ہفتہ، 16 جولائی، 2016

عجیب اور دلچسپ : مثالی خدمت


نعام ندیم صاحب کا تعلق سندھ سے ہے آپ تعلیم و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، ایک بہت عمدہ شاعر ہیں آپ کا اختصاص غز ل ہے اور آپ غزل میں ایک منفرد لہجے کی وجہ سے نمایاں طور پر پہچانے جاتے ہیں، آج کل امریکہ میں مخصر مدت کے لیے قیام پزیر ہیں، پچھلے دنوں انہوں نے وہاں یونیورسٹی میں پیش آنے والے ایک واقعے کا ذکر کیا جو خودا ن کے لیے کافی حیران کن بھی تھا اور ہمارے معاشرے کے لیے سبق آموز بھی،اندازہ لگائیں کہ ہم کسی انسان کی مدد کرنے اور اسے آسانی فراہم کرنے میں کتنے متحرک ہیں اور اس مغربی معاشرے کے شہری ایک دوسرے کی آسانیوں کے لیے کیا کچھ کرتے ہیں ،وہ یوں رقم طرا ز ہیں، یونیورسٹی کیمپس میری رہائش سے کچھ 20 منٹ کی پیدل مسافت پر ہے۔ روز سویرے، بھاگم بھاگ کلاس میں پہنچتا ہوں کہ کلاس ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے شروع ہوجاتی ہے۔ دو دن ہوئے جلدی جلدی قدم اٹھاتا میں کیمپس کو چلا جارہا تھا کہ راستے میں اْس تھیلے سے کچھ نکالنے کی ضرورت پیش آئی، جسے میں دن بھر کاندھے پر لٹکائے رہتا ہوں۔کچھ افراتفری اور کسی قدر عجلت میں، تھیلے سے سامان نکالتے دھرتے، پلاسٹک کے ڈبے میں بند میری عینک وہیں سڑک پر گر گئی۔ مجھے معلوم ہی نہ ہو سکا۔ شام کو عینک کی ضرورت محسوس ہوئی تو معلوم ہوا عینک ندارد ہے۔ مجھے یاد بھی نہیں آرہا تھا کہ عینک کہاں کھوئی ہے۔ خیر، بس افسوس کرکے رہ گیا، اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ میں روز ایک ہی راستے سے کیمپس آتا جاتا ہوں۔ ایک دن بیت گیا۔ آج صبح جب میں اْسی راستے سے کیمپس جارہا تھا تو فْٹ پاتھ پر، ایک جگہ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر، بڑے بڑے الفاظ میں کچھ لکھا تھا۔ کاغذ کو موم جامے سے منڈھ دیا گیا تھا تاکہ وقت بے وقت برس پڑنے والی بارش سے خراب نہ ہوجائے اور اس کے کناروں کو پتھروں کے نیچے دبا دیا گیا تھا تاکہ ہوا سے اْڑ نہ جائے۔ میں چلتا چلتا رْک گیا اور قریب جا کے پڑھا تو اس ملک کے لوگوں کی ایمانداری، خوش خلقی، نیکی اور احساس ذمہ داری کی جتنی داستانیں سنی تھیں اس کا یقین آ گیا۔ ٭…٭…٭
 (دنیا نیوز)
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں