اعلیٰ حیوانات انفرادی لڑائیوں میں ملوث ہوتے ہیں، لیکن کبھی منظم جتھوں میں یہ کام نہیں کرتے۔ انسان اکلوتا حیوان ہے جو خباثتوں کی خباثت، یعنی جنگ، میں ملوث ہوتا ہے۔ وہ اکلوتا حیوان ہے جو اپنے بھائی بندوں کو گرد جمع کرتا ہے اور سفاکی اور پرسکون دل کے ساتھ اپنی نوع کو نابود کرنے کے لیے نکل پڑتا ہے۔ وہ اکلوتا حیوان ہے جو فرومایہ اجرت کے بدلے جنگ پر نکل کھڑا ہو گا، جیسے ہمارے انقلاب میں کرائے کے جرمن سپاہیوں نے کیا، اور جیسے لڑکا نما شہزادہ نپولین نے زولو کی جنگ میں کیا، اور اپنی ہی نوع کے اجنبیوں کے قتلِ عام میں مدد فراہم کرے گا جنہوں نے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور جن کے ساتھ اس کا کوئی جھگڑا نہیں۔
انسان اکلوتا حیوان ہے جو اپنے بے کس ہم وطن کو لوٹ لیتا ہے -- اس کو قبضے میں لے لیتا ہے اور اسے ملکیت سے بے دخل کر دیتا ہے یا تباہ کر دیتا ہے۔ انسان نے ہر قرن میں ایسا کیا ہے۔ اس کُرے پر زمین کا ایک ایکڑ بھی ایسا نہیں ہے جو اپنے جائز حقدار کے قبضے میں ہو، یا جسے مالک در مالک، سلسلہ در سلسلہ، طاقت اور خون ریزی کے ذریعے ہتھیایا نہ گیا ہو۔
انسان اکلوتا غلام ہے۔ اور وہی اکلوتا حیوان بھی جو غلام بناتا ہے۔ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں غلام رہا ہے، اور ہمیشہ اس کی جبری بندش میں کسی نہ کسی انداز میں غلام موجود رہے ہیں۔ ہمارے دور میں وہ ہمیشہ اجرت کے لیے کسی نہ کسی انسان کا غلام ہوتا ہے، اور اس انسان کا کام کرتا ہے؛ اور اس غلام کے نیچے کم تر اجرت پر دیگر غلام ہوتے ہیں، اور وہ اِس کا کام کرتے ہیں۔ اعلٰی حیوانات اس حوالے سے خاص ہیں کہ وہ اپنے کام بذاتِ خود سرانجام دیتے ہیں اور اپنی روزی آپ کماتے ہیں۔
انسان اکلوتا محب وطن ہے۔ وہ خود کو اپنے ملک، اپنے ذاتی جھنڈے کے نیچے الگ تھلگ کر لیتا ہے اور پھر دوسری اقوام کا ٹھٹھہ اڑاتا ہے، اور بھاری اخراجات پر بے شمار وردی پوش قاتل تیار رکھتا ہے تاکہ دوسروں کے ممالک کے ٹکڑے ہتھیا سکے، اور انہیں اپنے ملک کے ساتھ ایسا کرنے سے باز رکھ سکے۔ اور مہمات کے درمیانی اوقات میں، وہ اپنے ہاتھ دھو کر خون صاف کر لیتا ہے اور منہ سے انسان کی عالمی اخوت کا درس دینے لگتا ہے۔
انسان مذہبی حیوان ہے۔ وہ اکلوتا مذہبی حیوان ہے۔ وہ اکلوتا مذہبی حیوان ہے جس کے پاس سچا مذہب ہے، کئی ایک سچے مذہب۔ وہ اکلوتا حیوان ہے جو اپنے پڑوسی سے اپنی ذات کی طرح محبت کرتا ہے، اور اگر اس کا عقیدہ درست نہ ہو تو اس کا گلا کاٹ دیتا ہے۔ اس نے خوشی اور جنت تک اپنے بھائی کا راستہ صاف کرنے کی مخلصانہ کوشش میں کرۂ ارض کو ایک قبرستان بنا دیا ہے۔ اس نے سیزر کے عہد میں ایسا کیا، اس نے عہدِ تفتیش میں ایسا کیا، اس نے فرانس میں دو صدیوں تک ایسا کیا، اس نے میری کے دور کے انگلینڈ میں ایسا کیا، وہ تب سے ایسا کر رہا ہے جب اس نے پہلی روشنی دیکھی تھی، اس نے آج کے کریٹ میں ایسا کیا (بمطابق اوپر پیش کردہ ٹیلی گرام) وہ مستقبل میں بھی کسی جگہ ایسا ہی کرے گا۔ اعلٰی حیوانات کا کوئی مذہب نہیں۔ اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ آخرت کی زندگی میں انہیں شامل نہیں کیا جائے گا۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ آخر کیوں؟ پسند کا یہ معیار قابلِ اعتراض سا معلوم ہوتا ہے۔
آدمی عقلی حیوان ہے۔ خیر دعویٰ تو یہی کیا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس پر مباحثہ ہو سکتا ہے۔ درحقیقت، میرے تجربات نے مجھے بذریعہ ثبوت بتایا کہ وہ غیر عقلی حیوان ہے۔ اس کی تاریخ دیکھیں، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ مجھے تو صاف لگتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی ہو کم از کم ایک عقلی حیوان نہیں ہے۔ اس کا ماضی ایک جنونی کا شاندار ماضی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ذہانت کے خلاف مضبوط ترین حقیقت یہ ہے کہ اپنے پیچھے ایسے ماضی کے باوجود وہ بڑی نرمی سے خود کو ان سب کا سربراہ حیوان مقرر کر لیتا ہے: جبکہ اپنے ہی معیارات کے مطابق وہ ارذل ترین حیوان ہے۔
حقیقت میں، انسان ایک ایسا احمق ہے جس کا علاج نہیں ہو سکتا۔ سادہ چیزیں جو دیگر حیوان باآسانی سیکھ لیتے ہیں، وہ انہیں سیکھنے کے قابل نہیں۔ میرے تجربات میں یہ پیش آیا۔ ایک گھنٹے میں مَیں نے ایک بلی اور کتے کو دوست رہنا سکھایا۔ میں نے انہیں ایک پنجرے میں ڈالا۔ اگلے گھنٹے میں مَیں نے انہیں خرگوش کے ساتھ دوستی سے رہنا سکھا دیا۔ دو دنوں کے دوران میں ایک لومڑی، ایک ہنس، ایک گلہری اور کچھ فاختاؤں کو شامل کرنے میں کامیاب رہا۔ آخر کار ایک بندر بھی شامل کر لیا۔ وہ پرامن -- بلکہ پیار بھرے -- انداز میں اکٹھے رہے۔
اس کے بعد، میں نے ایک پنجرے میں ٹپریری سے ایک آئرش کیتھولک کو محبوس کر دیا، جیسے ہی وہ سدھایا گیا تو میں نے ایبرڈین سے ایک اسکاچ پريسبيٹيريَن کو ساتھ ڈال دیا۔ بعد ازاں قسطنطنیہ سے ایک ترک؛ کریٹ سے ایک یونانی عیسائی؛ ایک آرمینیائی؛ آرکنساس کے جنگلات سے ایک میتھوڈسٹ؛ چین سے ایک بُودھ؛ بنارس سے ایک برہمن۔ آخر میں واپِنگ سے جیشِ نجات کا ایک کرنل ڈالا۔ پھر میں دو مکمل دن ان سے دور رہا۔ جب میں نتائج کے اندراج کے لیے واپس آیا، تو اعلیٰ حیوانات کا پنجرہ بالکل ٹھیک تھا، لیکن دوسرے پنجرے میں خونی فسادات اور پگڑیوں کے سِروں اور طرپوشوں اور اونی چادروں اور ہڈیوں اور ماس کے علاوہ کوئی زیرِ مطالعہ نمونہ باقی نہیں بچا تھا۔ یہ عقلی حیوانات ایک مذہبی مسئلے پر اختلاف کا شکار ہوئے تھے اور اس مسئلے کو ایک 'اعلٰی عدالت' میں لے گئے۔
فرد یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ کردار کے حقیقی غرور میں مبتلا انسان گھٹیا ترین اعلیٰ حیوانات تک پہنچنے کا دعویٰ بھی نہیں کر سکتا۔ یہ بالکل واضح ہے کہ وہ دستوری طور پر اس بلندی تک پہنچنے کے لیے معذور ہے؛ یہ کہ وہ دستوری طور پر ایک نقص کا شکار ہے جس کے باعث ایسی کوئی کوشش ہمیشہ کے لیے ناممکن ہو جانی چاہیئے، چونکہ یہ عیاں ہے کہ اس میں یہ نقص مستقل، لازوال اور ناقابلِ انسداد ہے۔
میرے خیال میں یہ نقص حسِ اخلاق ہے۔ ایسی کوئی چیز رکھنے والا یہ اکلوتا حیوان ہے۔ یہ اس کی تنزلی کا راز ہے۔ یہ ایسی صفت ہے جو اسے غلط کرنے کے قابل کرتی ہے۔ اس کا اور کوئی منصب نہیں ہے۔ یہ کوئی اور فعل سرانجام دینے کے قابل ہی نہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا تھا کہ نفرت کا کوئی اور مقصد ہو۔ اس کے بغیر، انسان کچھ غلط نہیں کر سکتا تھا۔ وہ فوراً اعلیٰ حیوانات کے رتبے پر عروج کر جائے گا۔
چونکہ حسِ اخلاق کا صرف ایک ہی منصب ہے، اکلوتی اہلیت (یعنی انسان کو غلط کرنے کے قابل بنانا) یہ صریحاً اس کے لیے کسی قدر کی حامل نہیں۔ یہ اس کے لیے اتنی ہی بے قدر ہے جیسے کوئی بیماری ہو۔ درحقیقت، یہ اعلانیہ طور پر ایک بیماری ہے۔ باؤلا پن برا ہے، لیکن یہ اس بیماری جتنا برا نہیں۔ باؤلا پن انسان کو ایک کام کرنے کے قابل بناتا ہے، جو وہ صحت مند حالت میں کبھی نہ کرے: زہریلے دانتوں سے کاٹ کر اپنے پڑوسی کو مارنا۔ باؤلے پن کا شکار کوئی بھی انسان بہتر نہیں ہے: حسِ اخلاق انسان کو غلط کرنے کے قابل بناتی ہے۔ یہ اسے ہزاروں طریقوں سے غلط کرنے کے قابل بناتی ہے۔ باؤلا پن تو حسِ اخلاق کے مقابلے میں ایک معصوم بیماری ہے۔ تو پھر، حسِ اخلاق کا حامل کوئی بھی انسان بہتر انسان نہیں ہے۔ تو کیا آدم پر خدائی لعنت اس کی وجہ ہے؟ صاف طور پر یہ آغاز میں جو تھی: انسان پر حسِ اخلاق کا عذاب؛ اچھائی کو برائی سے ممتاز کرنے کی صلاحیت؛ اور اس کے ساتھ، لازماً، برائی کرنے کی صلاحیت؛ چونکہ مُرتکب میں برائی کے شعور کے بغیر کوئی برا فعل سرزد نہیں ہو سکتا۔
تو اس لیے میں نتیجہ نکالتا ہوں کہ ہم، کسی دُور پار کے جد سے (کوئی خردبینی ایٹم جو پانی کے ایک قطرے کے عظیم افقوں کے مابین اتفاقاً مزے لے رہا ہو گا) حشرہ در حشرہ، حیوان در حیوان، خزندہ در خزندہ، طویل راستے پر گندگی اور کم تر معصومیت پر اترتے رہے، یہاں تک کہ ہم ارتقاء کی ارذل ترین منزل پر آ پہنچے (جسے نسلِ انسانی کا نام دیا جا سکتا ہے)۔ ہم سے ارذل کچھ نہیں ہے۔
(مارک ٹوئن)

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں