اتوار، 21 اگست، 2016

نتھو رام کی بھٹکتی روح

ابراہیم راجا
کیکر پر انگور نہیں، خاردار چھال ہی اگتی ہے، بچھو ہمیشہ ڈستا ہے جگنو کی طرح چمکتا نہیں، سانپ تریاق نہیں، ہمیشہ زہر اگلتا ہے، جیسا خمیر، ویسی فطرت، جوکبھی بدلتی نہیں، مودی صاحب کا زہریلا پن حیران کن ہے؟ ہر گز نہیں۔ ذرا سا ماضی میں جھانکیے، نوعمری سے ادھیڑ عمری تک، مودی صاحب کے کارناموں نے، تاریخ کے کتنے صفحات سیاہ کر رکھے ہیں۔
نریندر مودی آٹھ برس کے تھے، جب انہوں نے اپنی فطری اٹھان کے عین مطابق، سخت گیر ہندو تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سَنگھ میں شمولیت اختیار کی۔ وہی آر ایس ایس، جو پُرامن جدوجہد پر کم، قتل و غارت پر زیادہ یقین رکھتی ہے۔ اڑسٹھ برس ہوتے ہیں، تیس جنوری انیس سو اڑتالیس کو، اسی تنظیم کے ایک انتہا پسند کارکن نتھورام گوڈسے نے، موہن داس کرم چند گاندھی پر گولیاں برسا کر انہیں مار ڈالا، صرف اس شک کی بنیاد پر کہ گاندھی پاکستان اور مسلمانوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، اور انہوں نے ہندو بالادستی کے لیے نظریہ تشدد کی حمایت نہیں کی۔ اس واردات کے بعد، آر ایس ایس تنظیم پر پابندی لگا دی گئی، جسے کچھ عرصے بعد ہٹا لیا گیا۔ دو ہزار چودہ میں مودی صاحب اقتدار میں آئے تو گاندھی جی کے قاتل نتھو رام کی بھٹکتی روح بھی واپس آ گئی، اس کے نام پر ایک مندر بن گیا، شہر شہر اس کے مجسمے لگانے کی مہم شروع ہو گئی، اسے ہیرو کو درجہ دینے کے لیے، ''دیش بھگت نتھورام گوڈسے ‘‘ جیسے عنوانات سے دستاویزی فلمیں بننے لگیں، سیاسی مقاصد کے لیے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تشدد کا پرچار کیا جانے لگا، انتہا پسندوں نے گاندھی کے قتل کے دن کو، نتھو رام کی نام نہاد بہادری سے منسوب کرنے کی تحریک چلا دی۔
مودی صاحب کی فکری تربیت کرنے والی تنظیم، آر ایس ایس کی دو چار نہیں، درجنوں گھنائونی کارستانیاں کلنک کا ٹیکا بن کر، بھارت کے ماتھے پر سجی ہوئی ہیں۔جمشید پور میں، انیس سو اناسی کے مسلم کش فسادات کی دل دہلا دینے والی کہانیوں سے، آج بھی لہو رِستا ہے۔ وہ فسادات جن کی پوری منصوبہ بندی، آر ایس ایس نے کی۔ پچھتر مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا، ہزاروں گھر لوٹ لیے گئے، ساٹھ کے قریب مسلمان بچوں اور عورتوں نے جان بچانے کے لیے ایک بڑی ایمبولینس میں پناہ لی، اس ایمبولینس کو راستے میں روک کر آگ لگا دی گئی، درجنوں خواتین اور کمسن بچے زندہ جل گئے۔ ان فسادات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنا جس کی رپورٹ میں ہولناک انکشافات کیے گئے، رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے قریبی تعلقات رکھنے والی آر ایس ایس نے، کس طرح منظم طریقے سے فسادات کی منصوبہ بندی کی۔ بابری مسجد کے انہدام اور اڑیسہ میں عیسائیوں کے منظم قتل عام میں سَنگھ پریوار کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
دوہزار دو میں بھارتی گجرات میں، اُس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی سرپرستی میں، مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، اسے یاد کرکے بھی انسانیت کانپنے لگتی ہے، ان فسادات کو انسانیت کے خلاف بھیانک ترین جرائم میں شمار کیا جاتا ہے۔ عالمی تنظیموں کی مصدقہ رپورٹس کے مطابق پولیس اور ریاستی اہلکاروں کی سرپرستی میں، تقریباً بائیس سو مسلمانوں کو بے رحمانہ طریقے سے قتل کیا گیا، ڈھائی سو خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی، درجنوں نوجوان مسلمان لڑکیوں کو برہنہ کرکے گلیوں بازاروں میں گھمایا گیا، تیز دھار ہتھیاروں سے ان کے جسموں پر ہندوئوں کے مذہبی نشانات بنائے گئے، ہجوم کے سامنے حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کیے گئے، شیر خواروں کو خنجروں اور چُھروں کی نوک پر اٹھا کر، آگ کے الائو میں پھینکا گیا، کئی بچوں کو زبردستی پٹرول پلا کر زندہ جلا دیا گیا۔ پولیس نے سرکاری احکامات پر، احمد آباد میں فائرنگ کرکے، چالیس نہتے مسلمان قتل کر ڈالے، ایک بڑے گڑھے میں اکٹھی دفنائی گئی چھیانوے لاشیں برآمد ہوئیں، جن میں چھیالیس خواتین کی تھیں۔ احمد آباد کے علاقے چمن پورہ میں، لوک سبھا کے سابق رکن، احسان جعفری کو اُس وقت زندہ جلا دیا گیا جب وہ مسلمان 
خواتین کے لیے رحم کی بھیک مانگ رہے تھے۔ ان کے علاقے میں انہتر مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ یہ واقعہ ''گلبر گ سوسائٹی قتل عام‘‘ کے عنوان سے تاریخ میں درج ہے۔ گجرات فسادات میں مسلمانوں کے ایک لاکھ گھر، گیارہ سو ہوٹل اور گیارہ ہزار چھوٹے بڑے کاروباری مراکز تباہ کر دیے گئے۔ حقائق جاننے والی بین الااقوامی کمیٹی کے مطابق مسلمان عورتوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ کمیٹی امریکا، برطانیہ، جرمنی اور فرانس کی ماہر خواتین پر مشتمل تھی۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے ان فسادات کو مودی سرکار کی سرپرستی میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی قرار دیا۔ ہندو بلوائیوں کو مسلمانوں کے گھروں کی نشاندہی کے لیے ووٹر فہرستیں فراہم کرنے کا انکشاف ہوا۔ دو ہزار دو میں تہلکہ میگزین کی تحقیقاتی رپورٹ نے بھی نریندر مودی کا اصل چہرہ بے نقاب کیا۔ گجرات فسادات کی سرپرستی پر ہی مودی کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگائی گئی۔
وزیر اعظم بننے کے بعد بھی نریندر مودی کی سوچ نہ بدلی۔ انتہا پسند، متعصب، نسل پرست تنظیموں کا سرپرست انہوں نے خود کو ثابت کیا، اپنی فطرت اور تنظیمی تربیت کے مطابق، کشمیریوں کے خون سے ہولی وہ کھیل رہے ہیں۔ دنیا کو دکھانے کے لیے انسانیت اور امن کا راگ الاپتے ہیں، اور سیکڑوں نہتے انسانوں کا خون بھی بہاتے ہیں۔ اب وہ پاکستان کو بھی دھمکانے لگے ہیں۔ کہتے ہیں کہ انہیں بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے آوازیں دی جا رہی ہیں۔ مودی صاحب دور کی آوازیں چھوڑیں، پہلے بھارت میں اٹھنے والی آوازیں تو سن لیں۔ بھارتی پنجاب میں، خالصتان کے لیے اٹھنے والی آواز یں آپ کو سنائی کیوں نہیں دیتیں؟ آسام میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ کی آواز پر ہی کان دھر لیں، ناگالینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل کی الگ ملک کے لیے چیخ و پکار سن لیں، کم سے کم تیس مسلح علیحدگی پسند تحریکوں کی آوازوں پر آپ نے اپنے کان کیوں بند کر رکھے ہیں؟ بھارتی فوج کی بربریت پر احتجاج کرنے والے نہتے کشمیریوں کو دہشت گرد آپ نے قرار دے دیا ہے۔ ان بے بسوں کی حمایت کے جرم میں پاکستان پر دہشت گردوں کے گن گانے کا الزام بھی آپ نے لگایا ہے۔ ذرا گریبان میں جھانک کر بتائیے، دہشت گردوں کے گُن پاکستانی گاتے ہیں یا بھارتی؟ ہم دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہیں، اور ہندوتوا کا علمبردار بھارتی معاشرہ دہشت گردوں کو حکمران بنا کر اسمبلیوں میں بھیج دیتا ہے، کبھی بدنام زمانہ بال ٹھاکرے، کبھی بابری مسجد کی شہادت اور مسلمانوں کے قتل عام کے ذمہ دار ایل کے ایڈوانی اور کبھی نریندر مودی۔
گاندھی جی کا تنگ نظر انتہا پسند قاتل نتھو رام مر گیا، لیکن مودی جیسوں نے اس کی خونخوار روح کو مرنے نہ دیا، وہ روح جو ہزاروں معصوم انسانوں کا لہو پی چکی لیکن اس کی پیاس ہے کہ بجھتی ہی نہیں، جسے اس دھرتی پر، اپنے جیسوں کے سوا کوئی وجود گوارا نہیں۔
(روزنامہ دنیا)   

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں