
پروانہ کی شمع سے محبت کی ایک کہانی عرض کرتا ہوں...
ایک مکھی , پروانوں کے جھنڈ میں آئی اور کہنے لگی کہ مجھے اپنے ساتھ شامل کر لو....
پروانوں نے انکار کر دیا...لیکن مکھی نے بہت ضد کی کہ مجھے اپنے ساتھ شامل کر لو....لیکن بات نہ بنی... آخر مکھی نے کہا کہ کم از کم مجھے اپنے ساتھ شامل نہ کرنے کی وجہ ہی بتا دی جائے....
ایک سیانے پروانے نے کہا کہ تم رات کے وقت ہمارے پاس آنا , ہم تمہیں وجہ بتا دیں گے....
رات ہوئی تو مکھی دوبارہ حاضر ہوئی....
سیانے پروانے نے کہا کہ ایک پروانہ اور مکھی جاو اور دیکھو کہ کہیں شمع جل رہی ہے یا نہیں....
مکھی اور پروانہ اُڑ گئے....کچھ دیر کے بعد مکھی واپس آئی اور بتایا کہ شہر میں بے شمار شمع جل رہی ہیں.......اچانک مکھی نے دیکھا کہ وہ پروانہ جس نے مکھی کے ساتھ اُڑان بھری تھی وہ محفل میں موجود نہ تھا....مکھی نے پوچھا کہ کیا وہ واپس نہیں آیا ??
تو سیانے پروانے نے اسے کہا...کہ یہی وجہ ہے کہ ہم تمہیں اپنے ساتھ شامل نہیں کر سکتے....تمہاری فطرت گندی جکہ پر بیٹھنا ہے....مگر جس راہ پر ہم چل رہے ہیں اس میں واپسی کا راستہ نہیں ہے...
اس راہ کا نام محبت ہے....شمع سے محبت ہمیں اس میں فنا کر دیتی ہے...ہم شمع کی محبت میں جان کی بازی ہار دیتے ہیں...بس یہی ہماری راہ ہے...مکھی کو بات سمجھ میں آ گئی اور وہ شرمندہ ہو کر اُڑ گئی.....
تو دوستو!! یہ کہانی بیان کرنے کا مقصد , علامہ اقبال کے اِس شعر کا خلاصہ کرنا ہے....یہ وہی شعر ہے جس کو ہر طالبِ علم , ہر سکول میں صبح سویرے , ۱۰ سال دہراتا رہتا ہے.....انہی طالب علموں میں سے ایک میں بھی ہوں...مجھے اس شعر کی سمجھ تب آئی جب میں نے پروانے کو اپنی آنکھوں سے شمع میں جلتے دیکھا....آپ جانتے ہی ہیں میں کس شعر کی بات کر رہا ہوں...جی ہاں یہ وہی شعر ہے...ملاحظہ کیجئے....
زندگی ہو میری پروانے کی صورت یا رب...
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب...
(گوہر فیاض : عشق ’’انا الحق‘‘ بول رہا ہے )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں