منگل، 19 جولائی، 2016

وال پیپر: اُچکنا اچکزئی کا!



زبان سے نکلا ہوا لفظ اور کمان سے نکلاہوا تیر کبھی واپس نہیں آتے۔ہمارے سیاستدانوں نے یہ وطیرہ بنالیا ہے کہ اپنے خبث باطن کا اظہارکرتے ہیں، جب عوامی سطح پر صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے تو صاف مکرجاتے ہیں۔ ایک گھسا پٹا جملہ نوک زبان پر رکھ لیتے ہیں۔ میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ جب تک ٹیکنالوجی نے ترقی نہیں کی تھی، ان کا عذرلنگ طوہاً کرہاً قبول کرلیا جاتا تھا۔ اب کیمرے کی آنکھ ہرچیز کو محفوظ کرلیتی ہے، الفاظ کا زیروبم، لب و لہجہ، جملوں کی ساخت، ایکشن ری پلے سے ہر جملے کو دس دس مرتبہ دکھایا اور دہرایا جاتا ہے، کسی قسم کے ابہام کی گنجائش نہیں رہتی۔ اس سے پہلے محترم آصف علی زرداری صاحب نے بھی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی تھی، آجکل لندن کی سردہواؤں میں بیٹھ کر اس گرما گرم جملے کو اپنی مرضی کا چولا پہنا رہے ہیں۔ فی الحال واپسی کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اینٹ سے اینٹ بجنے کا اندیشہ انہیں روکے ہوئے ہے۔

اچکزئی صاحب نے ان سے بھی بڑی بات کی ہے، انہیں اگرشاخوں سے شکوہ تھا تویہ حضرت درخت کو جڑسے کاٹنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ ساری قوم حیران ہے کہ ان کوبیٹھے بٹھائے کھجلی کیوں ہوئی ہے۔ کفران نعمت کی اس سے بڑی مثال نہیں دی جاسکتی۔ اس ملک میں یہ پلے بڑھے ہیں، وطن عزیز نے ان کو شناخت دی ہے۔ اگرایک ہاتھ حکومت کی جیب کے اندر ہے تودوسرے سے خان بابے نے اس کا گریبان پکڑرکھا ہے۔ بھائی گورنرہے، خود ممبراسمبلی ہیں عزیزرشتہ داروں کی ایک لمبی قطار اسمبلیوں کے اندر ہے۔ گویاپانچوں گھی میں ہیں اور ’’پنگ پانگ ہیڈ‘‘ کڑاہی میں ہے۔ اگر افغانستان میں ہوتے توکیا ہوتے؟ کسی پہاڑ کی کھوہ میں ’’پھلادی دانتن‘‘ سے مسواک کررہے ہوتے یا ڈھیلوں سے طہارت کے اسباب نکالتے۔

تامردسخن نہ گفتہ باشد، عیب وہنرش نہفتہ باشد۔ انگریزی زبان میں اس فارسی محاورے کو کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے۔

Man when speaks he either betrays ignorance or showers wisdom

حضرت تاریخی شعور تویقینا نہیں رکھتے، جغرافیے کو بھی مسخ کردیا ہے۔ جب انگریز رخصت ہوا توبرٹش انڈیا جوں کا توں ہندوستان اور پاکستان کو مل گیا۔ چین جسے باؤنڈری لائن پر تحفظات تھے، پاکستان کا استدلال مان گیا اور تقسیم کے وقت کی بائونڈری لائن کو تسلیم کرلیا۔ ایران کے ساتھ ایک طویل بارڈرہے۔ انہوں نے اسے Fait Accompli سمجھ لیا۔ افغانستان ڈیورنڈلائن کو نہیں مانتا، وہ اس میں کچھ ردوبدل چاہتا ہے۔ اچکزئی صاحب توعملاً اسے دریائے سندھ تک لے آئے ہیں۔ افغانستان اس وقت ایک طویل خانہ جنگی کا شکار ہے، اس کیلئے اپنا وجود برقرار رکھنا محال ہورہا ہے۔ یہ ایک مسلمہ امرہے کہ جس دن امریکی فوجیں ملک سے نکل گئیں یہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیگا۔ فارسی بولنے والا شمالی علاقہ کبھی بھی پشتوبولنے والوں کے ساتھ نہیں رہے گا۔ رشیددوستم وغیرہ بھی ایک طویل جنگ لڑچکے ہے۔ اب وہ خاصے مضبوط ہوچکے ہیں۔ ایران انکے پیچھے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا ہے۔ غیرملکی فوجوں کے انخلا ء کی صورت میں طوائف الملوکی کا دوردورہ ہوگا۔ فیوڈل سردار اپنے اپنے قبیلے اورعلاقے کے مالک ومختار ہوں گے، کرزئی اپنا سبزچغہ اتار کر امریکہ بھاگ جائیگا۔ اشرف غنی ایک جھٹکے کی مار ہے۔ افغان فوج تتربتر ہوجائیگی۔ کچھ توطالبان سے جاملیں گے اور باقی اگر بچ گئے تو جہاں سینگ سمائیں گے چلے جائیں گے۔ عبداللہ عبداللہ کو بخوبی علم ہے کہ اسکی منزل مقصود کہاں ہے؟ الغرض Doom's Day Scenerio ہوگا، ان حالات میں ڈیورنڈ لا ئن کو کون یاد رکھے گا۔

اچکزئی کے بیان کا محرک وہ جھڑپیں ہیں جوحال ہی میں پاک افغان فوجوں کے درمیان طورخم بارڈر پر ہوئی ہیں۔ دہشت گردوں کی نقل وحرکت کو روکنے کیلئے پاکستان چیک پوسٹ بنارہا ہے۔ عام آدمی حیران ہوتا ہے کہ افغانستان کی غیر منظم فوج کو جرأت کیسے ہوئی کہ وہ اتنی بڑی طاقت سے ٹکرلے۔ اس کو سمجھنے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے

سر آئینہ میرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے

’’سی پیک‘‘ معاہدے نے ہندوستان اور امریکہ کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ سابق صدر نکسن نے اپنی کتاب Real War میں لکھا تھا کہ ایک وقت آئیگا جب چین دنیا کی عظیم طاقت بن جائیگا۔ وہ وقت قریب آن پہنچا ہے۔ اس منصوبے سے لامحالہ پاکستان کو بھی عسکری اور اقتصادی طور پر بہت فائدہ پہنچے گا۔ یہ سوچ ہی امریکہ اورہندوستان کیلئے سوہان روح ہے۔

طورخم بارڈر پر جھڑپ انہی اندیشہ ہائے دُور دراز کاشاخسانہ ہے، وگرنہ افغانستان کی رگ جان پاکستان کے پنجے میں ہے۔ اسکی ساری درآمدات پاکستان کے راستے سے ہوتی ہیں۔ اگر چند ہفتے بھی اس سپلائی لائن میں تعطل آجائے توسارا ملک قحط سالی کا شکار ہوجائیگا۔ بیس لاکھ افغان باشندے پاکستانی دھرتی کا بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ ذرا سوچیں اگر انہیں واپس دھکیل دیا جائے تو افغان معیشت کا کیا بنے گا؟ سارا ملک امریکی امداد پر زندہ ہے، امریکہ میں بھی صدائے احتجاج بلند ہونی شروع ہوگئی ہے کہ کب تک ان مفلوک الحال لوگوں کی کفالت کرنا ہوگی‘ جو جنگ جیتی نہ جاسکے، اسکے لڑنے کا کیا فائدہ ہے۔ اگر پاکستان ضرب عضب شروع نہ کرتا تواب تک افغان فوجوں کابولورام ہوچکا ہوتا۔ امریکہ بچی کھچی فوج نکال کرلے گیا ہوتا اور سارے افغانستان میں متحارب گروپ ایک دوسرے کے خون میں ہاتھ رنگ رہے ہوتے۔

ان معروضی حالات میں اچکزئی کو بڑی دُور کی سوجھی ہے، لگتا ہے انہوں نے آنکھیں، کان اور ناک بندکررکھا ہے۔ بین الاقوامی بارڈر تاریخی حقیقتوں کے تحت بدلتے رہتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہندوستان پر برطانیہ کا راج تھا۔ کیا سارا ملک برطانیہ کو لوٹا دیا جائے۔ جس خطے میں حضرت رہتے ہیں، کبھی عربوں اور ایرانیوں کے قبضے میں تھا۔ اگروہ دعویٰ کربیٹھیں تو پھرکیا ہوگا؟ اس سے پہلے سکندریونانی بھی اس علاقے سے گزرا ہے۔ میر نصیرخان کے وقت سندھ کے کچھ حصے ریاست قلات میں آتے تھے، کیا خان صاحب چاہیں گے کہ ان کو بلوچستان میں شامل کرلیا جائے۔ گوادرسلطان مسقط کے پاس تھا۔ میردوستین اور نصیرخان دوم نے ناکام لشکرکشی کی۔ پاکستان نے اس کو مسقط سے خریدا ہے۔ کیا اس کو فیڈرل ایریا شمارکیا جائے ؟ ان تاریخی حقائق کی روشنی میں Where Do you Draw the Line? ۔خان صاحب کوچاہیے کہ اپنی حد میں رہیں اور ٹھنڈے دودھ کو پھونکیں نہ ماریں۔ حکومت کے بازوئے شمشیرزن کو چاہیے کہ عمران کی مذمت توہوتی رہے گی کچھ خان کے بارے میں گوہرافشانی کریں۔
(روزنامہ نوائے وقت)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں