سائنسدانوں کے ایک گروہ نے 5 بندروں کو ایک پِنجرے میں بند کیا۔۔
اس پِنجرے میں انہوں نے ایک سیڑھی اور اسکے اوپر کچھ کیلے بھی رکھے۔۔۔
تجربہ شروع ہوا۔،۔،
جب کوئی بندر سیڑھی پر چڑھنا شروع کرتا تو سائنسداں نیچے کھڑے ہوئے بندروں پر ٹھنڈا پانی برسانا شروع کر دیتے -
اس واقع کے بعد جب بھی کوئی بندر کیلوں کی لالچ میں اوپر جانے کی کوشش کرتا تو نیچے کھڑے ہوئے بندر اسکو سیڑھی پر چڑھنے نہ دیتے۔۔۔
کچھ دیر کے بعد کیلوں کے لالچ کے باوجود کوئی بھی بندر سیڑھی پر چڑھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا-
سائنسدانوں نے فیصلہ کیا کہ ان میں سے ایک بندر کو بدل دیا جائے-
پہلی چیز جو نئے آنے والے بندر نے کی وہ سیڑھی پر چڑھنا تھا لیکن فورا ہی اسے دوسرے بندروں نے مارنا شروع کر دیا-
کئی دفعہ پٹنے کے بعد نئے آنے والے بندر نے ہمیشہ کے لئے طے کر لیا کہ وہ سیڑھی پر نہیں چڑھے گا حتیٰ کہ اسے معلوم نہیں کہ کیوں؟
سائنسدانوں نے ایک اور بندر تبدیل کیا اور اسکا بھی یہی حشر ہوا-
اور مزے کہ بات یہ ہے کہ اس سے پہلے تبدیل ہونے والا بندر بھی اسے مارنے والوں میں شامل تھا -
اسکے بعد تیسرے بندر کو تبدیل کیا گیا اور اسکا بھی یہی حشر (پٹائی) ہوا -
یہاں تک کہ سارے پرانے بندر نئے بندر سے تبدیل ہو گئے اور سب کے ساتھ یہی سلوک ہوتا رہا -
اب پِنجرے میں صرف نئے بندر رہ گئے جس پر کبھی سائنسدانوں نے بارش نہیں برسائی لیکن پھر بھی وہ سیڑھی پر چڑھنے والے بندر کی پٹائی کرتے-
اگر یہ ممکن ہوتا کہ بندروں سے پوچھا جائے کہ تم کیوں سیڑھی پر چڑھنے والے بندر کو مارتے ہو یقیناً وہ جواب دیں گے کہ ہمیں نہیں معلوم؟
ہم نے تو سب کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔۔۔۔
احباب۔۔!
سوچنا یہ ہے کہ ہم بھی کہیں ایسا تو نہیں کر رہے۔
اسی طرح دیکھا دیکھی رسم و رواج پروان چڑھتے ہیں،
امید ہے آپ اس پیغام کو سمجھ گئے ہونگے۔،۔،
اس بات کو ضرور دوسروں کو سمجھائيے تاکہ وہ بھی اپنے آپ سے سوال کریں کہ ہم اپنی زندگی کیوں ایسے گزار رہے ہیں جیسا کہ وہ گزر رہی ہے۔۔
اہل عقل و دانش کبھی بھی اندھی تقلید نہیں کرتے،
بلکہ ہر بات کو سوچ سمجھ کر اور مکمل تحقیق کرنے کے بعد اپنے لئے راہ عمل متعین کرتے ہیں۔
اس پِنجرے میں انہوں نے ایک سیڑھی اور اسکے اوپر کچھ کیلے بھی رکھے۔۔۔
تجربہ شروع ہوا۔،۔،
جب کوئی بندر سیڑھی پر چڑھنا شروع کرتا تو سائنسداں نیچے کھڑے ہوئے بندروں پر ٹھنڈا پانی برسانا شروع کر دیتے -
اس واقع کے بعد جب بھی کوئی بندر کیلوں کی لالچ میں اوپر جانے کی کوشش کرتا تو نیچے کھڑے ہوئے بندر اسکو سیڑھی پر چڑھنے نہ دیتے۔۔۔
کچھ دیر کے بعد کیلوں کے لالچ کے باوجود کوئی بھی بندر سیڑھی پر چڑھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا-
سائنسدانوں نے فیصلہ کیا کہ ان میں سے ایک بندر کو بدل دیا جائے-
پہلی چیز جو نئے آنے والے بندر نے کی وہ سیڑھی پر چڑھنا تھا لیکن فورا ہی اسے دوسرے بندروں نے مارنا شروع کر دیا-
کئی دفعہ پٹنے کے بعد نئے آنے والے بندر نے ہمیشہ کے لئے طے کر لیا کہ وہ سیڑھی پر نہیں چڑھے گا حتیٰ کہ اسے معلوم نہیں کہ کیوں؟
سائنسدانوں نے ایک اور بندر تبدیل کیا اور اسکا بھی یہی حشر ہوا-
اور مزے کہ بات یہ ہے کہ اس سے پہلے تبدیل ہونے والا بندر بھی اسے مارنے والوں میں شامل تھا -
اسکے بعد تیسرے بندر کو تبدیل کیا گیا اور اسکا بھی یہی حشر (پٹائی) ہوا -
یہاں تک کہ سارے پرانے بندر نئے بندر سے تبدیل ہو گئے اور سب کے ساتھ یہی سلوک ہوتا رہا -
اب پِنجرے میں صرف نئے بندر رہ گئے جس پر کبھی سائنسدانوں نے بارش نہیں برسائی لیکن پھر بھی وہ سیڑھی پر چڑھنے والے بندر کی پٹائی کرتے-
اگر یہ ممکن ہوتا کہ بندروں سے پوچھا جائے کہ تم کیوں سیڑھی پر چڑھنے والے بندر کو مارتے ہو یقیناً وہ جواب دیں گے کہ ہمیں نہیں معلوم؟
ہم نے تو سب کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔۔۔۔
احباب۔۔!
سوچنا یہ ہے کہ ہم بھی کہیں ایسا تو نہیں کر رہے۔
اسی طرح دیکھا دیکھی رسم و رواج پروان چڑھتے ہیں،
امید ہے آپ اس پیغام کو سمجھ گئے ہونگے۔،۔،
اس بات کو ضرور دوسروں کو سمجھائيے تاکہ وہ بھی اپنے آپ سے سوال کریں کہ ہم اپنی زندگی کیوں ایسے گزار رہے ہیں جیسا کہ وہ گزر رہی ہے۔۔
اہل عقل و دانش کبھی بھی اندھی تقلید نہیں کرتے،
بلکہ ہر بات کو سوچ سمجھ کر اور مکمل تحقیق کرنے کے بعد اپنے لئے راہ عمل متعین کرتے ہیں۔
(ڈاکٹر شاھد مسعود کے فیس بک وال سے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں