بین الاقوامی سیاست کے کارندوں کو فوری طور پر اپنی آنکھیں کھول لینی چاہئیں اور کشمیر کے نوجوانوں کو اندھا کرنے کی بھارتی فوج کی ناپاک انسانیت سوز کارروائیوں کا جائزہ لینا چاہئے۔ بھارت میں انسانی احترام کو پامال کرنے کا سلسلہ ایک مدت سے جاری ہے۔ وہاں حکمران اور وہاں کے متعصب سیاستدان اپنے عوام کو مذہبی تعصب پر اکساتے ہیں۔ انہیں پرجوش کرنے کے بعد مذہبی منافرت کے میدان میں دھکیلتے ہیں۔ نسلی تعصب سے بھرپور کرنے کے بعد اپنے مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کرنا بھی بھارتی دانشوروں اور فوج سے لیس حکمرانوں کا طرز قدیم ہے۔کشمیر کی وادی میں مقیم آزادی پسند مسلمان نصف صدی سے زیادہ کا وقت غلام بن کر گزار رہے ہیں۔ بھارت کی حکومت نے زبردستی ان کو اپنے ساتھ ملا کر ان کا حیوانی طرز پر استحصال جاری رکھا ہوا اور پھر اپنی ریاست کی فوجی قوت کو ان آزادی پسند مسلمانوں کو کچلنے کیلئے وقتاً فوقتاً کارروائی کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔اقوام متحدہ پر براجمان بین الاقوامی طاقتیں پوری طرح سے اس ظلم کے بڑھاوے میں بھارت کی خاموش مددگار ہیں۔ آزادی ہند کے بعد تقسیم کے جن فارمولوں پر عمل کرنا چاہئے تھا ان میں کشمیرکی آزادی بھی شامل تھی لیکن بھارت کی جابرانہ اور مسلم کش سوچ کے باعث کشمیر کو زبردستی گن پوائنٹ پر غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لیا گیا۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کشمیر پاکستان ہی کا آزاد اثاثہ ہے۔ کشمیر جغرافیائی اور مذہبی و ثقافتی پہلو سے پاکستان ہی کا اٹوٹ انگ ہے لیکن روز اول ہی سے بھارتی بنیا نیتاﺅں کا ایک رٹا رٹایا جملہ یہ رہا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔کشمیر آزادی پسند عوام کو مسلسل جبر کی چکی میں پستے رہنا بھارت ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی مسلم کش طاقتوں کا طے شدہ ایجنڈا ہے۔ سب واضح ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم طاقتوں کی دائمی باہمی آویزش کا تقاضہ یہی ہے کہ مسلمانوں کو دنیا کے ہر خطے میں ذلیل و رسوا کیا جائے۔ اسرائیل اور بھارت کا سیاسی، فوجی اور نظریاتی گٹھ جوڑ اپنے مذموم مسلم کش مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پوری دنیا میں مسلم کش کارروائی کو بتدریج جاری رکھتا ہے۔مسئلہ کشمیر محض ایشیائی علاقائی مسئلہ نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی مسلمان سلامتی کا مسئلہ ہے۔سال میں ایک دو مرتبہ ظلم کی داستان کو عملی طور پر دہرانا بھارت کی فوج کی مشق ستم کارروائی ہوتی ہے۔
گزشتہ ہفتے میں جس جارحیت کیساتھ 50 کے قریب مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور 1500 کے قریب نوجوانوں، بچوں اور عورتوں کو زخمی کیا گیا ہے۔ نیز مستورات کی عزتوں کو بے حرمت کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ یا بین الاقوامی انسانیت دوستی کی دعویدار کسی بھی تنظیم کی جانب سے کسی بھی مذمت یا کسی بھی افسوس اظہار سامنے نہیں آیا۔ دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی بعض جگہ پر نسلی، مذہبی فسادات ہوتے ہیں تو بین الاقوامی طاقتیں اپنی مرضی کا حل مسلط کر دیتی ہیں اور وہاں پر عموماً ہی نہیں بلکہ ہمیشہ مسلمانوں کی قوت کو زیر کرنے کے اقدامات تجویز کئے جاتے ہیں۔برما میں مسلم کش فسادات شروع ہوئے تو پہلے پہل بین الاقوامی برادری خاموش رہی پھر کچھ عرصے بعد انسانی ہمدردی کے اقدامات کے اعلانات سننے میں آئے لیکن ظالم و جابر مسلم کش کرداروں کو سزا دینے کا کوئی بھی عمل دیکھنے میں نہ آیا۔
دوسری جانب مسلمان ممالک کی مختلف بین الممالک تنظیمیں ہیں یا اسلامی ممالک کی حکومتیں ہیں۔ وہ بھی مسلم کش اقدامات پر اپنی زبان کو مصلحت کے طاق میں گروی رکھ دیتی ہیں۔گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات میں مسلمانوں کے قاتل مودی کو جن اعزازات سے نوازا گیا ہے وہ سب پر اظہر من الشمس ہے اور سرکاری طور پر جذبہ خیر سگالی کا اظہار کرتے ہوئے وہاں پر ایک بڑے مندر کی تعمیر کی عنائت بھی کی گئی۔مسلمانوں کے باہمی افتراق کا ایک کڑوا پھل یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے ذمہ دار اور مرکزی اہم ترین ممالک میں بھی بھارتی مسلم کش حکمرانوں کی پذیرائی جس انداز سے کی جاتی ہے وہ لائق شرم ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے جب مسلم قاتل مودی کو وہاں کا سب سے بڑا ایوارڈ عطا کیا گیا تو پاکستانی مسلمان نہایت شرمندہ تھے۔ تازہ ترین ظلم پر ہماری حکومت کا ردعمل حسب سابق ہے۔ محترم وزیراعظم تو ایسے نازک مراحل پر بہت ہی طے شدہ احتیاط سے کام لیتے ہیں، البتہ سرکاری افسر شاہی معمول کے مطابق رابطے کرتی ہے اور اپنی دردمندانہ شکایت کیلئے اپنے پرانے ہمدردوں کو جگانے کی کوشش کرتی ہے۔ جو پہلے ہی اخبارات کی زینت ہوتی ہیں۔ بھلا ہو امیر عساکر جنرل راحیل کا کہ جنہوں نے فوجی قیادت کو جمع کیا اور بین الاقوامی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر کو حل کروائے۔
بھارت کے مذموم کشمیری کردار کو محض کشمیر تک محدود سمجھنا ہمارے حکمرانوں کی نادانی ہے۔ بلکہ وہ پاکستان پاکستان کو نقشہ دنیا سے ختم کرنے کی خاموش چالیں چل رہا ہے۔فوری اقدامات کے طور پر تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کو ایک جگہ جمع کرکے قومی یکجہتی کےلئے قابل عمل اقدامات نہ صرف تجویز کئے جائیں، بلکہ ان پر فوری عمل کیلئے تمام ذرائع اور تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائی جائیں۔
گزشتہ ہفتے میں جس جارحیت کیساتھ 50 کے قریب مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور 1500 کے قریب نوجوانوں، بچوں اور عورتوں کو زخمی کیا گیا ہے۔ نیز مستورات کی عزتوں کو بے حرمت کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ یا بین الاقوامی انسانیت دوستی کی دعویدار کسی بھی تنظیم کی جانب سے کسی بھی مذمت یا کسی بھی افسوس اظہار سامنے نہیں آیا۔ دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی بعض جگہ پر نسلی، مذہبی فسادات ہوتے ہیں تو بین الاقوامی طاقتیں اپنی مرضی کا حل مسلط کر دیتی ہیں اور وہاں پر عموماً ہی نہیں بلکہ ہمیشہ مسلمانوں کی قوت کو زیر کرنے کے اقدامات تجویز کئے جاتے ہیں۔برما میں مسلم کش فسادات شروع ہوئے تو پہلے پہل بین الاقوامی برادری خاموش رہی پھر کچھ عرصے بعد انسانی ہمدردی کے اقدامات کے اعلانات سننے میں آئے لیکن ظالم و جابر مسلم کش کرداروں کو سزا دینے کا کوئی بھی عمل دیکھنے میں نہ آیا۔
دوسری جانب مسلمان ممالک کی مختلف بین الممالک تنظیمیں ہیں یا اسلامی ممالک کی حکومتیں ہیں۔ وہ بھی مسلم کش اقدامات پر اپنی زبان کو مصلحت کے طاق میں گروی رکھ دیتی ہیں۔گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات میں مسلمانوں کے قاتل مودی کو جن اعزازات سے نوازا گیا ہے وہ سب پر اظہر من الشمس ہے اور سرکاری طور پر جذبہ خیر سگالی کا اظہار کرتے ہوئے وہاں پر ایک بڑے مندر کی تعمیر کی عنائت بھی کی گئی۔مسلمانوں کے باہمی افتراق کا ایک کڑوا پھل یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے ذمہ دار اور مرکزی اہم ترین ممالک میں بھی بھارتی مسلم کش حکمرانوں کی پذیرائی جس انداز سے کی جاتی ہے وہ لائق شرم ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے جب مسلم قاتل مودی کو وہاں کا سب سے بڑا ایوارڈ عطا کیا گیا تو پاکستانی مسلمان نہایت شرمندہ تھے۔ تازہ ترین ظلم پر ہماری حکومت کا ردعمل حسب سابق ہے۔ محترم وزیراعظم تو ایسے نازک مراحل پر بہت ہی طے شدہ احتیاط سے کام لیتے ہیں، البتہ سرکاری افسر شاہی معمول کے مطابق رابطے کرتی ہے اور اپنی دردمندانہ شکایت کیلئے اپنے پرانے ہمدردوں کو جگانے کی کوشش کرتی ہے۔ جو پہلے ہی اخبارات کی زینت ہوتی ہیں۔ بھلا ہو امیر عساکر جنرل راحیل کا کہ جنہوں نے فوجی قیادت کو جمع کیا اور بین الاقوامی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر کو حل کروائے۔
بھارت کے مذموم کشمیری کردار کو محض کشمیر تک محدود سمجھنا ہمارے حکمرانوں کی نادانی ہے۔ بلکہ وہ پاکستان پاکستان کو نقشہ دنیا سے ختم کرنے کی خاموش چالیں چل رہا ہے۔فوری اقدامات کے طور پر تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کو ایک جگہ جمع کرکے قومی یکجہتی کےلئے قابل عمل اقدامات نہ صرف تجویز کئے جائیں، بلکہ ان پر فوری عمل کیلئے تمام ذرائع اور تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائی جائیں۔
(روزنامہ نوائے وقت)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں