جمعرات، 18 اگست، 2016

طنز و مزاح رونے والے لطیفے....!


طیبہ ضیاءچیمہ

جنید جمشید نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ کسی لڑکی کے ساتھ سیلفی نہیں بنوائیںگے۔ انہوں نے کہا اگر انٹرنیٹ پر میری کسی خاتون کے ساتھ سیلفی دیکھی جائے تو وہ میری سیلفی نہیں بلکہ فوٹو شاپ پر بنائی گئی ہوگی۔ گلو کار ،نعت خواں اور مبلغ جنید جمشید نے اس اعلان سے کچھ لمحے پہلے اپنی آخری سیلفی پروگرام کی میزبان خاتون کے ساتھ بنائی اور وضاحت بھی کر دی کہ یہ خاتون ان کی اچھی اور پرانی دوست ہیں لہذا ان کے ساتھ سیلفی سے انکار نہیں کرسکے۔ ہا ہا ہا ہا ۔ ہر لطیفے کے آخر میںیہ لکھا ہوتا ہے۔ جنید جمشید کے فقہ میں مرد و عورت میں دوستی ہو سکتی ہے؟ کبھی فرماتے ہیں کہ مخلوط تعلیم بری بات ہے اور اکثر ٹی وی پر غیر محرم خواتین کے ساتھ خوش گپیاں لگاتے پائے جاتے ہیں۔ دیر آید درست آید۔ علماءکرام کو خواتین کے ساتھ خوش گپیوں اور تصاویر بنوانے سے احتیاط برتنی چاہیے۔ علماءدین کی علامت سمجھے جاتے ہیں ۔ چاند والے مولوی عبدالقوی کا انجام یاد رکھنا چاہئے ۔مولوی قانون کی گرفت سے بچ بھی جائے لیکن معاشرے میںجینے کے لائق نہیں رہے گا۔ بد بخت سیلفی نے قندیل بلوچ کی جان لے لی لیکن جاتے جاتے چاند والے مولوی کو بے نقاب کرگئی۔ ہر سیلفی فوٹو شاپ نہیں ہوتی۔ سیلفی جان لیوا بنتی جا رہی ہے۔ ہزاروں لوگ سیلفی کے جنون کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ خیبر پختون خواہ میں ایک گیارہ سالہ لڑکی سیلفی لیتے ہوئے دریا میں گر کر مر گئی، والدین بیٹی کو بچانے کے لیے دریا میں کود پڑے اور وہ بھی لقمہ اجل بن گئے۔ سمارٹ فون بعض اوقات ایسی سیلفی بھی بناتا ہے کہ دل خوش ہو جاتا ہے۔ جموں و کشمیر میں مسلمانوں پر شرمناک مظالم کی انتہاءہو چکی ہے۔ بچوں بڑوں بوڑھوں خواتین سب کے جسم چھلنی چھلنی کیئے جا رہے ہیں۔ اندھا دھند گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔ درندگی کے اس ماحول میں ایک کشمیری نوجوان نے ایک برہمن کی گائے پر پاکستان کا پرچم نقش کردیا اور سمارٹ فون سے اس گائے کی تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر ڈال دی جس کے نیچے لکھا تھاکہ ”ہم پاکستان کا نام لیتے ہیں تو گولی مار دی جاتی ہے ، ہمت ہے تو اپنے اس مقد س گاﺅ ماتا کو بھی گولی ماردو“۔ تصویر کشمیریوں کے جذبات کی بھر پور ترجمانی کر رہی تھی۔ پاکستان سے سچی محبت کرنے والے بے دردی سے شہیدکئے جارہے ہیں ۔ وادی کے پھول مسلے جا رہے ہیں۔ گلشن کے پھول مرجھا رہے ہیں اور پاکستان کے سیاستدان ایک دوسرے کو نشانہ بنانے میں مشغول ہیں۔ سیاست کو شغل بنا رکھا ہے۔ مسلم لیگ نون کے طلال چودھری کہتے ہیں کہ کاغذ لہرانا عمران خان کی پرانی عادت ہے۔ کہیں تو حقیقت ہوگی جو یہ بندہ کاغذ لہرانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ سیاست ملکی ہو یا گھریلو ہر بار خان صاحب کو ہی کیوں قصور وار سمجھاجائے ۔کرپشن کرنے والوںکو عوام کی آہ سے ڈرنا چاہیے۔ یہ آہ ماڈل ایان علی والی آہ نہیں جسے مذاق سمجھا جائے۔ غریب عوام کی آہ دونوں جہانوں میں ذلیل کرائے گی۔ ایک معصوم ایان علی ہے اور دوسرا معصوم اس کا وکیل۔ پیپلز پارٹی کا وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو تیئس سالہ کم عمر معصوم بچی ایان علی کی آہ سے ڈرنا چاہئے ۔ ہا ہا ہا ہا ۔ ہر لطیفہ کے آخر میں یہ لکھا ہوتا ہے۔ تھر کے سینکڑوں ہزاروں لوگ پانی کی ایک ایک بوند کو ترس کر مر گئے اور مر رہے ہیں، ننھے ننھے بچے سسک سسک کرمر رہے ہیں لیکن کسی معصوم کی آہ سندھ حکومت کو متاثر نہ کرسکی ۔کراچی میں ہزاروں بے گناہ ٹارگٹ کلنگ سے مر گئے اور مر رہے ہیں لیکن کسی مظلوم کی آہ حکومت سندھ کو ہلا نہ سکی۔کرپٹ حکومت المعروف ٹین پرسنٹ پانچ سال لوٹ مار کرتی رہی لیکن کسی مجبور کی آہ اسے نہ لگ سکی ۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اتنا کہہ دیا کہ ایان علی اور بلاول کے ایئر ٹکٹ ایک ہی اکاﺅنٹ سے جاتے ہیں تو اس کے وکیل نے بیان دے دیا کہ وزیر داخلہ کو معصوم بچی کی آہ لگ جائے گی۔ہاہاہاہا۔ ہر لطیفہ کے آخر میں یہ لکھا ہوتا ہے۔
(روزنامہ نوائے وقت)  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں