بدھ، 13 جولائی، 2016

وال پیپر: ”وزیر اعظم کی واپسی”


وزیراعظم میاں نواز شریف مکمل طور پر صحت مند ہوکر پاکستان واپس پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے جہاز کی سیڑھیاں کسی سہارے کے بغیر اُتر کر اپنی صحت مندی کا ثبوت فراہم کردیا۔ وزیراعظم کی صحت کی خبر پاکستانی قوم کیلئے حوصلہ افزاء ہے کیونکہ پاکستان کو مکمل طور پر صحت مند چیف ایگزیکٹو کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے ائیر پورٹ پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ وہ نئی تاریخ رقم کرینگے اور نئے جذبے کے ساتھ مسائل کا سیاسی حل تلاش کرینگے۔ نئی تاریخ رقم کرنے کا عزم ناقابل فہم ہے کیونکہ میاں نواز شریف اپنا باب لکھ چکے جس کا درست تجزیہ آنے والے مؤرخ کرینگے۔ اخباری رپورٹ کیمطابق وزیراعظم کی واپسی کیلئے پی آئی اے کے کمرشل طیارے پر عوام کے ٹیکسوں کے تیس کروڑ روپے صرف ہوئے جو ایک ریکارڈ ہے۔ اگر وزیراعظم کو قوم کے بیت المال اور اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس ہوتا تو وہ متبادل انتظام کرکے قوم کا خزانہ بچا بھی سکتے تھے۔ وہ وزیراعظم کیلئے مختص وی آئی پی طیارے پر سفرکرسکتے تھے مگر یہ طیارہ شاید ’’محفوظ‘‘ نہ سمجھا گیا۔ میاں نواز شریف ایشیا کے مہنگے ترین وزیراعظم ثابت ہوئے۔ دانشور درست کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف اپنے دشمن آپ ہیں اور ایسے اقدامات کرتے ہیں جو انکی شخصیت کو متنازعہ بناتے ہیں اور ایسے اقدامات سے گریز کرتے ہیں جو انکی شہرت اور ساکھ میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ مقتدر قوتوں کا آسان ٹارگٹ بن جاتے ہیں۔
ہر خاص و عام مطالبہ کررہا ہے کہ کل وقتی وزیرخارجہ نامزد کیا جائے مگر وزیراعظم رائے عامہ کو اہمیت نہیں دیتے۔ ریاست کا نظم و نسق مستعدی سے چلانے کیلئے لازم ہوتا ہے کہ وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لیکر کابینہ میں ردوبدل کیا جائے۔ وزیراعظم نے 2013ء میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ وزیروں کی مانیٹرنگ کی جائیگی اور کارکردگی کا جائزہ لیا جائیگا مگر وزیراعظم اپنا وعدہ پورا کرنے سے قاصر رہے جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ انہیں پاکستان کی ریاست کا کوئی درد نہیں ہے۔ آپریشن ضرب عضب کا تقاضہ ہے کہ وزیراعظم وزیرستان کے اگلے مورچوں میں جاکر پاک فوج کے جوانوں کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ فوج اور عوام میں انکے بارے میں پسندیدگی کے جذبات پیدا ہوں۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل(ر) احسان الحق کے مطابق چین کی قیادت حکمران اشرافیہ کو ہمیشہ یہ مشورہ دیتی رہی ہے کہ باتیں کم اور کام زیادہ کریں۔ وزیراعظم کو اس مشورے پر عمل کرنا چاہیئے۔ اشتہاروں پر قوم کا پیسہ ضائع کرنے کی بجائے عملی اقدامات کریں۔ میاں نواز شریف کے بارے میں مقبول عام تاثر یہ ہے کہ وہ اداروں کو غیر فعال بنادیتے ہیں جس سے بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ وزیراعظم اگر سیاسی بحران سے باہر نکلنا چاہتے ہیں تو انہیں ایک ماہ کے اندر چند اقدامات ترجیحی بنیادوں پر اُٹھانے چاہئیں۔ وہ مہنگائی کنٹرول کریں، احتساب کیلئے ٹی او آرز پر اتفاق رائے پیدا کریں۔ معطل اور مفلوج الیکشن کمیشن کو فعال بنائیں۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلا کر سول ملٹری ٹینشن ختم کرائیں۔ وزیراعظم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ظلم و ستم اور ریاستی دہشتگردی پر مذمتی بیان جاری کریں تاکہ ان کا عوامی تاثر بہتر ہوسکے۔ انکی مودی کے ساتھ بڑی قربت ہے‘ مودی کو فون کرکے اپنے جذبات سے آگاہ کریں۔سرتاج عزیز صاحب کیمطابق فاٹا اصلاحات کا ڈرافٹ تیار ہے وزیراعظم بلاتاخیر اسکی منظوری دیں۔ مردم شماری کا کام فوری طور پر شروع کرایا جائے۔ اپوزیشن وزیراعظم کیخلاف صف بندی کررہی ہے۔ وزیراعظم متحرک اور فعال کردار ادا کرکے ہی اپوزیشن کے منصوبوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اگر انہوں نے شاہانہ انداز حکومت اور طرز سیاست جاری رکھا تو ان پر اس قدر دبائو آئیگا کہ انکے پاس چہرہ بدلنے یا نئے انتخابات کرانے کے سوا اور کوئی چارہ کار باقی نہیں رہے گا۔ اس طرح ان کا سیاسی مستقبل ہی خطرے میں پڑ جائیگا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں