کا اس جماعت سے کسی بھی نوعیت کا کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔پوٹھوہار کی جس نشست سے وہ اپنے لئے قومی اسمبلی کا ٹکٹ حاصل کرنا چاہ رہے تھے وہ مسلم لیگ کے پاس 1985ءسے تقریباََ مستقل رہی تھی۔وہاں نواز شریف کے مقامی طورپر تگڑے اور دھڑے دارایک نہیں بلکہ کئی ”وفادار“ موجود تھے۔ موصوف نے اس جماعت کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے درخواست مگر دے ہی ڈالی اور کسی نہ کسی طرح پارلیمانی بورڈ کے سامنے پیش ہوکر یہ ”ثابت“ کرنے کا موقعہ بھی حاصل کرلیا کہ سیاست میں نووارد ہوتے ہوئے بھی وہ کیونکر نواز شریف کا ”اثاثہ“ ثابت ہوسکتے ہیں۔
پارلیمانی بورڈ کے سامنے جب انہیں پیش ہونے کے لئے پکارا گیا تو اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہی انہوں نے فلسفیانہ خاموشی اختیار کرلی۔ ان کی طویل خاموشی سے اُکتا کر نواز شریف کوبالآخر یہ درخواست کرنا پڑی کہ وہ یہ بتائیں کہ فلاں فلاں تگڑے”وفادار“ کو نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نون کی ٹکٹ انہیں کیوں دی جائے۔
نواز شریف کی طرف سے بات کرنے کی اجازت ملنے کے فوراََ بعد ان صاحب نے کہا تو صرف اتنا کہ وہ قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے لئے پاکستان مسلم لیگ کا ٹکٹ لینے کے لئے پارلیمانی بورڈ کے روبروپیش نہیں ہوئے ہیں۔ وہ عرض کرنے آئے ہیں تو صرف یہ کہ فلاں صاحب کو اس ٹکٹ کے لئے ہرگز مناسب نہ سمجھا جائے۔اپنے تئیں نواز شریف صاحب کو انہوں نے یہ اطلاع بھی دینا ہے کہ کئی روز سے ان کا ذہن یہ طے کرنے میں مصروف رہا کہ "MNS Stands for What?"
MNSظاہر ہے انگریزی میں محمد نواز شریف کی کلید ہے ۔پوٹھوہار کی سنگلاخ دھرتی کے نام نہاد ”مارشل“ ذہن کی دانست میں "M"البتہ موٹروے کا استعارہ تھا۔ "N"پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں نواز شریف کا کردار بیان کرتا ہے اور "S"نہ صرف Serviceبلکہ شرافت کی علامت بھی ہے "MNS"کی یہ تشریح فرمانے کے بعد موصوف نے پارلیمانی بورڈ سے رخصت کی اجازت طلب کرلی۔ وہ مل جانے کے بعد اُٹھے تو ایک بار پھر انہیں صاحب جن کا ذکر وہ پہلے کرچکے تھے کا نام لے کرفریاد کی تو یہ کہ انہیں 2013ءکے انتخابات کے لئے نون کا ٹکٹ ہرگز نہ دیا جائے۔
موصوف کو قومی اسمبلی تک پہنچنے کے لئے نواز شریف کی حمایت کا ٹکٹ تو نہیں ملا مگر جس شخص کو وہ اس ٹکٹ سے محروم کروانا چاہ رہے تھے انہیں بھی نہیں مل پایا۔ ان دنوں ٹکٹ سے محروم وہی صاحب بہت سخت زبان میں انگریزی کالم لکھ کر نواز شریف سے اپنا حساب چکاتے رہتے ہیں۔ان کے ”شریک“ کو مگر Adjustکرلیا گیا ہے۔ ان دنوں وہ اکثر ٹی وی سکرینوں پر حکومت کا جارحانہ دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔
یہاں تک لکھنے کے بعد یاد آیا کہ اس کالم کے ذریعے در اصل مجھے یہ بیان کرنا تھا کہ نواز شریف کے دربار میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار مارکہ کچھ لوگ ان دنوں چودھری نثار علی خان کو ”فارغ“ کروانے کی ضدمیں مبتلا ہوچکے ہیں۔ مجھے اسی کالم کے ذریعے مختلف دلائل کے ذریعے عرض صرف یہ کرنا تھی کہ چودھری نثار علی خان کو نواز شریف کے ہاتھوں ”فارغ“ کروانا میری دانست میں ممکن کیوں نہیں ہے۔
میری جانب سے پیش کردہ دلائل شاید ان قارئین کے لئے کافی حیران کن بھی ہوتے جو یہ باور کئے بیٹھے ہیں کہ میں چکری کے راجپوت کا ”ویری“ ہوں اور شاید ان کی نواز شریف کے ہاتھوں ”فراغت“ کا طلب گار بھی۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ چودھری نثاراور میرے درمیان 1985ءسے باہمی احترام کا رشتہ ابھی تک برقرار ہے۔مسئلہ مگر یہ ہے کہ میں صحافی ہوں اور وہ سیاستدان۔ ان دونوں میں ”دوستی“ گھوڑے کی گھاس سے ”دوستی“ کے مترادف ہوتی ہے۔صحافی گھوڑا،سیاستدان گھاس ۔گھوڑااگر گھاس کی محبت میں مبتلا ہوجائے تو زندہ رہنے کے لئے کھائے گا کیا؟

(روزنامہ نوائے وقت)  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں