ٹیپ بال کے پروفیشنل کھلاڑی لاکھوں کا جوا کھیلتے ہیں، اصل کرکٹ اکیڈیمیوں میں گھس گئی ہر بازار اور سڑک پر محلے بھر کے لڑکے ہیوی واٹ کی سرچ لائٹیں بذیعہ کنڈے لگاتے ہیں اور ساری رات بھرپور ٹیپ بال کھیلتے ہیں ، نہ خود سوتے ہیں اور نہ ہی اہل محلہ کو سونے دیتے ہیں
ذرا اس منظر پر غور کریں ، ایک کھلامیدان جس کے ایک کونے پر کوڑے کا ڈھیر لگا ہے اورسارا علاقہ اپنا کچرا یہاں پھینکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کسی زیرتعمیر گھر کا ملبہ پڑا ہوا ہے۔ میدان کے دوسرے کنارے پر ایک چھوٹی سی مسجد ہے جس کے غسل خانوں کا پانی اسی میدان میں جوہڑ بنائے ہوئے ہے۔ کچھ ہی فاصلے پر چند گدھے بندھے ہیں۔ میدان کے ایک اینڈ پر سیمنٹ کی وکٹ ہے جہاں محلے بھرکے نوجوان کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے نہ تو پیڈ پہنے اور نہ ہی گلوز لیکن دھڑا دھڑ چھکے چوکے لگا رہے ہیں۔ تو یہ کونسی کرکٹ ہے جہاں شور اور ہنگامہ تو ایسے برپا ہے جیسے کسی سٹیڈیم میں کرکٹ میچ ہو رہا ہولیکن یہاں کرکٹ کا سازوسامان متروک ہے۔ اس کرکٹ کو ٹیپ بال کرکٹ کہتے ہیں ۔ یہ وہ کرکٹ ہے جس نے اصل کرکٹ کی روح کو مجروح کیا ہے اور شرفاء کے اس کھیل میں بیس بال کی تیکنیک شامل ہوئی تو یہاں سے ہی ٹی 20 کرکٹ کا جنم ہوا۔ ایسے میدانوں سے نہ صرف پاکستان بھرا پڑا ہے بلکہ ایشیا کے اکثر کرکٹ کھیلنے والے ممالک میں بھی اسی قسم کی کرکٹ کو فروغ مل رہا ہے۔ اوپر دیئے گئے کرکٹ کے میدان کا منظر کوئی فرضی منظر نہیں ہے اگر آپ ریلو ے سٹیشن لاہور سے صرف پانچ منٹ کی مسافت طے کرکے رنگ روڈ تک کا سفر کریں تو رنگ روڈ کے اطراف میں ایسے درجنوں میدان دیکھنے کو ملیں گے۔ ایک ہی میدان میں کئی ٹیمیں متحارب ہوں گی۔ جتنے کھیلنے والے وہاں موجود ہیں ان سے زیادہ تماشائی بے ہنگم شور مچاتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر کسی ٹیم کا اوپنر فاسٹ بائولر کی پہلی تین گیندیں مس کرجائے تو باہر سے آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں، اوئے مصباح ہی بن گئے ہو، نہیں شارٹ لگتا تو واپس آ جائو۔ اکثر بائولر شعیب اختر کی طرح لمبا رن اپ لیتے ہیں۔ پوری رفتار سے بھاگ کر آتے ہیں اور ٹینس بال جس پر ٹیپ چڑھائی ہوتی ہے گولی کی رفتار سے بنا گلوز پہنے وکٹ کیپر کے ہاتھوں میں گھس جاتی ہے۔ بلے باز جارحانہ ہو تو ایسا اونچا شارٹ لگاتا ہے کہ میدان میں موجود ہر شخص کی گردن آسمان کی جانب مڑ جاتی ہے۔ یہاں بائونڈری چھوٹی ہوتی ہے، لہٰذا یقینی چھکے لگتے ہیں، کئی مرتبہ گیند ہوا میں زیادہ بلندی کی طرف چلی جاتی ہے اور پھر فیلڈر اپنی کانپتی ٹانگوں پر اسے دبوچ ہی لیتا ہے اور ناکام ہو جائے تو بلے باز پچ پر ہی بھنگڑا ڈالنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ کھلاڑی ون ڈے کرکٹ کی تمام حجتیں پوری کرتے ہیں ۔ بائولنگ کرواتے بائولر سے گیند لیکرایمپائر چیک کرتے ہیں جیسے کبھی مانے ہوئے انٹرنیشنل کرکٹرز ناخنوں سے گیند کی ایک سائیڈ کھرچ کر سوئنگ کیلئے گیند کو تیار کرتے تھے۔ یہ ایمپائر پھٹی ہوئی ٹیپ کو دیکھتا اور نئے سرے سے ٹیپ چڑھا دیتا ہے۔ ایمپائر کو یہ گمان ہوتا کہ گویا ٹیپ پھاڑ کر بائولر ریورس سوئنگ کروائے گا۔ گیند کو ان سائڈ یا آئوٹ سائیڈ گھمانے کے علاوہ بائونسر کا آپشن بھی بائولر کے پاس محفوظ ہوتا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ ہر تین چار اوورز کے بعد گیند کا گم ہو جانا یقینی ہوتا ہے۔ ایسے میں نئی ٹیپ شدہ گیند مہیا کر دی جاتی ہے۔ ایل بی ڈبلیو کا کوئی رواج ہی نہیں، البتہ وائیڈ گیند پر بلے بازوں کے کپتان کو اکثر تحفظات رہتے ہیں۔ وہ باہر سے آ کرایمپائر سے احتجاج کرتا ہے کہ باہر جاتی گیند کو وائیڈ کیوں نہیں دے رہے۔ یا بائولنگ سائیڈ کا کپتان چیخ چیخ کر ایمپائر سے اپیل کرتا نظر آتا ہے کہ گیند وکٹوں کے پاس سے گزری ہے وائیڈ کیوں قرار پا گئی ؟ یہ میدان اتوار کو سجتے ہیں لیکن لاہور جیسے مصروف شہر میں گزشتہ ایک عشرے سے ہفتے کی رات کو نئی روایتوں نے جنم لیا ہے۔ ہر بازار اور سڑک پر محلے بھر کے لڑکے ہیوی واٹ کی سرچ لائٹیں بذیعہ کنڈے لگاتے ہیں اور ساری رات سڑک یا بازار پر بھرپور ٹیپ بال کھیلتے ہیں وہ نہ خود سوتے ہیں اور نہ ہی اہل محلہ کو سونے دیتے ہیں۔ کئی گھروں کی بالکونیوں سے دوشیزائیں بھی اس بے ہنگم کرکٹ کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتی ہیں۔ ٹیپ بال کے یہ پلیئرز صبح کازب تک کرکٹ کے کئی میچ کھیل کر مشہور ناشتہ گھروں کا رخ کرتے اور پھر اتوار کا آدھا پونا دن سو کر گزارتے ہیں ۔ گھر کا کوئی کام کہہ دیا جائے تو صاف انکار کر دیتے ہیں۔ ٹیپ بال کی اس کرکٹ نے اتنی ترقی کی ہے جتنی کہ اصل کرکٹ نے ایک صدی میں کی ہو۔ قیام پاکستان کے دو عشروں کے بعد پاکستان میں کلب کی سطح پر منظم کرکٹ کاآغاز ہوا تھا۔ شہر کے ہر علاقے کی نامی گرامی ٹیمیں ہوا کرتی تھیں۔ لاہور میں منٹو پارک، ماڈل ٹائون گرائونڈ، جمخانہ، بارہ دری اور منٹ پاکستان کی وکٹیں مشہور تھیں۔ اسی طرح کراچی میں صدر، جہانگیر پارک، پولو گرائونڈ کے میدان مشہور ٹھہرے۔ ہر سکول کی اپنی گرائونڈ ہوتی تھی اور گورنمنٹ کالج کی بے بی گرائونڈ تو آج بھی مشہور ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کا چوبرجی میں سٹیڈیم تھا۔ اس کے علاوہ ریلوے سٹیڈیم، گریفن گرائونڈ اور کارسن کی گرائونڈ بھی اپنی مثال آپ تھی۔ کراچی میں گرائمر سکول، بھائی ورباجی اور سندھ مدرسۃ السلام کے میدان مشہور تھے۔ یہاں نارمل کرکٹ اپنے تمام سازو سامان کے ساتھ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کھیلی جاتی تھی۔ لیکن اس کے بعد کراچی اور لاہور کی آبادی کا گویا سیلاب آ گیا۔ کراچی کی آبادی 1951ء میں ایک ملین تھی جو کہ 1972ء میں 35 ملین ہوگئی۔ لاہور ایک کھلا شہر تھا جس کے اطراف میں کھیت ہی کھیت ہوتے تھے لیکن آبادی کا ایسا بہائو آیا جو سب کچھ بہا کر لے گی۔ آج لاہور شاہدرہ سے مریدکے سے کامونکے تک پھیلا ہوا ہے۔ ملتان روڈ کی طرف جائیں تو بھائی پھیرو تک لاہور کی حدود جا پہنچی ہے۔ جلو موڑ تک آبادی پہنچی تو اب اس کا رجحان واہگہ بارڈر تک ہے۔ ایسے میں کرکٹ کے یہ میدان کیسے سجتے؟ کوئی کہہ سکتا ہے کہ آزادی چوک پر جو فلائی اوورز بنے ہیں اس نے یہاں سے کرکٹ کو ناپید کر دیا ہے۔80ء کی دہائی میں سلیم ملک جیسا کھلاڑی اپنے سکوٹر پر سوار ہو کر منٹوپارک نیٹ سیشن کیلئے جایا کرتے تھے۔ راستے میں اپنے کوچ کو سائیکل پر جاتے دیکھ کر سکوٹر روک لیتے اسے سڑک کے کنارے لاک کرتے اور استاد کی سائیکل تھام کر سعادت مندی سے پیچھے پیچھے میدان میں پہنچتے، جا کر وکٹ پر جھاڑو دیتے، پانی چھڑکتے اورپھر نیٹ پریکٹس میں جت جاتے۔ 80ء کی دہائی میں لاہور کرکٹ کا گڑھ تھا۔ گریفن گرائونڈ مغل پورہ میں وسیم حسن راجہ، شفیق پاپا اور قاسم اپنے بنک کی طرف سے میچ کھیلنے آتے تھے۔ عبدالقادر بارہ دری کی گرائونڈ پر اپنی بائولنگ کا جادو جگاتے۔ ماڈل ٹائون کی تیز وکٹوں پر سعود خان اپنی سپیڈ کی دھاک بٹھاتے ،بعد کے دنوں میں وسیم اکرم مزنگ کے اطراف میں بنے میدانوں کا ہیرو تھا۔92ء میں عمران خان نے ورلڈ کپ جیتا تو گویا پاکستان میں کرکٹ کھیلنا جنون ہوگیا، ہر کھلاڑی پاکستان کٹ زیب تن کیے چوکے چھکے لگانے کی خواہش لیکرمیدانوں کا رخ کرتا۔ لیکن افسوس کہ اس زرعی ملک میں بلڈرز نے قبضہ جمانا شروع کیا۔ کھیتوں میں کچی پکی سڑکیں بنا کر رہائشی کالونیاں بنانا شروع ہوئیں اور یہ کالونیاں نوجوانوں کی گرائونڈز کو کھانے لگیں،۔ محلے سے باہر گرائونڈ جہاں محلے بھرکے بچے شام کو کرکٹ نیٹ پریکٹس کرتے اور پھر اتوار کو فرینڈلی میچ کھیلتے ۔ ان کی یہ مشق ختم ہوئی ۔ انہیں محلے چھوڑ کر رنگ روڈ کے اطراف میں کھلے میدانوں کا رخ کرنا پڑا، لیکن یہاں میدان کم اور ٹیمیں زیادہ ہونے لگیں۔ پھر یہ ہونے لگا کہ ٹیمیں صبح فجر کے وقت پچوں پر قبضہ جمانے آ جاتیں۔ کھیل کے ہی میدان لڑائیوں کی آماجگاہ بن گئیں۔ ادھر کھیلوں کے سامان کی قیمتوں میں اضافے نے بچوں کی قوت خرید کومتاثر کیا۔ ایسے میں ایک روایتی رسم نے کرکٹ کی ہئیت بدل دی۔ سن دو ہزار کے اوائل میں لاہور میں ماہ رمضان میں ٹیپ بال ٹورنامنٹس نے فروغ پایا۔ دس اوورز پر مشتمل میچ نماز تراویح کے بعد شروع ہوتے اور صبح فجر تک ٹیپ بال کرکٹ جاری رہتی۔ ایسے ٹورنامنٹ میں باقاعدہ انٹری فیس لی جاتی اور سپانسرز کی مدد سے بھاری رقوم بطور انعام رکھی جاتی اور پورا لاہور رمضان بھر میں ٹورنامنٹس دیکھتا اور یہاں سے ہی ٹیپ بال کو فروغ ملا۔کرکٹ کے ایک میدان میں جہاں ریگولر کرکٹ کی ایک ٹیم میچ کھیل سکتی تھی وہاں پانچ سے چھ ٹیمیں ٹیپ بال کھیلنے لگیں۔ یہ وبا اس قدر تیزیسے پھیلی کہ اصل کرکٹ پیچھے رہنے لگی اور ٹیپ بال چھا گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے شہر کی ہر سڑک ٹیپ بال کی گرائونڈ بننے لگیں۔ ٹیپ بال کا کل اثاثہ کیا ہے۔ دو تین ٹیپیں، چھ سات ٹینس کے گیند اور دو بلے ، اینٹوں کی وکٹیں ہوتی تھیں جو اب پلاسٹک کی وکٹوں کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ چھوٹے تو چھوٹے بڑے لوگ بھی اس شغل میں کود پڑے۔ کہیں کنواروں اور شادی شدہ کے میچ ہو رہے ہیں تو کہیں ینگ الیون بمقابلہ اولڈ الیون متحارب ہوتی ہیں۔ ٹیپ بال میں ایک اور برائی کھل کر سامنے آئی ہے ہے چھ یا آٹھ اوورز کے ان میچز پر شرطیں لگنا شروع ہوتی ہیں پہلے یہ شرطیں صرف مشروبات کی بوتلیں ہوا کرتی تھیں پھر یہ کھانوں تک پہنچی اور آج لاہور میں ٹیپ بال کے پروفیشنل کھلاڑی لاکھوں کا جوا کھیلتے ہیں۔ پروفیشنل کھلاڑی اس اصلاح میں لکھا گیا کہ اچھا کھلاڑی باقاعدہ معاوضہ لیکر کسی بھی ٹیم کی طرف سے اپنی خدمات سرانجام دے سکتا ہے۔ ان کا معاوضہ دس ہزار سے شروع ہو کر پچاس ہزار تک جاتا ہے۔ ان ٹورنامنٹس میں باقاعدہ کمنٹری کی جاتی ہے لیکن یہ کمنٹری طنزو مزاح کا حسین شاہکار ثابت ہوتی ہے۔ کھلاڑیوں کے پیار کے ناموں سے لے کرنرالے الٹے پلٹے ناموں کی گردان سے کرکٹ کے کارنامے گنوائے جاتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان معین خان کہتے ہیں کہ گلی محلے کی ٹیپ بال کرکٹ نرسری ہے جس سے کھیل کے ساتھ تفریح بھی میسر آتی ہے ۔میںنے بھی اپنے کرکیئر کا آغاز ٹیپ بال کرکٹ سے کیا اور گلی محلے کے مقابلوں کے بعد ڈومیسٹک کھیلنے کے اہل ہوا تھا۔ آئیے آپ کو ایک اور منظر دکھاتے ہیں جس سے اندازہ ہو گا کہ ہارڈ بال کر کٹ کا خانہ خراب کیسے ہوا ہے۔گزشتہ برس ساہیوال میں واقع ایک سرکاری کالج کی ہار ڈ بال کرکٹ کیلئے منظور شدہ گراؤنڈ میں ٹیپ بال کرکٹ ہونے لگی۔یہاں عرصہ دراز سے ہارڈ بال کرکٹ ہو رہی ہے اور یہاں ٹیپ بال سے کرکٹ کھیلنے کی اجازت نہیں لیکن کلب انتظامیہ نے چمک کے چکر میں ایک نجی کالج کو ٹیپ بال کرکٹ کھیلنے کی اجازت دیکر کرکٹ میلہ لگوادیااور کالج کے سینکڑوں طلباء پیدل اورموٹرسائیکلوں پر گشت کرتے ہوئے گراؤنڈ کو خراب کرتے رہے جبکہ بعض کھلاڑی شلوار قمیض پہن کر کھیلتے رہے اور گراؤنڈ ڈسپلن کا ستیاناس کردیا۔ بارش کے دوران بھی گیلی وکٹ پر میچ ہو تارہا اس طرح ٹیپ بال کرکٹ کھیلنے والے وکٹ بھی خراب کرتے رہے۔ اور تو اور 2013ء میںنیشنل اسٹیڈیم کراچی، ٹیپ بال کرکٹ کیلئے نجی کمپنی کودے دیاگیا تھا۔کمپنی کے ملازمین ’مین‘ وکٹ پر فلڈ لائٹس میں ٹیپ بال کرکٹ کھیلتے رہے۔ پی سی بی حکام کے مطابق اسپانسر کمپنیوں کو اسٹیڈیم دیاجاتاہے لیکن ٹیپ بال کرکٹ کھیلنے کی اجازت نہیں۔ اسے کہتے ہیں چراغ تلے اندھیرا،یہ صرف ایک مثال ہے۔ایسی مثالوں سے پاکستان بھرا پڑا ہے۔ یہاں ایک فکر انگیز نکتہ پر غور کرنا ہوگا۔ بدلتے زمانے سے اطوار بدلنے کی ضرورت تھی یہاں تو کھیل کی ہیت ہی بدل دی گئی۔ کراچی میں اس ٹیپ بال کی وباء پر قابو پانے کی ایک کوشش سابق کرکٹر صادق محمد نے کی تھی۔ محمد برادران کا کرکٹ سے عشق مشہور ہے۔ صادق محمد نے نائٹ کرکٹ ٹورنامنٹ کی بنیاد رکھی اور اس دور میں ایک ٹورنامنٹ کا انعقاد کروایا جس میں مصنوعی روشنیاں سٹیل ملز کی انتظامیہ نے مہیا کی تھیں۔ جیتنے والی ٹیم کو پچیس ہزار انعام دیا گیا۔ سفید گیند کا استعمال کیا گیا۔ کرکٹ کو زندہ کرنے کی اس اعلیٰ کوشش کو سراہا تو دورکی بات اس میں کیڑے نکالنا شروع ہوگئے ، اسے کرکٹ کے متوازی کرکٹ کا نام دیا گیا۔اگر صادق محمد کی حوصلہ افزائی کی جاتی تو آج نوجوان ٹیپ بال کے بخار میں مبتلا نہ پائے جاتے۔ آج ہر عمر کا شخص یا تو پوری کٹ پہنے، یا شلوار قمیض میں ملبوس ٹیپ بال کھیلتا نظر آتا ہے ۔ اصل کرکٹ اکیڈیمیوں میں گھس گئی، سابق لیجنڈری کھلاڑیوں کی روٹی روزی بھی اپنی اکیڈمیوں سے وابستہ ہوگئی۔ پچیس فٹ کی چوڑی گلی پورا میدان قرار پا چکی ہے۔ آج کل ایک مشہور مشروبات ساز کمپنی کی اشتہاری مہم میں بھی یہی دکھایا جا رہا ہے کہ حقیقی کرکٹ تباہ ہوگئی اور ٹیپ بال آباد۔ اصل کرکٹ کو بچانا ہے تو ایک سادہ سا فارمولا ہے کہ سپورٹس فیسٹیول پر اربوں خرچنے سے بہتر ہے کہ کروڑوں خرچ کرکے گرائونڈ بنادیں پھر یونین کونسل کی ایک ٹیم بنادیں ایک گرائونڈ دے دیں، پھر دیکھیں ٹیلنٹ کہاں کہاں سے سامنے آتا ہے۔ وٹہ بائولنگ کی بنیاد قومی کرکٹ کے 80 فیصد کھلاڑی ٹیپ بال کرکٹ سے آ رہے ہیں اس لئے ان میں زیادہ تر بائولر وٹہ اور بلے باز صرف اور صرف چھکا لگانا جانتے ہیں انہیں سنگلز نہیں لینا بالکل ہی نہیں آتا، پھر سب سے ضروری امر یہاں یہ ہے کہ گلی سے لیکر ٹیپ بال گرائونڈ تک بچے گیند کرنے کی کوشش میں وٹہ، جرک، تھرو یا چکر بائولنگ سیکھ جاتے ہیں اور خاص طور پر سپنر فنگر مارنا جسے آجکل دوسرا، کیرم بال یا ریورس سپن کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بین الاقوامی سطح پر سعید اجمل، محمد حفیظ کو یہی مسئلہ رہا، جبکہ ڈومیسٹک کرکٹ میں وٹہ بائولنگ عام ہے اورا مپائرز حضرات کی نااہلی، کھلاڑیوں کی طرف سے دبائو کی وجہ سے لیگل سپن کرنے والے فنگر سپنر کا فقدان ہے۔ واضح رہے کہ رائٹ آرم لیگ سپنر کبھی وٹہ بائولر نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ اینٹی کلاک وائز یعنی گھڑی کی مخالف سمت میں کلائی کو گھما کر بائولنگ کی جاتی ہے۔ غیر قانونی باؤلنگ ایکشن کو فروغ دیا محمد حفیظ کو باؤلنگ کے لیے نا اہل قرار دینے کا آئی سی سی کا فیصلہ پاکستان کرکٹ پر بجلی بن کر گرا تھا۔ پی سی بی کے ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ باؤلرز کے غیر قانونی ایکشن کے مسئلہ کی جڑیں بہت گہری ہیں۔محمد حفیظ گز شتہ تین سال سے پاکستانی باؤلنگ میں ریڑھ کی ہڈی بن چکے تھے اور ان کے رنز دینے کی شرح دنیا میں سب سے کم یعنی3.8 تھی۔سعید اجمل کے بعد اچانک محمد حفیظ پر پابندی کا نقصان نا قابل تلافی ثابت ہوئی ۔ چونتیس سالہ محمد حفیظ نے گذشتہ دنوں دبئی میں نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلے گئے پہلے ون ڈے میچ میں کیریئر میں پہلی بار اسپیشلسٹ بیٹسمین کی حیثیت سے شرکت کی۔ چیف سلیکٹرہارون رشید کہتے ہیں کہ ’’پاکستان میں غیرقانونی باؤلنگ ایکشن کے مسئلے کا تعلق کھلاڑیوں کی بچپن میں عدم تربیت سے ہے یہاں سہولتوں کا فقدان ہے اور غربت کی وجہ سے ابتدائی عمر میں کھلاڑی ننگے پاؤں ٹیپ بال سے کھیلتے ہیں۔ تیز سے تیز تر باؤلنگ کرنے کے شوق میں وہ باؤلنگ ایکشن قوانین کی پرواہ نہیں کرتے۔ بعد میں بڑی کرکٹ میں جب وہ پہنچتے ہیں تو ہمارے لیے ان کے ایکشن کی اصلاح مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ اس وقت تک ان کے جسم غیر لچکیلے ہو چکے ہوتے ہیں۔‘‘ پاکستانی وویمن کرکٹ ٹیم کی کپتا ن ثناء میر کہتی ہیں کہ ٹیپ بال سے کرکٹ کھیلنے کے دوران اپنے آئیڈیل وقار یونس کے بائولنگ سٹائل کی نقلیں اتارا کرتی تھی ۔
(دنیا نیوز)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں