امریکا کے معروف کیتھولک مبلغ اور سماجی کارکن فادر ڈینٹیل پریسٹ نے ایک بار کہا تھا کہ ’’قیدیوں کے بارے میں کچھ لکھنا ، مُردوں کے بارے میں لکھنے جیسا ہے ...
امریکا کے معروف کیتھولک مبلغ اور سماجی کارکن فادر ڈینٹیل پریسٹ نے ایک بار کہا تھا کہ ’’قیدیوں کے بارے میں کچھ لکھنا ، مُردوں کے بارے میں لکھنے جیسا ہے۔‘‘ میرے خیال میں وہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ ہم قیدیوں کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں جس طرح ہم بھوت اور بدروحوں کے بارے میںسوچتے ہیں۔ یعنی نہ وہ دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی ہم انھیں سن سکتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قیدیوں کو نظر انداز کردینا انتہائی آسان ہے اور یہ اس وقت اور بھی آسان ہوجاتا ہے جب حکومت انھیں ہماری نظروں سے اوجھل رکھنے کے لیے اس قدر اہتمام کررہی ہو۔ ایک صحافی کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ ایسی کہانیاں جو اہل اقتدار کے ان کرتوتوں پر مشتمل ہوتی ہیں جو وہ عوام کے نگاہوں سے بچ کر انجام دیتے ہیں، انھیں عام لوگوں تک پہنچانا انتہائی ضروری ہے۔ اسی لیے میں نے امریکا کے سب سے زیادہ خفیہ اور تجرباتی جیلوں کے بارے میں جاننا شروع کیا جو نام نہاد ’’دوسرے درجے‘‘ کے دہشت گردوں کے لیے بنائے گئے ہیں۔ حکومت امریکا نے انھیں ’’کمیونیکیشن مینجمنٹ یونٹس‘‘ یا سی ایم یوز کا نام دیا ہے۔ یہاں قید ہونے والے اور ان کی رکھوالی کرنے والے ان قید خانوں کو ’’چھوٹے چھوٹے گوانتانا مو‘‘ کہتے ہیں۔ بہ ظاہر تو یہ جزیرے نہیں لیکن درحقیقت ہماری نگاہوں سے دور یہ ایسے ہی جزیرے ہیں جن کے بارے میں ہم نہیں جانتے اور جو عام جیل خانوں کے اندر ہی بنائے گئے ہیں۔ امریکا میں اس وقت دو سی ایم یوز بنائے گئے ہیں ان میں سے ایک ٹیرع ہاؤٹ انڈیانا میں ہے جب کہ دوسرا الیونائے کے اندر میرئیون میں بنایا گیا ہے۔ ان دونوں سی ایم یوز کو بناتے ہوئے قانون کے مطابق وہ کارروائی نہیں کی گئی جو ملکی آئین و قانون کے مطابق قانون سازی کی سطح پر کرنا لازمی قرار دی گئی ہے۔ سی ایم یوز میں قید تمام افراد سزا یافتہ مجرم ہیں۔ ان میں سے بعض کے کیسز پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے اور بعض کو محض تشدد یا دھمکیوں کے الزامات میں یہاں قید کیا گیا ہے۔ میں ان قیدیوں کے مجرم یا بے قصور ہونے کے حوالے سے دلائل دینا میرا مقصود نہیں۔ میرا مقصود تو ان قید خانوں کی صورت حال آپ کے سامنے رکھنا ہے کیوں کہ سپریم کورٹ کے جسٹس تھرگوڈ مارشل نے کہا تھا ’’جب قید خانوں کے دراوزے بند ہوجاتے ہیں، انھیں سلاخوں اور آہنی دروازوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے، اس وقت بھی وہ انسان ہی ہوتے ہیں۔‘‘ ان یونٹس میں میری جن قیدیوں سے بھی بات ہوئی ان کے مطابق اس ظلمت کدے میں ان کے لیے تین چیزیں روشنی کی کرن ثابت ہوتی ہیں، فون کالز، خطوط اور اہل خانہ کی ملاقاتیں۔ اگرچہ سی ایم یوز قید تنہائی کے لیے نہیں بنائے گئے، انھیں solitary confinement قرار نہیں دیا جاتا مگر یہاں وہ سب اقدامات کیے گئے ہیں جو ان یونٹس کو ان جیلوں میں شمار کیا جاسکتا ہے جہاں قید کے ضابطے پورے ملک کے مقابلے میں شدید ترین ہیں۔ یہاں پر قید افراد کو مہینے بھر میں صرف 45منٹ کی فون کالز کرنے کی اجازت دی جاتی ہے جب کہ دیگر جیلوں میں یہ حد 300منٹ ہے۔ ان کے خطوط کاغذ کے زیادہ سے زیادہ چھے ٹکڑوں پر مشتمل ہوسکتے ہیں، اور اسی طرح انھیں مہینے میں ملاقات کے لیے صرف چار گھنٹے دیے جاتے ہیں۔ دوسرے کسی بھی جیل کے مقابلے میں یہاں ہونے والی ملاقاتوں کے لیے ضابطے مزید سخت ہیں۔ سی ایم یو کی ملاقاتیں non-contactہوتی ہیں، یعنی قیدی ملاقات کے لیے آنے والوں سے مصافحہ یا معانقہ نہیںکرسکتا ،چاہے ملاقاتی اس کے اپنے اہل خانہ اور رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں۔ سی ایم یو کے ایک قیدی کا کہنا ہے ’’ ہم پر یہاں کوئی جسمانی تشدد نہیں ہوتا صرف ذہنی اور نفسیاتی تشدد کیا جاتا ہے۔‘‘ حکومت اس بارے میں خاموش ہے کہ ان یونٹس میں کون لوگ قید کیے گئے ہیں ان دیواروں کے پیچھے کون ہے اس پر مکمل پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن عدالتی دستاویزات، قیدیوں کے ریکارڈ کے حوالے سے دی گئی درخواستوں کے جواب میں فراہم کیے جانے والے ریکارڈ اور چند موجودہ اور سابق قیدیوں سے کیے گئے انٹرویوز کی مدد سے اس پردے کے پیچھے چھپے کچھ حقائق جاننے میں مدد ملتی ہے۔ ان یونٹس میں 60سے 70قیدی موجود ہیں جن کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ان میں ڈاکٹر رافل ظاہر شامل ہیں جنھوں نے امریکی پابندیوں کے باوجود عراق میں بچوں کے لیے ادویات فراہم کرنے کا جرم کیا تھا اور اس کی پاداش میں انھیں 2005میں سزا سنائی گئی تھی۔ ان قیدیوں میں یاسین عارف بھی شامل ہے، عارف کا خاندان صدام حسین کے دور میں عراق سے فرار ہوکر نیویارک میں پناہ لینے آیا تھا، اسے 2004میں ایف بی آئی کی جانب سے ایک اسٹنگ آپریشن میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ ایک امام مسجد ہے وہ قرض کے ایک معاہدے میں گواہ بنا تھا، یہ ایک اسلامی روایت ہے۔ قرض کا لین دین کرنے والوں میں سے کسی ایک نے خود پر ایک جعلی حملہ کروایا تاکہ وہ اس معاہدے سے نکل جائے اس کے نتیجے میں عارف الزام کی زد میں آگیا۔ وہ نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا، معاملہ کچھ اور تھا مگر اسے ایک دہشت گرد گروپ کو مواد فراہم کرنے کے جرم میں سزا دی گئی ہے۔ سی ایم یوز میں کچھ غیر مسلم قیدی بھی شامل ہیں۔ ان یونٹس کے گارڈز ان قیدیوں کو ’’بیلینسرز‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی دراصل یہ قیدی ان یونٹس میں اس لیے رکھے گئے ہیں تاکہ ان یونٹس کے خلاف کسی خاص رنگ و نسل کو نشانہ بنانے کا الزام لگا کر کوئی قانونیکارروائی نہ کی جاسکے۔ ’’بیلینسرز‘‘ قیدیوں میں جانوروں کے حقوق اور ماحولیات کے لیے کام کرنے والے کارکن شامل ہیں ان قیدیوں میں ماحولیات کے لیے کام کرنے والا معروف ایکٹویسٹ ڈینیل جی مک گوان بھی شامل ہے۔ مک گوان کو ارتھ لبریشن فرنٹ کی جانب سے کیے گئے دو حملوں میں شامل ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ مقدمے کی کارروائی کے دوران مک گوان کو اس بات کا خوف تھا کہ کہیں اسے دہشت گردوں کے لیے بنائے گئے کسی عقوبت خانے نہ بھیج دیا جائے، جج نے اس مقدمے کے فیصلے میں حکومت کی جانب سے کی جانے والی ایسی کسی بھی درخواست کو مسترد کردیا تھا اور مک گوان کو کسی حد تک تسلی ہوگئی تھی کہ اب اسے کسی عقوبت خانے نہیں بھیجا جائے گا مگر اس کے باوجود وہ آج سی ایم یو میں قید کاٹ رہا ہے۔ عدالتی حکم کے باوجود ایسا ہونے کی بڑی سادہ سی وجہ ہے، حکومت کسی بھی قیدی کو سی ایم یو بھیجنے کے حوالے سے کسی ادارے کو جواب دہ نہیں اورا نہیں یہ پتا لگایا جاسکتا ہے کہ کسی بھی مجرم کی سی ایم یو کی منتقلی کا فیصلہ کرتا کون ہے۔ جب مک گوان کو سی ایم یو منتقل کیا گیا تو اسے ایف بی آئی کی طرف سے بتایا گیا کہ ایسا اس لیے کیا جارہا ہے کہ وہ ایک ’’ڈومیسٹک ٹیرراسٹ ‘‘ ہے۔ یہ وہ اصطلاح ہے جو ایف بی آئی اکثر ماحولیاتی کارکنوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اب یہ ذہن میں رکھیے کہ پورے امریکا میں 400سو ایسے قیدی ہیں جنھیں دہشت گرد قرار دیا گیا ہے جن میں سے مٹھی بھر لوگ ہی سی ایم یوز میں رکھے گئے ہیں۔ مک گوان کے کیس میں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اس سے قبل وہ ایک قدرے کم سیکیورٹی اور پابندیوں والے جیل میں تھا اور اس کے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ اس نے قواعد کی کوئی خلاف ورزی بھی نہیں کی تھی لیکن اس کے باوجود وہ آج سی ایم یو میں ہے۔ اسے کیوں یہاں منتقل کیا گیا؟ سی ایم یوز کے دوسرے قیدیوں کی طرح وہ بھی اس سوال کا جواب چاہتا ہے جس کے لیے وہ اپیل یا عدالتی سماعت چاہتا ہے۔ ایسی کسی کوشش یا درخواست کا کیا نتیجہ نکلتا ہے اس کا اندازہ اس مثال سے لگائیے۔ مک گوان اور ایک اور قیدی نے تبادلے کے لیے سی ایم یو کے وارڈن کو درخواست دی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب وارڈن نے مک گوان اس کے اچھے رویے کی وجہ سے اس درخواست کو منظور کرنے کی سفارش اعلیٰ حکام سے کی، مگر یہ درخواست بیورو آف پرزنز کاؤنٹر ٹیررازم یونٹ کی جانب سے مسترد کردی گئی۔ یہ یونٹ ایف بی آئی کی جوائنٹ ٹیررازم ٹاسک فورس سے منسلک ہے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ مک گوان کو سی ایم یو منتقل کرنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ اس نے کیا کیا تھا بلکہ دراصل اس نے جوکہا تھا وہی اس کا اصل جرم تھا۔ کاؤنٹر ٹیررازم یونٹ کے ایک میمو کے مطابق مک گوان کو ’’حکومت مخالف نظریات‘‘ رکھنے کے جرم میں سی ایم یو بھیج دیا گیا۔ کیوں کہ وہ دوران قید بھی ماحولیاتی مسائل پر لکھتا رہا تھا، وہ ماحولیات کے لیے سرگرم افراد کو اپنی غلطیاں سدھارنے اور ایک دوسرے کی مشاورت سے کام کرنے کی ترغیب دیتا تھا۔ اب سچی بات یہ ہے کہ اگر آپ میںسے کوئی بھی کچھ عرصہ واشنگٹن ڈی سی میں رہا تو وہ بہ آسانی جان سکتا ہے کہ حکومت کے لیے یہ مسائل کس قدر حساسیت کے حامل ہیں۔ دراصل میں نے مک گوان سے سی ایم یو میں ملاقات کے لیے باقاعدہ درخواست دی تھی جو منظور کرلی گئی۔ میری درخواست کی منظوری سے مجھے خود بھی دھچکا لگا۔ اس حیرت کی پہلی وجہ تویہ تھی کہ مجھے معلوم تھا کہ ایک عرصے سے ایف بی آئی میری حرکات و سکنات پر مکمل نظر رکھتی چلی آرہی ہے، ان سرگرمیوںکے باوجود یہ اجازت ملنا حیرت انگیز تھا کیوں کہ اس اجازت کے بعد میں وہ پہلا صحافی تھا جسے ان یونٹس میں جانے کی اجازت ملی۔ بیورو آف پرزنس کاؤنٹر ٹیررازم کے رکارڈ سے مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ سی ایم یوز کے حوالے سے ایف بی آئی میری ہر تحریر و تقریر پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ اس کے باوجود مجھے اجازت ملنا میرے لیے حیرت کا باعث تھا۔ جب کچھ روز قبل میں سی ایم یو گیا تو مجھ اس کا جواب بھی مل گیا۔ مجھے مک گوان سے صحافی کے بہ جائے دوست کی حیثیت سے ملنے کی اجازت دی گئی تھی، کیوں کہ سی ایم یوز میں صحافیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ اس کے علاوہ مک گوان کو سی ایم یو حکام کی جانب سے تنبیہ کردی گئی تھی کہ اگر مجھ سے ہونے والی گفتگو کے دوران اس کا کوئی بھی جواب کسی خبر یا مضمون میںبہ طور حوالہ استعمال ہوا تو اس کی سزا بھی مک گوان کو قید میں طوالت کی صورت بھگتنا ہوگی۔ جب میں اس ملاقات کے لیے جیل پہنچا تو گارڈ نے مجھے بتایا کہ وہ مجھے اور میرے کام کے بارے میںجانتا ہے اور اگر اس ملاقات میں، میں نے مک گوان کا انٹرویو کرنے کی کوشش کی تو فوری طور پر ملاقات ختم کروادی جائے گی۔ امریکا کا بیورو آف پرزنس سی ایم یوز کو ’’یک فردی رہایش‘‘ قرار دیتا ہے لیکن میرے خیال میں یہ کسی بل کو اچھا نام دینے کی ناکام کوشش ہے۔ جب آپ سی ایم یو جاتے ہیں تو توقع کے عین مطابق ہر مرحلے پر ایک چیک پوسٹ سے تلاشی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے جب کہ وزیٹر روم تک کا راستہ بالکل خاموشی سے طے ہوتا ہے۔ جب سی ایم یو کے کسی ایک قیدی کی ملاقات آتی ہے تو اس وقت باقی تمام قیدیوں کو سیل میں بند کردیا جاتا ہے۔ اس ملاقات کے لیے مجھے ایک ایسے کمرے میں بھیج دیا گیا جو اس قدر چھوٹا تھا کہ اس میں دونوں ہاتھ پھیلا کر کھڑے ہونا بھی انتہائی دشوار تھا۔ کمرے کی چھت کے بالکل وسط میں ایک کیمرہ نصب تھا جس کے ذریعے ویسٹ ورجینیا میں قائم کاؤنٹر ٹیررازم کسی بھی ملاقات کی براہ راست نگرانی کرتا ہے۔ سی ایم یو میںملاقات کے لیے آنے والوں پر انگریزی کے علاوہ کوئی بھی زبان بولنے پر پابندی ہے۔ یہ پابندی خصوصاً کئی مسلمان خاندانوں کے لیے مزید کرب اور پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ دھندلے سے ایک بلٹ پروف شیشے کے پیچھے قیدی کو لاکر بٹھا دیا جاتا ہے۔ مک گوان کو بھی اسی شیشے کے پیچھے لاکر بٹھا دیا گیا۔ ہم دیوار سے جڑے ہینڈ سیٹس کی مدد سے فلموں اور کتابوں کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ ہم دونوں نے مل کر بہت کوشش کی کہ کوئی ایسی بات کی جائے جس سے ہم دونوں کے چہرے پر ہنسی آجائے۔ لطائف سنانے اور مک گوان نے مجھے مشکوک بنانے کی کوشش بھی کی اور مجھے آج بھی اس بات کی توقع ہے کہ کہیں ایف بھی آئی کسی لطیفے کو ہمارے درمیان ہونے والے گفتگو کا کوڈ ورڈ سمجھ کر اس کے اصل معنی تلاش کرنے کی فکر میں نہ ہو۔ اس ملاقات کے دوران مک گوان نے زیادہ تر اپنی بھتیجی لیلی اور بیوی کے بارے میں بات کی اور اس احساس کرب پر بات کی کہ وہ اپنے ان پیاروں کو کبھی گلے نہیں لگا سکے گا ان کا ہاتھ تھام کر اپنے دل کی بات نہیں کرسکے گا۔ ہماری اس ملاقات کے تین مہینے بعد مک گوان کو سی ایم یو سے عام جیل خانے میں منتقل کردیا گیا مگر صرف تین ماہ بعد بغیر کوئی وجہ بتائے یا واننگ دیے اسے دوبارہ سی ایم یو منتقل کردیا گیا۔ اس کہ وجہ بھی بڑی عجیب ہے۔ میں نے سی ایم یوز پر کام کرتے ہوئے اس کی کچھ لیک ہونے والے دستاویز اپنی ویب سائٹ پر جاری کردی تھیں۔ کاؤنٹر ٹیررازم یونٹ کے مطابق مک گوان نے اپنی بیوی کو ایک فون کال کے دوران وہ دستاویزات بھجوانے کو کہا تھا تاکہ وہ جان سکے کہ حکومتی ریکارڈ اس کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ بس اسی جرم میں اسے دوبارہ سی ایم یو منتقل کر دیا گیا۔ جب مک گوان کی سزا مکمل ہوئی تو رہائی کے بعد اس نے اپنی کہانی کو مزید کافکائی بنا کر پیش کیا۔ اس نے ہفنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون لکھا، جس کا عنوان تھا’’عدالتی دستاویز سے ثابت ہوتا ہے کہ مجھے میری سیاسی تقری کی وجہ سے سی ایم یو منتقل کیا گیا تھا۔‘‘ اگلے ہی دن اسے دوبارہ جیل میں ڈال دیا گیا، اس کے وکیل نے اس کی رہائی کے لیے جاں توڑ کوششیں کیں لیکن حکومت کی طرف سے یہ واضح پیغام دے دیا گیا تھا کہ سی ایم یو کے بارے میں بات کرنا بھی جرم ہے۔ بش انتظامیہ کی جانب سے بنائے گئے ان یونٹس کو آج نو برس مکمل ہوچکے ہیں۔ حکومت سی ایم یوز بنانے کے جواز تراشنے میں مصروف ہے۔ بیورو آف پرزنس کے مطابق یہ یونٹس کی اہمیت ’’غیر معمولی‘‘ ہے۔ میرے خیال میں حکومت دراصل یہ کہنا چاہتی ہے کہ یہ سیاسی قیدیوں کے لیے بنائے گئے سیاسی قید خانے ہیں کیوں کہ سی ایم یو منتقل کیے جانے والے قیدیوں کو ان کے رنگ و نسل ، مذہب او سیاسی نظریات کی وجہ سے ان قید خانوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ میری گفتگو سے آپ لوگ یہ تاثر لیں کہ میں نے اس کہانی کو مضبوط اور پرُاثر بنانے کے لیے کردار تراشنے میں زیادہ ہی مہارت سے کام لیا ہے۔ لیکن بعض دست یاب حکومتی دستاویزات سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ یہ یونٹس کسی بھی قسم کے حکومتی مخالف فرد کو خاموش کروانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ مک گوان کے علاوہ جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک اور قیدی اینڈی اسٹیپنین کی سی ایم یو سے منتقلی کی درخواست صرف یہ کہہ کر مسترد کردی گئی کہ اس کے خیالات حکومت مخالف اور کارپوریٹ مخالف ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے قارئین کے لیے اس بات پر یقین کرنا انتہائی دشوار ہوگا کہ یہ سب کچھ اس وقت بھی ہورہا ہے اور دنیا کے کسی دورافتادہ ملک میں نہیں بلکہ ریاست ہائے متحدہ امریکا ہی میں ہورہا ہے۔ لیکن یہ ایک نامعلوم حقیقت ہے کہ امریکا سیاسی قیدیوں کو غیر منصفانہ سزائیں دینے کی سیاہ ترین تاریخ رکھتا ہے۔ میریون جہاں اس وقت ایک سی ایم یو قائم ہے اس سے قبل 1960کی دہائی میں وہاں کنٹرول یونٹس بنائے گئے تھے، جہاں قیدیوں کو 22گھنٹے قید تنہائی میں رکھا جاتا تھا۔ ایک وارڈن کے مطابق یہ یونٹ ’’انقلابی رویوں پر قابو پانے‘‘ کی غرض سے بنایا گیا تھا۔ ایسی ہی ایک مثال 1980کی دہائی سے بھی ملتی ہے جب لیکسنگٹن میں ایک ہائی سکیورٹی یونٹ بنایا گیا تھا جس میں ماحولیات کے لیے کام کرنے والی ویدر انڈر گراؤنڈ، بلیک لبریشن، اور پیورٹو رکان وغیرہ جیسی تنظیموں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو قید رکھا گیا۔ اس یونٹ میں قیدی خواتین کے بیرونی دنیا سے رابطے پر مکمل پابندی عاید تھی، اس کے علاوہ انھیں نیند پوری نہیں کرنے دی جاتی تھی اور مسلسل تیز روشنی ان کی آنکھوں کے سامنے رکھی جاتی تھی کہ ان کے نظریات تبدیل ہوجائیں۔ ایسے جیل خانے اُسی وقت بند کیے گئے جب انسانی حقوق اور مذہبی تنظیموں نے ان کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی اور ان میں ہونے والی زیادتیوں کو اجاگر کیا۔ آج شہری حقوق کے بہت سے وکلا سی ایم یوز کو قیدیوں کی آزادی اظہار اور سیاسی و مذہبی نظریات پر قدغن لگانے کا ذریعہ بننے کی وجہ سے ان کے قیام کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کرچکے ہیں۔ اگر یہ قانونی کارروائی شروع نہ کی جاتی تو ان یونٹس کے حوالے سے بہت سے حقائق شاید کبھی منظر عام پر نہ آتے۔ سی ایم یوز کی بندش کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور میرا آپ سب کے لیے بس یہی پیغام ہے کہ ہمیں جاننا ہوگا کہ اس ملک میں قیدیوں کے ساتھ کیا کیا ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ ہونے والے سلوک سے یہ پتا چلتا ہے کہ پس دیوار زنداں ہماری اقدار کیا شکل اختیار کرتی ہیں۔ یہ صرف قیدیوں کی بپتا نہیں۔ یہ ہم سب کی کہانی ہے۔ یہ انسانی حقوق کے حوالے سے ہمارے اقدار پر ایک سوال ہے۔ اس کہانی میں یہ سوال بھی پوشیدہ ہے کہ کیا ہم ماضی کی غلطیاں دہرانے کے لیے تیار ہیں؟ اگر ہم نے فادر بیریگن کے مطابق ان مُردوں کی آہ و فغاں پر کان نہ دھرا تو ایک دن ہوسکتا ہے کہ ہم بھی ایسی ہی کسی داستان کا حصہ بن جائیں گے۔ لوگ مجھ سے اکثر سوال کرتے ہیں کہ امریکا میں ہائی اسکول میں وہ امریکی آئین میں شامل بل آف رائٹس یعنی شہری حقوق کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ جن میں آزادی اظہار اور دیگر 25ایسے قوانین کا تذکرہ ہے جو شہری حقوق کا تحفظ کرتے ہیں اور سی ایم یوز میں ان تمام ہی قوانین کی خلاف ورزی ہورہی ہے، یہ کیسے ممکن ہے؟ اس معاملے میں مجھ سے پہلا سوال یہی ہوتا ہے۔ میری نظر میں اس کا مختصر ترین جواب یہ ہے کہ لوگ جانتے ہیں نہیں۔
(دنیا نیوز)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں