جمعرات، 14 جولائی، 2016

پاکستان میں 9 آسیب زدہ مقامات ہونے کے دعوے


بعض افراد مافوق الفطرت مخلوق اور جنات پر بالکل یقین نہیں رکھتے ۔ لیکن ان کا وجود ایک حقیقت ہے ۔پاکستان میں بھی کچھ ایسی ہی جگہیں ہیں جہاں کئی افراد نے کچھ غیر معمولی ‘سائے ’ یا سرگرمیوں کو دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے ۔پہلی جگہ کوہ چلتن بلوچستان ہے ،چلتن کے پہاڑی علاقہ میں واقع سب سے بلند چوٹی جسے کوہ چلتن کہا جاتا ہے ایک پراسرار جگہ ہے ۔ چلتن دراصل فارسی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب 40 مردے ہیں۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یہاں 40 بچوں کی رونے کی آوازیں اکثر و بیشتر سنائی دیتی ہیں۔موہٹہ پیلس کراچی میں کام کرنے والے عملہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اکثر یہاں غیر معمولی سرگرمیاں دیکھی ہیں۔یہاں چیزیں خود بخود اپنی جگہ سے حرکت کرتی ہیں۔ڈالمیا روڈ کراچی پرآدھی رات کو سفر کرنے والے اکثر افراد نے ایک ‘دلہن’ کو دیکھا ہے ۔ اسے کارساز کی دلہن کا نام دیا جاتا ہے اور وہ خوفناک چڑیل کا روپ دھار لیتی ہے ۔جھیل سیف الملوک ناران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ رات کے وقت یہاں پریاں اترتی ہیں اور اپنی ساتھی کی موت پر روتی اور بین کرتی ہیں۔ہاکس بے ہٹ کراچی آسیب زدہ مشہور ہے اور اسے کوئی کرایہ پر نہیں لے سکتا۔ اگر کوئی یہ حماقت کرے تو وہ صبح ہونے سے قبل ہی چیختا ہوا ہٹ سے باہر آجاتا ہے ۔شمشان گھاٹ حیدر آبادبھی آسیب زدہ مشہور ہے ۔ عملے کا کہنا ہے کہ رات کے وقت یہاں اکثر بچے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں جو صبح سورج نکلنے سے قبل غائب ہوجاتے ہیں۔رات بھر پراسرار آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔شیریں سینماکراچی کو بند کردیا گیا کیونکہ یہاں غیر معمولی ‘سرگرمیاں’ دیکھنے میں آرہی تھیں۔ عملے کے مطابق سینما جب خالی ہوتا تو وہاں سے اکثر گانے اور ہنسنے کی آوازیں آتیں۔ اکثر بڑی سکرین پر کچھ لوگوں کے ہیولے بھی نظر آتے حالانکہ سینمامیں کوئی نہیں ہوتا۔چوکنڈی قبرستان کراچی600 سال قدیم اور اسے آسیب زدہ کہا جاتا ہے ۔قریب کی آبادیوں میں رہائش پذیر افراد کا کہنا ہے کہ شام ہوتے ہی یہاں پراسراریت کا راج ہوجاتا ہے اور یہاں سے غیر مانوس آوازیں اور ہیولے نظر آتے ہیں۔قلعہ شیخوپورہ نہایت ابتر حالت میں ہے اور کوئی بھی اسے درست کروانے کی ہمت نہیں رکھتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مقامی افراد کے مطابق کئی صدیاں قبل اس قلعہ میں رہنے والی ملکہ کی روح اب بھی یہیں رہتی ہے اور وہ غیر متعلقہ افراد کی موجودگی سخت ناپسند کرتی ہے ۔
(دنیا نیوز)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں