جمعہ، 19 اگست، 2016

آخر کب تک؟

نصرت جاوید

بدھ کی صبح آئین اور قانون کی چند کتابیں اپنی بغل میں دبائے بلوچستان سے قومی اسمبلی کے بارہا منتخب ہوئے پشتون قوم پرست، محمود خان اچکزئی، ایوان میں داخل ہوکر اپنے لئے مختص نشست پر براجمان ہوگئے تو پریس گیلری میں بیٹھے صحافیوں کو قرار آگیا۔ان میں سے اکثر نے اپنے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذریعے ”خبر“ کی صورت یہ پیش گوئی کی تھی کہ اچکزئی،گزشتہ ہفتے اسی ایوان میں چودھری نثار علی خان کی جانب سے ان کے خلاف ہوئی تقریر کا جواب بدھ کے روز ہوئے اجلاس میں دیں گے۔
اس سے قبل دھواں دھار جواب ملنے کی توقع قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف، خورشید شاہ سے بھی باندھی جارہی تھی۔ سکھر سے بار ہا منتخب ہونے والے پیپلز پارٹی کے اس قدیمی جیالے کو بھی وزیر داخلہ نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے گزشتہ ہفتے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ غصے کی انتہاءمیں چکری کے خاندانی راجپوت اور لاہور کے ایچی سن کالج میں عمران خان اور پرویز خٹک کے ساتھ پڑھے چودھری نثار نے انتہائی رعونت کے ساتھ یہ سوال بھی کر ڈالا کہ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ایک ”میٹرریڈر“قومی اسمبلی کا رکن کیسے بن گیا۔
یہ سوال اٹھاتے ہوئے چودھری نثار علی خان کو یاد ہی نہ رہا کہ ہمارے عوام کی بے پناہ اکثریت براہِ راست ووٹوں سے قائم ہوئی قومی اسمبلی کو بھی اپنا حقیقی نمائندہ اس لئے تسلیم نہیں کرتی کیونکہ اس میں ”میٹرریڈر“ نہیں،”خاندانی“ لوگ نمایاں نظر آتے ہیں۔ اگرچہ مجھے اکثر یہ خیال بھی آتا ہے کہ اگر انگریز پنجاب پر قابض نہ ہوتا۔ یہاں کے دریاﺅں سے نہریں نکال کر فیصل آباد جیسے شہر نہ بساتا۔راوی اور چناب کے درمیان پھیلے جنگلات کو نقدآور فصلیں دینے والے رقبوں میں تبدیل کرکے ان لوگوں میں تقسیم نہ کردیتا جنہوں نے 1857ءکے ”غدر“ پر قابو پانے کے لئے انہیں سپاہی،گھوڑے اور نقد رقوم پیش کی تھیں،تو ہمارے ”خاندانی“ کون لوگ ہوتے۔
انگریز کے بنائے رقبوں کو بطور انعام وصول کرنے کے بعد، بندوبستِ دوامی والے قانون کے صدقے ”خاندانی“بنائے جاگیرداروں کا تذکرہ سرکاری طورپر جاری کئے گزٹس میں بہت تفصیل سے ملتا ہے۔پنجاب کے ہر ڈسٹرکٹ سے تعلق رکھنے والے ان ”خاندانی“ جاگیرداروں کو انگریزی افسروں کے روبرو کرسی پر بیٹھنے کا ”حق“ عنایت کیا جاتا ۔انہیں ”آنریری مجسٹریٹ“ کی حیثیت میں اسی قسم کے فیصلے کرنے کی سہولت میسر ہوتی، جو ان دنوں جنوبی پنجاب،اندرونِ سندھ اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں ہوں تو میڈیا انہیں ”پنچائیت“ یا ”جرگہ“ کے نام پر بنی متوازی عدالتوں کا نام دیتا ہے۔ جرگہ یا پنچائیت کو ”ریاست کے اندر قائم ہوئی ریاستیں“ بتاکر ان کی مذمت کی جاتی ہے۔
بہرحال امید یہ باندھی جارہی تھی کہ ”جیہڑا واوے اوہی کھاوے“والے سوشلزم کی کئی دہائیوں تک نمائندہ بنی پیپلز پارٹی کے قدیمی جیالے،قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر وزیر داخلہ کو ”منہ توڑ “جواب دیں گے۔خورشید شاہ نے بذاتِ خود یہ جواب دینے کا اعلان بھی کررکھا تھا۔ گزشتہ ہفتے مگر وزیر اعظم ان کے چیمبر میں جاکر انہیں رام کرچکے تھے۔ وزیر اعظم کی اس کوشش کے باوجود ان ہی کے وزیر داخلہ نے اس واقعے کے بعد ہوئی ایک پریس کانفرنس کے ذریعے پیپلز پارٹی کے ساتھ پنجابی لطیفے والا Moreoverکرڈالا۔خورشید شاہ کو ”میٹرریڈر“ کہا تو ایان علی اور بلاول بھٹو زرداری کو محمود وایاز کی طرح ایک ہی صف میں بھی کھڑا کرڈالا۔ عزت کے نام پر قتل کے عادی معاشرے میں چودھری نثار جیسے لوگوں کی جانب سے ہوئی تقاریر کا جواب ضروری سمجھا جاتا ہے۔ میڈیا میں رونق بھی ایک دوسرے پر گند اُچھالتے سیاستدانوں کی بدزبانی کی بدولت ہی برقرار رہتی ہے۔
خورشید شاہ سے ملنے مگر وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس کے بعد نواز شریف ہی کے وزیر خزانہ چلے گئے۔نوازشریف کے بعد ان کے سمدھی کی جانب سے ہوئی داد فریاد نے ”میٹرریڈر“ کو غالباََ اپنی توہین نظرانداز کرنے پر مجبور کردیا۔چودھری نثار علی خان کے مداحین کے لئے اگرچہ اس پورے معاملے میں جیت بالآخر چکری سے اُٹھے اکل کھرے راجپوت ہی کو نصیب ہوئی۔
محمود خان اچکزئی کو رام کرنے کے لئے وزیر اعظم کے کیمپ سے البتہ کوئی کوشش نہیں ہوئی۔ان سے ملنا تو دور کی بات ہے،حکومت کے کسی اہم شخص نے نواز شریف کا پیغامبر بن انہیں فون تک نہیں کیا۔ اسی لئے بدھ کی صبح محمود خان کی بغل میں چند کتابیں تھیں۔ وہ ان میں سے حوالے دے کر سانحہ کوئٹہ کے تناظر میں اپنی جانب سے ادا ہوئی چند تلخ باتوں کا جواز فراہم کرنا چاہ رہے تھے۔
ٹھوس اطلاع میرے پاس یہ بھی ہے کہ اچکزئی کا ارادہ تھا کہ چودھری نثار علی خان کو وہ تلخ جملے بھی یاد دلائے جائیں گے جو موجودہ وزیر داخلہ اور ماضی میں ISIکے سربراہ جنرل پاشا کے مابین اس وقت ادا ہوئے جب چودھری نثار علی خان قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف ہوا کرتے تھے۔ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی پناہ گاہ پر امریکی حملے کے بعد قوم کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے پارلیمان کا ایک مشترکہ اجلاس "In Camera"ہوا تھا۔جنرل کیانی اور جنرل پاشااس اجلاس میں یہ بتانے ”طلب“ کئے گئے تھے کہ پاکستان کی خود مختار سرحدوں کی پائمالی کیونکر ممکن ہوئی۔چودھری نثار علی خان اس ضمن میں تلخ سوالات اٹھانے میں سب سے زیادہ بلند آہنگ تھے۔ جنرل پاشا نے ان کی بلند آہنگی کو ”ایک معاملہ پر ذاتی رنجش“ قرار دے کر عسکری انداز میں Dismissکردیا تھا۔
آپ سے کیا چھپانا؟ میں ان دنوں قومی اسمبلی کی کارروائی دیکھنے باقاعدگی سے نہیں جاتا۔بدھ کی صبح مگر معمول سے پہلے اُٹھ کر جمعرات کی صبح شائع ہونے والا ”برملا“ لکھا۔ اخبارات کے پلندے سے تیز تیز پڑھتے ہوئے جان چھڑائی۔دس بج گئے تو غسل کیا، خوشبو لگائی اور قومی اسمبلی کی طرف روانہ ہوگیا۔معمول سے ہٹ کر اپنائی میری یہ پھرتی درحقیقت اپنے دل میں موجود خواہشِ چسکہ کی تسکین کے لئے تھی۔ اچکزئی اور چودھری نثار علی خان کے درمیان غیرت کے نام پر قومی اسمبلی کے فلور پر ہوئے ممکنہ پارلیمانی مقابلے کو میں اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہ رہا تھا۔
قومی اسمبلی کے سپیکر کو مگر قانون سازی سے متعلق چند معاملات نمٹانے کی جلدی تھی۔ اچکزئی کی موجودگی کو بلی کی موجودگی میں کبوتر والا انداز اپناتے ہوئے انہوں نے نظرانداز کیا اور قانون سازی کے معاملات نمٹانے کے فوراََ بعد ”اچانک“ وہ صدارتی فرمان پڑھ ڈالا جس کے ذریعے قومی اسمبلی کا گزشتہ کئی دنوں سے جاری اجلاس ختم کردیا گیا۔
وہ اجلاس کے خاتمے کا اعلان کرکے اپنی نشست سے اُٹھ کر تیزی سے باہر نکل گئے۔ اچکزئی اپنے ہاتھ میں ایک چٹ لے کر اسے ہوامیں لہراتے ہوئے ہکا بکا کھڑے رہے۔”دیکھنے ہم بھی گئے پہ تماشہ نہ ہوا“والا مصرع استعمال کرکے میں اپنی اور پریس گیلری میں اپنے اداروں کے لئے چسکہ بھری رونق لگانے والی خبریں جمع کرنے کے لئے بیٹھے ساتھیوں کی مایوسی کا اظہار کرسکتا ہوں۔ یہ مصرع مگر اب کثرتِ استعمال سے مجھے یرقان زدہ دِکھنا شروع ہوگیا ہے۔
سوچ رہا ہوں کہ اپنی مایوسی کا سپیکر کی مدح سرائی کے ذریعے مداوا کروں۔ لکھ ڈالوں کہ انتہائی محتاط اور بردبار رویہ اختیار کرتے ہوئے سردار ایاز صادق نے اچکزئی اور چودھری نثار کے درمیان ممکنہ شوڈاﺅن کو ٹال کر نواز حکومت کے لئے شرمندگی کا باعث بن سکنے والے ایک اور واقعے سے بچالیا۔ مداح سرائی مگر میرا شیوہ نہیں۔
اچکزئی جوابی غزل نہیں کہہ پائے تو سوال میرے تخریبی ذہن میں صرف یہ اُٹھا کہ آخر کب تک اسحاق ڈار اور ایاز صادق،حتیٰ کہ خود نواز شریف بھی، اس حکومت کو اپنے چاپلوسانہ رویوںکے ذریعے ممکنہ ندامتوں سے بچاتے رہیں گے؟چودھری نثار علی خان کو روکنا اس حکومت کے بس میں نہیں۔چودھری صاحب بولیں گے توجواب بھی آئیں گے۔ حتمی شو ڈاﺅن کے امکانات ختم نہیں ہوئے۔ محض کچھ دنوں کے لئے ٹال دئیے گئے ہیں۔ اگرچہ سوال یہ بھی ہے کہ آخر کب تک؟
(روزنامہ نوائے وقت)  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں