ہفتہ، 20 اگست، 2016

راہ ہدایت: دانائی کا راستہ



اللہ رب العزت ارشادہے:اے ایمان والو! اپنی کمائی میںسے (اللہ تعالیٰ کے راستے میں)عمدہ چیزیں خرچ کیا کرو اوراس میں سے بھی خرچ کیا کرو جو ہم نے تمہارے لیے زمین (کے بطن)سے نکالاہے اوراپنی کمائی میں سے ایسی ردی چیز خیرات کرنے کا ارادہ نہ کرو جس کو تم خود بھی چشم پوشی کیے بغیر لینے والے نہیں ہو، اورخوب جان لو اللہ بے نیاز ہے اورہر تعریف کے لائق ہے، شیطان تمہیں تنگ دستی سے ڈراتا ہے اورتم کو بے حیائی کا حکم دیتا ہے اوراللہ تعالیٰ تم سے اپنی بخشش اورفضل کا وعدہ فرماتا ہے اوراللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا سب کچھ جاننے والا ہے وہ جسے چاہے دانائی عطا فرماتا ہے اورجسے دانائی عطاء کی گئی تو بے شک اسے بہت بھلائی عطاکردی گئی اورنصیحت توصرف عقل لوگ ہی قبول کرتے ہیں۔(البقرۃ 269۔267)
ان آیات میںاللہ رب العزت کے راستے میں طیب چیزیں خیرات کرنے کا حکم دیا جارہا ہے ، چیزیں وہ جو حلال ہوں، حلال طریقہ سے حاصل کی گئیں اوراسکے ساتھ ساتھ صاف ستھری،معیاری اورپاکیزہ بھی ہوں، اللہ رب العزت کے راستے میں خرچ کرنے کے تین مقاصد ہیں ،کسی غریب کا فائدہ مقصود ہو، اپنے نفس کی اصلاح ہو، اورسب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ رب العزت کی رضااورخوشنودی حاصل ہو، ردی چیز کی سخاوت سے نہ تو کسی غریب کو کوئی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے، نہ نفس کو بخل آلودگی سے نجات مل سکتی ہے اورنہ ہی دل کو طمانیت وتسکین حاصل ہوسکتی ہے اور اللہ تعالیٰ جو علیم بذات الصدور ہے نا کارہ چیزوں کی خیرات سے کیسے راضی ہوگا۔ اس نے تو تمہیں عمدہ نفیس اورمعیاری اورپاکیزہ چیزیں عطاء فرمائیں اور تم پر اپنے انعامات کی بارش کردی ،جب اس کے راستے میں خرچ کرنے کا وقت آیا تو تم سب سے ناکارہ چیز اس کے راستے میں دے رہے ہو، اگر کوئی تمہیں ہدیۃً کوئی بے کار چیزیں دے ڈالے تو تم اسی صورت میں قبول کرتے ہو تو جب تمام پہلوئوں سے صرفِ نظر کرلو اورچشم پوشی سے کام لو۔ شیطان انسان کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈال کر اسے اللہ رب العزت کے راستے میں خرچ کرنے سے روکتا ہے ۔ اس کا سب سے بڑا حربہ یہ ہے کہ وہ انسان کو فقر اورتنگ دستی کا خوف دلاتا ہے ، وہ کہتا ہے کہ اگر تم نے اللہ کے راستے میں خرچ کردیا تو خود کیا کھائو گے، اپنے بال بچوں کا پیٹ کیسے بھروگے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں بھی بھیک مانگنی پڑجائے ،در در پر گدائی کی ذلت اٹھانی پڑے ، وہ بخل کو کفایت شعاری اور دوراندیشی کے دلفریب عنوانوں سے پیش کرتا ہے ، حالانکہ بخل اورکفایت شعاری میں زمین آسمان کافرق ہے ، یہاں پر بخل کو بے حیائی کہا گیا ہے ، اس سے بڑھ کر اورکیا بے حیائی ہے کہ انسان خود تو عیش وعشرت میں بسر کرے اوراسکے دائرے میں موجود غریب نانِ شبینہ کو ترستے رہیں۔ فلاح کی راہ اختیار کرنیوالے ہی دانائی اورحکمت سے نوازے جاتے ہیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں