اتوار، 21 اگست، 2016

بچوں کی محفل: نرالے طریقے


کتنی پیاری اور خوبصورت گڑیا ہے یہ کاش یہ میرے پاس ہوتی، اس بڑی سی دکان کے بڑے سے شوکیس میں رکھی ہوئی گڑیا کو دیکھ کر نازش نے دل ہی دل میں سوچا اور اس کے بڑھتے قدم وہیں تھم گئے ، اس کی نظریں شوکیس میں سجی گڑیا پر جم کر رہ گئی تھیں۔
دس سال کی عمر کی نازش پانچویں کلاس کی طالبہ تھی، تین سال پہلے ٹریفک کے ایک حادثے میں اس کے والد عرفان صاحب اپنی زندگی سے ہار کر اپنے خالق حقیقی کے پاس پہنچ چکے تھے اور تب سے ہی اس کی امی عقیلہ خاتون اس کی والدہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے والد ہونے کے فرائض بھی ادا کر رہی تھیں۔
روز ہی وہ اسکول سے گھر واپس جاتے ہوئے اس گفٹ سینٹر کے سامنے سے گزرتی تھی اور ہر روز ہی گفٹ سینٹر کے سامنے پہنچ کر اس کے قدم ٹھٹک جاتے اور نظر اس شوکیس میں رکھی خوبصورت گڑیا کے وجود پر جم جاتی تھیں، کافی دیر تک وہ شوکیس میں رکھی گڑیا کو نظر میں جمائے دیکھتی رہتی جیسے وہ اسے نظروں ہی نظروں میں اپنے دل میں اتار لے گی، نازش کو اس گڑیا کی آنکھیں خصوصی طور پر بہت پسند تھیں، تھیں بھی وہ آنکھیں بہت بڑی بڑی اور خوبصورت، ان میں بلا کی کشش تھی، وہ گڑیا کی طرف دیکھتی تو اسے محسوس ہوتا جیسے وہ گڑیا کو دیکھ رہی ہو اور مسکرا کر اسے خوش آمدید کہہ رہی ہو اور نازش بھی اس کی مسکراہٹ کے جواب میں مسکرا دیتی، یہ سلسلہ گزشتہ کئی دنوں سے جاری تھا۔
ایک دن نازش نے ہمت کر کے سیلز مین سے گڑیا کی قیمت پوچھ ہی لی، تین سو روپیہ، کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے سیلز مین نے جواب دیا اور یہ قیمت سن کر بے چاری نازش اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔
انکل اتنی مہنگی گڑیا، مگر میرے پاس تو اتنے سارے پیسے بھی نہیں ہیں۔ نازش بولی۔
تو بیٹی گھر جاؤ، یہاں رش مت لگاؤ، جب اتنے پیسے تمہارے پاس جمع ہو جائیں، تب گڑیا لے جانا آ کر، سیلز مین نے اس سے کہا اور نازش خاموشی سے سرجھکائے اپنے گھر واپس پہنچ گئی، اس کی آنکھیں بھر آئی تھیں، نازش اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کی امی مہینے بھر سخت محنت کرتی ہیں تب کہیں جا کر گھر میں دو وقت کا کھانا اور جیسے تیسے اس کے تعلیمی اخراجات پورے ہوتے ہیں۔
آج اگر میرے ابو زندہ ہوتے تو شاید، سوچتے ہوئے اس کا دل بھر آیا، جیسے تیسے اس نے کھانا تو کھا لیا مگر چہرے پر رنج و ملال کے بادل دیر تک قبضہ جمائے رہے ، لبوں کی مسکراہٹ ماند اور آنکھوں کے جگنو بجھ کر رہ گئے۔
اگلے دن اسکول سے چھٹی ملنے کے بعد وہ جب گفٹ سینٹر کے سامنے پہنچی تو اس کے بڑھتے قدم سینٹر کے سامنے ہی تھم گئے اس کی نظر میں اپنی پسندیدہ گڑیا کے وجود پر جم گئیں۔
پاپا آئسکریم والا، وہ دیکھیے ، ادھر نازش کی توجہ یہ آواز سن کر گڑیا کی طرف سے ہٹ گئی، دیکھا ایک چھ، سات سال کی بچی اپنے پاپا سے آئسکریم کھلانے کے لیے کہہ رہی ہے۔
بیٹے آج تو میں تمہیں آئسکریم ضرور ہی کھلاؤں گا، کہتے ہوئے اس کے پاپا نے اشارے سے آئسکریم والے کو قریب بلایا اور اپنی بیٹی کو آئسکریم دلوا دی۔
آئسکریم والے کو پیسوں کی ادائیگی کے بعد جب اس لڑکی کے پاپا اپنا پرس پینٹ کی جیب میں رکھنے لگے تو بے خیال وہ پرس وہیں گر گیا، نازش نے وہ گرا ہوا پرس اس وقت دیکھا جب وہ صاحب اپنی بیٹی کے ہمراہ وہاں سے جا چکے تھے۔
اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا پرس کو اٹھائے ، نازش نے جھک کر وہ پرس اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اپنے بستے میں رکھ کر گھر کی طرف بڑھنے لگی، وہ راستے میں کہیں اور نہیں رکی، گھر پہنچ کر ہی اس نے سانس لی۔
گھر آ کر اس نے بستہ اپنی جگہ رکھا، یونیفارم تبدیل کر کے گھریلو لباس زیب تن کیا، پھر منہ ہاتھ دھو کر کھانا کھانے بیٹھ گئی، کھانے سے فارغ ہوئی تو اسے پرس کا خیال آیا، بستے میں سے پرس نکالا…. اس میں ہزار اور پانچ پانچ سو والے کئی نوٹ تھے ، چھوٹا نوٹ تو ایک بھی نہیں تھا پرس میں، اتنے سارے روپے اتنی چھوٹی سی عمر میں اس نے پہلی مرتبہ دیکھے تھے ، وہ پریشان ہو گئی۔
اس کے دل کی دھڑکنیں بڑھ گئیں، نوٹوں سے بھرا پرس ہاتھ میں لیے وہ سوچ رہی تھی کہ ان کا کیا کرے ، دوسروں کے پیسے اپنے پاس رکھنا اچھی بات تو نہیں، اپنے پیسے تو وہی ہوتے ہیں جو اپنی محنت سے کام کر کے بطور اجرت حاصل کیے جائیں، جیسے اس کی امی سلائی، کڑھائی، بنائی کر کے پیسے کماتی ہیں، یہ پیسے اپنے پاس رکھ لیے تو خالق کائنات ناراض ہو جائے گا، پیارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہو گی یہ بات، پیارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم صادق کہلاتے تھے اور امین بھی، وہ ان کی امتی ہے ، وہ ان کی تعلیمات کے خلاف کیسے کر سکتی ہے ، یہ ساری باتیں ذہن میں آتے ہی نازش نے دوبارہ پرس کھول کر دیکھا، اس میں کئی خانے تھے۔ کئی پورشن تھے ، ایک پورشن میں اسے ایک وزیٹنگ کارڈ ملا، اس نے کارڈ نکال کر دیکھا، اس پر عبدالکریم خان اکاؤنٹس منیجر لکھا ہوا تھا، کمپنی کے نام کے ہی ساتھ ایک کونے میں فون نمبر بھی درج تھا، نازش نے اپنی امی کو یہ بات بتائی، امی خوش ہو گئیں، کہنے لگیں بیٹی تم نے یہ بہت اچھا کیا، لاؤ میں اس کمپنی کے نمبر پر فون کر کے پتا کرتی ہوں، اگر پرس کمپنی کے فرد کا ہے تو میں ان سے کہوں گی کہ وہ پرس کی نشانی اور پرس میں رکھی رقم کی تعداد بتا کر میرے گھر سے اپنا پرس لے جائیں۔
پھر نازش کی امی نے گلی کے پی سی او سے اس کمپنی کے نمبر پر فون کیا، اتفاق کی بات یہ کہ فون اٹھانے والے عبدالکریم خان صاحب ہی تھے ، نازش کی امی نے ان سے دریافت کیا۔ آج آپ کا کوئی پرس کھوگیا ہے ، جواب ملا۔ جی ہاں، یہ تقریباً ساڑھے بارہ بجے کی بات ہے ، آپ کون ہیں اور کہاں سے بات کر رہی ہیں۔ کیا آپ کو میرے پرس کے متعلق کچھ معلوم ہے۔
نازش کی امی نے عبدالکریم خان کو یہ بات بتا دی کہ آپ کا پرس میری بیٹی کو اسکول سے گھر آتے ہوئے ملا تھا، آپ یہ بتائیں اس پرس میں آپ کی کتنی رقم ہے۔
عبدالکریم خان نے پرس میں موجود رقم کی تعداد بتا دی، جو بالکل صحیح تھی، نازش کی امی نے اب اپنے گھر کا پتا عبدالکریم خان کو اچھی طرح سمجھا دیا اور کہا وہ شام کو اس پتے پر آ کر اپنا پرس واپس لے جائیں۔
شام ہوئی تو عبدالکریم خان دیے ہوئے پتے پر نازش کے گھر پہنچ گئے ، انہوں نے پرس ہاتھ میں لے کر رقم گنی جو پچیس ہزار پوری تھی، انہوں نے نازش کو دیکھا، گھر کی حالت کا اندازہ لگا کر کہا۔ بیٹی اتنی بڑی رقم دیکھ کر تمہارے دل میں ذرا بھی خیال نہ آیا کہ اسے واپس کر دینے کے بجائے اپنے ہی پاس رکھ لو، اتنی رقم سے تمہاری کتنی ضروریات پوری ہوسکتی تھیں۔
نازش نے کہا: انکل ضروریات رقم سے نہیں اللہ تعالیٰ کی مدد، اس کے فضل و کرم سے پوری ہوتی ہیں، میری امی نے مجھے بتایا ہے اور یہ تربیت دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے ، جو اس کے امتحان میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان کو اپنے فضل و کرم، اپنی رحمتوں سے نوازتا ہے ، یہ پیسہ تو چند روز کی ہی ضرورت پوری کر سکتا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ کی رضا، اس کی رحمت تو تمام زندگی کام آتی ہے۔
عبدالکریم خان نازش کایہ جواب سن کر خوش ہو گئے ، انہوں نے کہا، افشاں میری بیٹی ہے ، آج سے تم اس کی بڑی بہن، تم بھی ہمارے ہی ساتھ رہو گی، کہہ کر وہ نازش کو اس کی امی کے ساتھ اپنے گھر لے آئے۔
اب نازش ایک اچھے صاف ستھرے ماحول میں رہ رہی تھی، اس کے پاس وہ گڑیا بھی تھی جسے دیکھنے کے لیے وہ گفٹ سینٹر کے سامنے رک جاتی تھی، وہ سوچ رہی تھی واقعی اللہ تعالیٰ کے دینے اور نوازنے کے طریقے بھی نرالے ہیں۔
(مزیدار-کہانیاں)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں