ہفتہ، 20 اگست، 2016

نااہلی ریفرنس کا انجام کیا ہوگا؟


قیوم نظامی

عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے اسلام آباد میں تاریخ ساز دھرنا دیا۔ اس دھرنے کی اصل طاقت اور قوت ڈاکٹر طاہر القادری کی گرفت میں تھی البتہ عمران خان نے عارضی صورتحال کو کیش کرایا اور تحریک انصاف کی مقبولیت کے گراف کو مسلم لیگ (ن) سے اوپر کر لیا۔ میاں نواز شریف سٹیٹ کرافٹ کے ماہر ہو چکے ہیں انہوں نے جوڈیشل کمیشن کے ذریعے عمران خان کی عارضی مقبولیت کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ عمران خان سچے اور دیانتدار لیڈر ہیں مگر سیاست کے مسلمہ اُصولوں کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کے غیر متوقع فیصلے کے بعد وہ مایوسی کا شکار ہوئے۔ اسی دوران انہیں پانامہ لیکس کا ہتھیار مل گیا جو دراصل سی آئی اے نے امریکہ کے عالمی مفادات کیلئے تخلیق کیا تھا۔ پانامہ لیکس کے بعد میاں نواز شریف قدرتی طور پر بوکھلاہٹ کا شکار ہوئے مگر جب ان پر یہ آشکار ہوا کہ خود عمران خان اور انکے قریبی رفقاء آف شور کمپنیوں کے مالک رہے ہیں تو وہ سنبھلے اور اپنے رفقاء کے ذریعے عمران خان پر سیاسی حملے کرکے ان کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا۔ عمران خان کو جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد اپنی جماعت کی تنظیم سازی کی جانب آجانا چاہیئے تھا مگر وہ قاصر رہے۔ جسٹس وجیہہ الدین اور تسنیم نورانی کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ سیاسی تجربے کی روشنی میں یہ گمان کرسکتا ہوں کہ میاں نواز شریف نے ’’اپنے بندے‘‘ عمران خان کے ساتھ لگا رکھے ہیں جو انہیں ایسے ایشوز میں اُلجھا دیتے ہیں جو وقتی اور عارضی ابال تو پیدا کرتے ہیں مگر انتخابی کامیابی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
میاں نواز شریف کیخلاف پانچ ریفرنس دائر کیے گئے ہیں جن میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد میاں نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے لہذا انہیں آئین کے آرٹیکل 62(1)F اور 63(2) کے تحت نااہل قراردیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی نے بھی عمران خان اور انکی جماعت کے اراکین پارلیمنٹ کیخلاف نااہلی کے ریفرنس دائر کررکھے ہیں۔ جہانگیر ترین کیخلاف بھی ریفرنس دائر کردیا گیا ہے۔ یہ سیاسی ڈرامہ جوں جوں آگے بڑھے گا مزید ریفرنس دائر کیے جائینگے۔ جب پاکستانی سیاستدان نان ایشوز میں اُلجھ جاتے ہیں تو امریکہ برطانیہ اور بھارت بہت خوش ہوتے ہیں جو نہیں چاہتے کہ پاکستان اپنے اصل قومی مسائل پر قابو پاکر مضبوط اور مستحکم ملک بن جائے۔ سی آئی اے اور را مل کر پاکستان میں سرمایہ صرف کرکے ایسے مسائل کو ہوا دیتے ہیں جو قوم کو تقسیم، کمزور اور مایوس کرنے کا سبب بن سکتے ہوں۔ پاکستانی قوم آج جس قدر مایوس ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ نااہلی کے ریفرنسوں کے سلسلے میں سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے جو تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے استعفے روک کر میاں نواز شریف کے ساتھ اپنی لازوال وفاداری کا ثبوت دے چکے ہیں۔ عمران خان ایک بار دھوکہ کھانے کے بعد دوبارہ اسی جال میں پھنس رہے ہیں جو میاں نواز شریف کی بڑی کامیابی ہے۔ الیکشن کمیشن پاکستان نے میاں نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، اسحاق ڈار، کیپٹن صفدر اور تحریک انصاف کے سینٹر لیاقت ترکئی اور ایم این اے شرام ترکئی کو نوٹس جاری کردئیے ہیں۔ یہ کاروائی حسب روایت چلتی رہے گی۔دھوکہ فریب اور ڈرامہ چلتا رہے گا۔بقول غالب:
ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے
صوفی بابا اشفاق احمد نے بھی ظاہر اور حقیقت کو خوبصورت انداز میں بیان کیا تھا۔ انہوں نے تحریر کیا کہ ’’میری شادی لیکچرار بانو قدسیہ سے ہوئی میں خود کار ڈرائیو کرکے اپنی بیگم کو کالج چھوڑنے جاتا۔ کالج پہنچ کر گاڑی سے اُتر کر بیگم کیلئے کار کا دروازہ کھولتا۔ میرے اس انداز سے بیگم کی فرینڈز اور سٹوڈنٹ بہت متاثر ہوتیں۔ وہ میری تعریف کرتیں یہ میرا ظاہری عمل تھا جبکہ حقیقت یہ تھی کہ کار کا دروازہ خراب تھا جو باہر سے کھلتا تھا لہذا مجھے کار سے باہر نکل کر دروازہ کھولنا پڑتا تھا‘‘۔ پاکستان کی موجودہ سیاست بھی ’’ہے کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘ کی مانند ہے۔ اسی لیے تجزیے اور تبصرے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ نااہلی ریفرنسوں کے ڈرامے کا ڈراپ سین سپریم کورٹ میں ہوگا۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں پانامہ لیکس کے بارے میں بنچ تشکیل دینے کی استدعا کی جائیگی۔ ریلیف کے امکانات بہت کم ہیں سپریم کورٹ مؤقف اختیار کرسکتی ہے کہ پہلے آئینی اداروں پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن پاکستان سے رجوع کیا جائے۔ یہ ادارے جو فیصلہ کرینگے ان کیخلاف اپیل سپریم کورٹ میں کی جائیگی۔ اس وقت موجود زمینی حقائق کے مطابق اپیل کی جلد سماعت بھی ہوسکتی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق چند پارلیمنٹیرین نااہل بھی ہوسکتے ہیں اور میاں نواز شریف کو دھاندلی کے جوڈیشل کمیشن کی طرح کلین چٹ بھی مل سکتی ہے۔ وہ مقدر کے سکندر ثابت ہوئے ہیں اگر وہ نااہل ہونے سے بچ گئے تو پی پی پی اور تحریک انصاف کو 2018ء کے انتخابات میں ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے اور مسلم لیگ(ن) ایک بار پھر سویپ بھی کرسکتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کو خطرہ صرف فوج سے ہے جو سیاسی بدامنی کی صورت میں ’’عزیز ہم وطنو‘‘ کا اعلان کرسکتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ایک گمنام خط کی روشنی میں نیب میں غیر قانونی بھرتیوں کا سؤو موٹو نوٹس لیا ہے جو خوش آئند فیصلہ ہے۔ کاش چیف جسٹس پاکستان پانامہ لیکس کا نوٹس لیکر آئینی اداروں نیب، ایف بی آر اور ایف آئی اے کو منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کرنیوالے ملک دشمن عناصر کیخلاف قانونی کارروائی کرنے کی ہدایت کرتے۔ یہ ادارے گزشتہ چار ماہ سے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ریاست کے دوسرے اداروں کی طرح عدلیہ کا کردار بھی بدقسمتی سے افسوسناک ہی رہا ہے۔ مولوی تمیز الدین کیس (1954) چیف جسٹس منیر نے چوہدری غلام محمد کے حق میں فیصلہ دیکر تحریک پاکستان کی سیاسی و جمہوری سمت ہی تبدیل کردی۔ دو سو(dosso) کیس (1958) عدلیہ نے سکندر مرزا کے مارشل لاء کو جائز قراردیا جس کے نتیجے میں ملک پردس سال آمریت مسلط رہی۔ عاصمہ جیلانی کیس (1972) عدلیہ کا مثبت فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب جنرل یحییٰ خان ملک دو لخت کرکے گھر جابیٹھے۔ ولی خان کیس (1976) عدلیہ نے حکومت کے مؤقف کے مطابق نیب پر پابندی کو جائز قراردیا۔ نصرت بھٹو کیس (1977)عدلیہ نے نہ صرف جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کو جائز قراردیا بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا بھی سنائی۔ حاجی سیف اللہ (جونیجو) کیس (1989) عدلیہ نے جنرل ضیاء الحق کے اقدام کو غیر آئینی غیر قانونی قراردیا البتہ یہ فیصلہ جنرل ضیاء الحق کی وفات کے بعد آیا۔ خواجہ طارق رحیم (بے نظیر) کیس (1990)عدلیہ نے صدر کے اقدام کو جائز قراردیا۔ نواز شریف کیس (1993) عدلیہ نے نواز حکومت کو بحال کردیا۔ بے نظیر بھٹو نے اس فیصلے کو چمکدار اور شریفانہ فیصلہ قراردیا۔ یوسف رضا گیلانی (بے نظیر) کیس (1996)عدلیہ نے صدر کے اقدام کو درست قراردیا۔ ظفر علی شاہ کیس(2002) عدلیہ نے نہ صرف جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کو درست قراردیا بلکہ آمر کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا۔ بلاشک درجنوں قابل رشک ججوں نے انفرادی حیثیت میں یادگار فیصلے کئے۔یہ باضمیر جج تاریخ کا قیمتی سرمایہ ہیں۔
اس تاریخی پس منظر کی روشنی میں وزیراعظم میاں نواز شریف کی نااہلی ناممکن نظر آتی ہے انکی وجہ سے ممکنہ طور پر عمران خان بھی نااہلی سے بچ جائینگے۔ عدلیہ کی کارکردگی پر بھی تحقیق ہونی چاہیئے۔ ستر سال گزرنے کے بعد بھی عوام سستے اور فوری انصاف سے محروم ہیں۔ انکے مقدمات نسل درنسل چلتے ہیں۔ مصدقہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ ججوںکوآٹھ سے 9لاکھ روپے ماہانہ پنشن ملتی ہے۔ اسکے علاوہ ان کو ڈرائیور، کک، مفت بجلی اور پٹرول کی سہولتیں بھی حاصل ہیں جبکہ اکیس اور بائیس گریڈ کے ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور جرنیل ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ پنشن وصول کرتے ہیں۔ مستند روایت کیمطابق حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے خلیفہ بننے کے بعد مفاد عامہ اور ذاتی مفاد کے ٹکرائو کے پیش نظر اپنی دکان بند کردی وہ بیت المال سے یتیم کے کفیل کے مطابق گزارہ آلائونس لیتے تھے۔ رحلت سے پہلے انہوں نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ وہ وصول شدہ وظیفے کی کل رقم بیت المال میں واپس جمع کرادیں۔ انکو نئے کفن میں دفن نہ کیا جائے کیوں کہ نئے کپڑے زندہ لوگوں کیلئے ہوتے ہیں لہذا انہیں پرانی چادر کے کفن میں دفن کیا جائے۔ [سید اکبر آبادی: صدیق اکبرؓ] انسان قبر میں خالی ہاتھ ہی جاتا ہے۔

(روزنامہ نوائے وقت)  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں