جمعرات، 18 اگست، 2016

’’ چودھویں کا چاند ۔ بلاول بھٹو زرداری؟‘‘


اثر چوہان


عرصۂ دراز سے ہم سُورج ( شمس) اور چاند ( قمر) کے حوالے سے ’’ شمسی توانائی‘‘ (Solar Energy) اور ’’قمری توانائی‘‘ (Lunar Energy) کا تذکرہ سنتے آ رہے ہیں ۔ 17 اگست کے اخبارات میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ’’ کراچی میں قائداعظم کے مزار پر شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کا سِسٹم نصب کردِیا گیا ہے ‘‘۔ سورج کائنات کا سب سے بڑا سیّارہ ہے اور قائداعظم ہمارے سب سے بڑے لیڈر ۔ اِس لحاظ سے اُن کے مزار پر شمسی توانائی کا سِسٹم ہی نصب کِیا جانا چاہیے تھا ۔ دوسری خبر کے مطابق ’’ اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے سپیکر ہائوس کو علامہ اقبال کے فرمان کے مطابق …؎
’’اپنی دُنیا آپ پیدا کر ، اگر زندوں میں ہے!‘‘
کے مِصداق اپنی بجلی آپ پیدا کرنے کا لائسنس دے دِیا گیا ہے ۔ خبر میں وضاحت نہیں کی گئی کہ کِس قِسم کی بجلی پیدا کرنے کا لائسنس دِیا گیا ہے ؟۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایوانِ صدر ، وزیراعظم ہائوس، چاروں صوبوں کے گورنر ہائوسز ، وزرائے اعلیٰ ہائوسز اور سپیکر ہائوسز کو بھی اِس طرح کے لائسنز دئیے گئے ہیں ( یا دئیے جائیں گے؟ ) یا نہیں؟ ۔ البتہ مجھے دو سال پہلے کا وہ واقعہ یاد آ رہا ہے جب ، خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف "Garbage" ( کوڑا کرکٹ) سے بجلی پیدا کرنے کا نُسخہ سِیکھنے کے لئے بھارتی پنجاب کے دورے پر گئے تھے اور وہاں اُنہوں نے کوڑا کرکٹ سے بجلی پیدا کرنے کا مشاہدہ بھی کِیا تھا۔ کبڈی میچ بھی دیکھا تھا اور وزیراعلیٰ بھارتی پنجاب کو لاہور آ کر ’’ پٹھورے ‘‘ کھانے کی دعوت بھی دی تھی۔ پاک پنجاب میں کوڑا کرکٹ بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ یہاں اِس طرح بجلی پیدا کرنے کا تجربہ کِیا گیا یا نہیں؟۔ مَیں نہیں جانتا ۔ ’’ تجربے‘‘ کے بارے میں مرحوم شاعر عبدالحمید عدمؔ نے کہا تھا …؎
’’یہ مرے تجربے کا جوہر ہے
ہر مسافر کو یا خبر کردو!
رہبروں کی فریب کاری سے
رہزنوں کا خلُوص بہتر ہے‘‘
17 اگست کے اخبارات میں جنابِ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں عوام کو نِت نئی اطلاعات دینے والے وزیراعلیٰ سندھ کے مُشیر اطلاعات جناب مولا بخش چانڈیو کا یہ بیان شائع ہُوا کہ ’’ ہمارے لیڈر بلاول بھٹو زرداری چودھویں کا چاند ہیں اور وہ وقت آنے پر پاکستان کی قیادت کریں گے‘‘۔ 17 اگست کو قمری مہینے کا 13 واں دِن تھا اور ہندی مہینے بھادوں کا دوسرا دِن۔ چانڈیو صاحب نے وہ وقت نہیں بتایا کہ پاکستان کی قیادت کرنے کے لئے اُن کے لیڈر 2018ء کے عام انتخابات کے بعد یا اُس سے پہلے اور کِس مہینے کی چودھویں رات کو چودھویں کا چاند بن کر طلوع ہوں گے ؟۔ ایک فلمی شاعر نے اپنی محبوبہ سے مخاطب ہوکر کہا تھا…؎
’’ چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو؟
جو بھی ہو تُم خُدا کی قسم ، لا جواب ہو!‘‘
دراصل شاعر یہ فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ اُس کی محبوبہ ’’چودھویں کا چاند‘‘ (Full Moon) ہے یا حرارت اور روشنی کا منبع آفتاب ( سورج) ۔ چاند روشنی کے لئے سورج کا مرہونِ مِنّت ( محتاج) ہے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد جناب آصف زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے سُورج بن بیٹھے ہیں ۔ قدیم ہندو دیو مالا کے مطابق راجپوتوں کی دو بڑی شاخیں تھیں (اب بھی ہیں ) ’’ سورج ونشی‘‘ ( سُورج دیوتا کی اُولاد) اور ’’ چند ر ونشی‘‘ ( چاند دیوتا کی اُولاد ) جناب ذوالفقار علی بھٹو دراصل بھٹی راجپوت تھے ( سُورج ونشی راجپوت ) بلاول بھٹو زرداری اپنے والد آصف زرداری کے حوالے سے بلوچ (زرداری ) ہیں اور اپنے نانا جنابِ بھٹو کے حوالے سے سُورج ونشی راجپوت لیکن وہ ابھی تک سیاست کی روشنی/ حرارت جناب آصف زرداری سے لیتے ہیں۔
جنابِ آصف زرداری ستمبر 2008ء میں صدرِ مملکت کی حیثیت سے آسمانِ سیاست میں سُورج بن کر اُبھرے ۔اِس طرح کے سورج کے طلوع اور غروب ہونے کا وقت مقرر ہ / غیر مقررہ ہوتا ہے ۔ اب اُن کی حیثیت ڈوبتے سورج کی سی ہے ۔ شاعر نے نہ جانے کِسے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ …؎
’’حُسن والے حُسن کا انجام دیکھ
ڈُوبتے سُورج کو وقتِ شام دیکھ‘‘
اگرچہ جنابِ زرداری اپنے اعلان کے مطابق فی الحال ’’امریکہ اور برطانیہ کے دوروں اور دُبئی میں قیام کے بعد جرنیلوں کی اِینٹ سے اینٹ بجانے میں ‘‘ کامیاب نہیں ہو سکے لیکن اگر کسی وقت اُن کے فرزندِ ارجمند ( اُن سے روشنی لے کر ) کسی وقت چودھویں کا چاند بن کر طلوع ہو کر پاکستان کی قیادت کریں تو اُن سے زیادہ اور کِسے خوشی ہوسکتی ہے؟۔ چانڈیو صاحب سے بھی زیادہ۔ حضرتِ آتش ؔنے کسی اور موقع پر کہا تھا کہ…؎
’’طلوعِ ماہ ہے اور آفتاب شیشے میں‘‘
جناب رحمن ملک اور امریکہ باسی سیّد حسین حقانی کو جنابِ آصف زرداری کو شیشے میں اُتارنے کا فن آتا ہے ۔ بہت کامیاب رہے ۔ سرگودھا کے میرے مرحوم دوست شاعر سیّد ضامن علی حیدر نے کہا تھا…؎
’’یاد ہے ہم کو سبھی تین سو تیرہ دائو
اور پھر اُن کو لگانے کا بھی فن جانتے ہیں‘‘
جناب مولا بخش چانڈیو کتنے دائو جانتے ہیں اور اُن کے لگانے کا فن؟۔ مجھے اندازہ نہیں لیکن جب بلاول بھٹو زرداری چودھویں کا چاند بن کر طلوع ہوں گے تو مولا بخش چانڈیو بھی چمکدار ستارہ بن جائیں گے ۔ بلاول بھٹو زرداری اپنے نانا جنابِ بھٹو کی طرح خوبصورت ہیں ۔ بھٹو صاحب فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کی حکومت چھوڑ کر عوامی سیاست میں آئے تو حزبِ اختلاف کے بعض ’’بُڈھے ٹھیرے ‘‘ سیاستدان کہنے لگے کہ ’’ عوام بھٹو صاحب کی تقریریں سُننے کے لئے نہیں بلکہ انہیں دیکھنے کے لئے اُن کے جلسوں میں آتے ہیں‘‘۔
10 مارچ 1970ء کو مَیں باغ بیرون موچی دروازہ لاہور میں بھٹو صاحب کے جلسۂ عام کی پریس گیلری میں موجود تھا جب اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’ میرے مخالف کہتے ہیں کہ لوگ مجھے سُننے کے لئے نہیں بلکہ دیکھنے کے لئے آتے ہیں ‘‘۔ (پھر اُنہوں نے اپنے خوبصورت بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہُوئے کہا ’’ کیا مَیں کوئی دلیپ کمار ہوں‘‘۔ اُن دِنوں دلیپ کمار فلم بینوں میں بہت مقبول تھے اور عوام ( خاص طور پر نوجوان نسل کے لوگ ) بھٹو صاحب کو اُن کی خوبصورتی کے بھی نمبرز بھی دیتے تھے ۔ فرق یہ ہے کہ بھٹو صاحب کے والد ( سر شاہ نواز بھٹو ) بہت پہلے مرحوم ہو چکے تھے جب کہ جنابِ آصف علی زرداری نے ابھی تک اپنے واحد فرزندِ ارجمند کو ’’سیاسی طور پر بالغ ‘‘ نہیں ہونے دِیا۔ جنابِ زرداری کی پیپلز پارٹی پر اسی طرح کی گرفت رہی تو چانڈیو صاحب کے مفروضہ چودھویں کے چاند کو ’’ چاند گرہن‘‘ لگتا رہے گا ۔ 27 سالہ بلاول بھٹو زرداری سے زیادہ نوجوان نسل کی طرف سے 63 سالہ جناب عمران خان کو خوبصورتی کے زیادہ نمبر مِلتے ہیں ۔ ایک اور فلمی شاعر نے اپنی محبوبہ سے کہا تھا کہ …
’’ کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا
اُس نے کہا کہ وہ چاند ہے مَیں نے کہا چہرہ تیرا‘‘
المختصر۔ جب تک جنابِ زراری اپنے ’’ روحانی والد‘‘ اور ’’ اہلیہ ٔ مرحومہ‘‘ کی سیاسی وراثت پر غالب ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری کا چودھویں کے چاند کی حیثیت سے آسمان اقتدار پر چمکنا مشکل ہوگا ، البتہ مخالفین کی طرف سے اُن پر چاندماری ضرور ہوتی رہے گی۔
(روزنامہ نوائے وقت)  


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں