اتوار، 10 جولائی، 2016

یہ تهے عبدالستار ایدھی صاحب جو جہاں فانی سے کوچ کر گئے

گجرات کے گاؤں بانٹوا کا نوجوان عبدالستار گھریلو حالات خراب ہونے پر کراچی جا کر کپڑے کا کاروبار شروع کرتا ہے کپڑا خریدنے مارکیٹ گیا وہاں کسی شخض نے کسی شخض کو چاقو مار دیا زخمی زمین پر گر کر تڑپنے لگا لوگ زخمی شخض کے گرد گھیرا ڈال کر تماشہ دیکھتے رہے وہ شخض تڑپ تڑپ کر مر گیا نوجوان عبدالستار کے دل پر داغ پڑ گیا سوچا معاشرے میں تین قسم کے لوگ ہیں دوسروں کو مارنے والے مرنے والوں کا تماشہ دیکھنے والے اور زخمیوں کی مدد کرنے والے نوجوان عبدالستار نے فیصلہ کیا وہ مدد کرنے والوں میں شامل ہو گا اور پھر کپڑے کا کاروبار چهوڑا ایک ایمبولینس خریدی اس پر اپنا نام لکها نیچے ٹیلی فون نمبر لکھا اور کراچی شہر میں زخمیوں اور بیماروں کی مدد شروع کر دی وہ اپنے ادارے کے ڈرائیور بهی تهے آفس بوائے بهی ٹیلی فون آپریٹر بهی سویپر بهی اور مالک بهی وہ ٹیلی فون سرہانے رکھ کر سوتے فون کی گھنٹی بجتی یہ ایڈریس لکهتے اور ایمبولینس لے کر چل پڑتے زخمیوں اور مریضوں کو ہسپتال پہنچاتے سلام کرتے اور واپس آ جاتے- عبدالستار ایدھی فجر کی نماز پڑھنے مسجد گئے وہاں مسجد کی دہلیز پر کوئی نوزائیدہ بچہ چهوڑ گیا مولوی صاحب نے بچے کو ناجائز قرار دے کر قتل کرنے کا اعلان کیا لوگ بچے کو مارنے کے لیے لے جا رہے تھے یہ پتهر اٹها کر ان کے سامنے کهڑے ہو گئے ان سے بچہ لیا بچے کی پرورش کی - یہ لعشیں اٹهانے بهی جاتے تھے پتا چلا گندے نالے میں لعش پڑی ہے یہ وہاں پہنچے دیکھا لواحقین بهی نالے میں اتر کر لعش نکالنے کے لیے تیار نہیں عبدالستار ایدھی نالے میں اتر گئے لعش نکالی گهر لائے غسل دیا کفن پہنایا جنازہ پڑهایا اور اپنے ہاتھوں سے قبر کهود کر میت دفن کر دی بازاروں میں نکلے تو بے بس بوڑھے دیکهے پاگلوں کو کاغذ چنتے دیکھا آوارہ بچوں کو فٹ پاتهوں پر کتوں کے ساتھ سوتے دیکها تو اولڈ پیپل ہوم بنا دیا پاگل خانے بنا لیے چلڈرن ہوم بنا دیا دستر خوان بنا دیئے عورتوں کو مشکل میں دیکھا تو میٹرنٹی ہوم بنا دیا لوگ ان کے جنون کو دیکھتے رہے ان کی مدد کرتے رہے یہ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ایدهی فاؤنڈیشن ملک میں ویلفیئر کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا یہ ادارہ 2000 میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی آ گیا ایدھی صاحب نے دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس بنا دی عبدالستار ایدھی ملک میں بلا خوف پهرتے تهے یہ وہاں بهی جاتے جہاں پولیس مقابلہ ہوتا تھا یا فسادات ہو رہے ہوتے تھے پولیس ڈاکو اور متحارب گروپ انہیں دیکھ کر فائرنگ بند کر دیا کرتے تھے ملک کا بچہ بچہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے بعد عبدالستار ایدھی کو جانتا ہے ایدھی صاحب نے 2003 تک گندے نالوں سے 8 ہزار لعشیں نکالی 16 ہزار نوزائیدہ بچے پالے انہوں نے ہزاروں بچیوں کی شادیاں کرائی یہ اس وقت تک ویلفیئر کے درجنوں ادارے چلا رہے تھے لوگ ان کے ہاتھ چومتے تهے عورتیں زیورات اتار کر ان کی جهولی میں ڈال دیتی تهیی نوجوان اپنی موٹر سائیکلیں سڑکوں پر انہیں دے کر خود وین میں بیٹھ جاتے تهے
تو جناب یہ تهے عبدالستار ایدھی صاحب جو آج جہاں فانی سے کوچ کر گئے ہیں اور پوری قوم کو سوگوار چھوڑ گئے۔
یااللہ ایدھی صاحب کی مغفرت فرما ،ان کے درجات بلند فرما ،انھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرما اور ان کے اہل و عیال کو صبرِ جمیل عطا فرما ۔۔۔آمین
(اسداللہ بلوچ کی وال سے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں