پیر، 22 اگست، 2016

وزیراعظم چودھری نثار کو فارغ کیوں کرینگے؟


نصرت جاوید

ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواہ کئے بغیر لکھنے کا دعویٰ صرف غالب ہی کرسکتا تھا۔وہ بھی شاعرانہ تعلی کے ایک خاص لمحے میں۔عمر ساری تو اس بے چارے کی اپنے ہی ایک عزیز کے ہاتھوںدبائی اور تشویش ناک حد تک کم ہوئی پنشن کو انگریزوں سے براہِ راست حاصل کرنے میں صرف ہوگئی۔ اس شاہ خرچ اور بے تحاشہ مہمان نواز کو قرض اٹھاکر اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا پڑا۔ 6برس کے لئے بہادر شاہ ظفر کے دربار میں نوکری ملی تو اس کے بارے میں وہ اتراتا رہا۔ اس احساس کے ساتھ کہ وگرنہ شہر میں غالب کی کوئی آبرو نہیں۔

غالب ایسے نادرِ روزگار کو پنشن ،نوابوں کے لئے قصیدے اور شاہ کی مصاحبت حاصل کرنے کے لئے اپنی انا کو دن میں کئی بار فراموش کرنا پڑتا تھا،تو مجھ ایسا بے ہنر ستائش کی تمنا اورصلے کی پرواہ کئے بغیر لکھنے کا دعویٰ کس منہ سے کرسکتا ہے۔

سچ اور صرف سچ ہے تو یہ کہ لکھنے والوں اور خاص طورپر روزانہ اخبارات کے لئے کالم نگاری کے نام پر مجھ ایسے قلم گھسیٹنے والوں کے دل ودماغ پر یہ گماں طاری رہتا ہے کہ قاری ان کے ”گرانقدر “خیالات کے منتظر رہتے ہیں۔ ان دنوں ویسے بھی آپ صرف اخبارات ہی کے لئے نہیں لکھتے۔کالم شائع ہوکر صرف اخبار کے ہاکر کے ذریعے قاری کے گھرتک نہیں پہنچتا۔انٹرنیٹ پر Postبھی ہوتا ہے۔ وہاں کالم پوسٹ ہوجائے تو ہر صورت دھیان رکھنا پڑتا ہے کہ اسے کتنے لوگوں نے Likeکرکے دوسروں کے ساتھ Shareکیا۔ اس پر کس نوعیت کی تبصرہ آرائی ہوئی۔ کتنی تعداد نے اپنی طرف سے تعریف کے چند کلمات لکھ کر اس کالم کو Re-tweetکیا۔

انٹرنیٹ پر آپ کے لکھے کسی کالم کی پذیرائی کو جانچنے کے پیمانے بہت کڑے ہیں۔ دھوکہ دہی کی اس میں گنجائش ہی نہیں۔ناپ تول کا اعشاری نظام ہے۔ اس نظام کے ہوتے ہوئے دُنیا کے مالدار اور مو¿ثر اخبارات کے لئے لکھنے والوں کو بھی معاوضے میں اضافے کی توقع کے ساتھ اپنی تحریروںکے بارے میں Re-tweets'Likesاور تبصرہ آرائی کی شدید طلب محسوس ہوتی ہے۔

ان سب حقائق کے تناظر میں چند ہفتوں سے میں نے ذرا غور سے انٹرنیٹ پر پوسٹ ہوئے اپنے اس کالم کا جائزہ لیا تو احساس ہوا کہ قارئین کی اکثریت کو وہ کالم زیادہ پسند آئے جس میں کسی نہ کسی نامور سیاستدان کی بھداُڑائی گئی تھی۔ یہ پذیرائی مگر Do Moreکے تقاضوں کے ساتھ ہوتی ہے۔راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراط عصر تو میرے Do Moreسے گھبراکر جھوٹی کہانیاںتراشتے ہوئے میرے ساتھ حساب برابر کرنے کی لگن میں جت گئے ہیں۔ میرا نام لے کر تہمت بھری کہانیاں گھڑتے ہوئے ہمارے انقلابی بقراط کو یاد ہی نہیں رہا کہ ان کا اصل مقام اور ہدف تو پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم کو آئندہ ”سو دنوں“ میں فارغ کروانا ہے۔ ان کے ”سودن“ جولائی کی کسی تاریخ سے شروع ہوئے تھے۔ 30ستمبر کئی حوالوں سے ان”سودنوں“ کی Cut Offتاریخ ہے۔ انقلابی بقراط کی جانب سے اپنا ہدف بھول کر مجھے نشانہ بنانے کی تڑپ نے مجھے تو مسکرانے پرمجبور کردیا ہے۔ میں ان کی بے بسی کا لطف اٹھاتا ہوں، مگر سوشل میڈیا پر موصوف کی گھڑی تہمتوں کا ذکر کرتے ہوئے مجھے ”شیر بن شیر“ کے مشورے دئیے جاتے ہیں۔ مجھے یہ مشورے نظرانداز کرنا ہوتے ہیں کیونکہ اخبارات کے صفحات ذاتی حساب برابر کرنے میں ضائع نہیں کئے جانا چاہئیں۔

تشویش البتہ یہ دریافت کرنے کی وجہ سے لاحق ہوئی کہ کئی لوگوں کی دانست میں چودھری نثار علی خان کو نواز شریف کے دربار سے فارغ کروانے کی گیم لگ چکی ہے۔ میں ان کے بارے میں تواتر کے ساتھ تنقیدی فقرے لکھ کر شاید اس گیم میں حصہ ڈالنا چاہ رہا ہوں۔حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔

چودھری نثار علی خان کے اندازِ سیاست سے مجھے سواختلاف ہیں مگر 1985ءسے ان کے ساتھ باہمی احترام کا رشتہ بھی بدستور قائم ہے۔ اس رشتے کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے یہ جان کر بلکہ افسوس ہوا کہ ان کے کسی مخالف نے، جسے میں بااعتبار اور ان دنوں نوازشریف کے دربار میں مو¿ثر سمجھتا ہوں،مجھے یہ جھوٹ بتایا تھا کہ جس روز چودھری نثار علی خان کی تقریر کے بعد خورشید شاہ پوری اپوزیشن کو لے کر قومی اسمبلی کے ایوان سے احتجاجاََ باہر چلے گئے تھے تو وزیر اعظم نے اپنے وزیر داخلہ سے تین بار یہ درخواست کی کہ وہ خود جاکر ناراض اپوزیشن کو راضی کریں۔ وہ تیار نہ ہوئے تو نواز شریف کو بذاتِ خود خورشید شاہ کے چیمبر جانا پڑا۔ میں نے Double-Checkکئے بغیراپنی سورس کا بتایا قصہ لکھ ڈالا جوحقیقت پر مبنی نہیں تھا۔ساری زندگی رپورٹنگ کی نذر کرنے کے باوجود،کالم میں چسکہ ڈالنے کی حرص میں یہ بات لکھ ڈالی۔

احتیاطاََ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مجھے مذکورہ بات خواجہ آصف یا ان کے کسی دوست نے نہیں بتائی تھی۔ خواجہ صاحب میرے ساتھ جھوٹ نہیں بولتے۔ اگرچہ ان سے ملے عرصہ ہوگیا ہے۔ ایسا کوئی واقعہ حقیقتاََہوا بھی ہوتا اور کسی نہ کسی طرح خواجہ آصف کی وساطت سے مجھ تک پہنچتا تو ایک کان سے سن کر دوسرے سے باہر نکال دیتا۔ دربار کے مصاحبین میں ہوئی گروہ بندی کے تناظر میں رپورٹر کا محتاط رہنا اشد ضروری ہوتا ہے۔

میری تمام تر احتیاط کے باوجود جمعرات کی شام سے کئی سینئر اور جونیئر ساتھیوں نے براہِ راست ملاقاتوں اور ٹیلی فونوں کے ذریعے مجھ سے اس ”خبر“ کی تصدیق چاہی کہ وزیر داخلہ کو ان کے منصب سے فارغ کیا جارہا ہے۔ دو کھانے کی محفلوں میں بھی اکثر احباب مجھ سے یہی سوال پوچھتے رہے۔ ثابت ہوا کہ اسلام آباد میں درباری سازشوں پر گہری نظر رکھنے والوں نے اپنے تئیں یہ طے کرلیا ہے کہ چودھری نثار کی ”فراغت“ کی گیم لگ چکی ہے۔ مجھے اس گیم کی نہ صرف خبر ہے بلکہ اس میں اپنا حصہ ڈالنے کو بھی میں بے قرار ہوں۔ حقیقت مگر اس کے بالکل برعکس ہے۔ بنیادی طورپر ایک رپورٹر ہوتے ہوئے مجھے صرف اس کھیل پر تبصرہ آرائی کی عادت ہے جو کھلی آنکھوں کے سامنے ہورہا ہوتا ہے۔ درباری مصاحبین کی گروہ بندی میں مجھے کسی فریق کا ساتھ دینے کی بیماری لاحق نہیں۔ اپنی اصل اوقات تک محدود رہتا ہوں۔

چودھری نثار علی خان کی ممکنہ ”فراغت“ سے جڑی داستانوں کو سن کر لطف اٹھانے والوں کو ٹھنڈے دل سے یہ جان لینا چاہیے کہ ہر جماعت کی ایک Core Constituencyہوا کرتی ہے۔امریکی اسے Baseکہتے ہیں۔مثال کے طورپر ڈونلڈٹرمپ، ری پبلکن پارٹی کے بہت سارے خاندانی اور تگڑے رہنماﺅں کو کچلتا ہوا اس جماعت کا صدارتی امیدوار بننے میں کامیاب ہوا تو اصل وجہ اس کی یہ تھی اس نے وہ سب کچھ گلی کی زبان میں برسرِعام کہنا شروع کردیا جو ری پبلکن پارٹی کی Baseکے دلوں میں شدید تعصب کی صورت کئی دہائیوں سے موجود رہا ہے۔

اصلی اور وڈے مسلم لیگی،جو ان دنوں نواز شریف کی قیادت تلے جمع ہیں،پیپلز پارٹی کو اس کے قیام کے پہلے دن ہی سے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹونے،ان کی نظر میں ،مشرقی پاکستان کو جدا کرنے کے کھیل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔مشرقی پاکستان گنوانے کے بعد وہ اقتدار میں آئے تو صنعتوں کو نیشنلائزکرکے مسلم لیگ کی Baseکی نظر میں بھٹو نے اس ملک میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کی۔ بھٹو صاحب کا تختہ الٹ کر ضیاءالحق نے فوجی آمریت کے جو گیارہ سال گزارے، ان سے مسلم لیگیوں کو کوئی خاص تکلیف نہیں۔ جنرل ضیاءالحق نے کئی حوالوں سے ،بلکہ ان کی نظر میں،پاکستان کا ”اسلامی تشخص“ بحال کیا ہے۔

اپنے تندوتیز بیانات سے چودھری نثار علی خان،پیپلز پارٹی کی نفرت میں مبتلا مسلم لیگی Baseکو خوش کردیتے ہیں۔ اس Baseکی نظر میں وزیر داخلہ نے اپنے بیانات کے ذریعے پیپلز پارٹی کوایک حوالے سے گویا”تحریکِ دفاعِ ڈاکٹر عاصم اور ایان علی“بنادیا ہے۔وزیر اعظم انہیں اس ”جرم“ پر فارغ کیوں کریں گے؟۔ بہرحال 2018ءمیں انہیں اوران کی جماعت کو ایک اور انتخاب بھی تولڑنا ہے۔

انتخابی لڑائی صرف تحریک انصاف تک محدود رہے تو کام آسان ہوجائے گا۔پیپلز پارٹی نے آئندہ انتخاب سے قبل پنجاب میں کسی نہ کسی اپنا طرح اپنا احیاءکرلیا تو نواز لیگ کے لئے مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا۔

وقتی مصلحت کا اگرچہ تقاضہ یہی ہے کہ فی الوقت تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو احتجاجی کنٹینر پر اکٹھا ہونے سے روکا جائے۔ نواز شریف اس مصلحت کے تقاضے اپنے نرم رویے اور اسحاق ڈار کی سفارت کاری کے ذریعے پورے کررہے ہیں۔ چودھری نثار علی خان کی تندوتیز باتیں،ان کا کام مشکل ضرور بنادیتی ہیں۔طویل المدتی تناظر میں لیکن انہیں نہ صرف برداشت کرنا ہوگا بلکہ دل ہی دل میں ”لگے رہو منّا بھائی“ بھی کہنا ہوگا۔

(روزنامہ نوائے وقت)  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں