ریزہ ریزہ بکھر گئے ہم بھی
کشتِ جاں سے گزر گئے ہم بھی
وقت ناساز گار تھا پھر بھی
کچھ نہ کچھ کام کر گئے ہم بھی
ہم کہ صبحِ ازل کے بھولے تھے
شام آئی تو گھر گئے ہم بھی
کچھ تو ظلمت کا تُند تھا ریلا
کچھ مثالِ شرر گئے ہم بھی
بجھ گئی آرزُو کی چنگاری
جس کے بجھتے ہی مر گئے ہم بھی!
باغِ ہستی میں پُھول کی مانند
دو گھڑی شاخ پر گئے ہم بھی
پاسِ عہد وفا رہا اختر
یوں تو ڈرنے کو ڈر گئے ہم بھی
اختر
ضیائی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں