جمعرات، 14 جولائی، 2016

ایدھی کا آخری پیغام کیا تھا؟---


محمد اکمل خان
میری ماں نے مجھے بچپن میں درس دیا کہ بیٹا تم انسانیت کا بھلا کرنا۔ یہ ٹکڑے ٹکڑے کر دینے والی چیزوں کا بالکل خیال نہیں کرنا۔ ایدھی صاحب بولتے جا رہے تھے اور الفاظ سیدھا ذہن کی تختی پر نقش ہوتے جا رہے تھے۔ ڈاکو مینٹری بناتے ہوئے ڈائریکٹر کے مد نظر ایک ہی چیز ہوتی ہے کہ وہ جب کسی کا انٹرویو کرے، تو گفتگو موضوع سے ہٹے نہ اور کم سے کم وقت میں بڑی سے بڑی بات مل جائے جسے موثر ابلاغ کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ 5 منٹ کی گفتگو میں ایدھی صاحب نے ایدھی فاؤنڈیشن کی خدمت اور دہشت گردی کے موضوع پر جو الفاظ کہے وہ کسی بھی ماہر ابلاغ کی زبان سے نکلے علمی فلسفوں سے زیادہ موثر اور جامع تھے۔ گذشتہ برس دہشت گردی کے واقعات سے متاثرین کے بحالی کے لئے ہسپتالوں کے میڈیکل سٹاف اور ہنگامی حالات میں کام کرنے والے رضاکاروں کی خدمات کو اُجاگر کرنے کے لئے کراچی میں قائم جناح پوسٹ گریجویٹ ہسپتال پر فلم بنانے کا پراجیکٹ میرے ذمے لگا۔ کراچی شہر میں ہنگامی حالت تو نوشتہ دیوار ہے۔ لاشیں گرنا اور زخمی ہونا تو معمول کی بات ہے۔ محترمہ سیمی جمالی سے جناح پوسٹ گریجویٹ ہسپتال کی متاثرین دہشت گردی کی خدمت کے حوالے سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ جب ایک بم دھماکے کے زخمیوں کو ہسپتال کی ایمرجنسی میں منتقل کیا جا رہا تھا ،تو ایمرجنسی کے دروازے پر دوسرا دھماکہ ہوا جس میں بہت سے افراد شہید اور زخمی ہوئے۔ ڈاکٹر سیمی جمالی نے بتایا کہ جب یہ دھماکہ ہوا تو جناب عبدالستار ایدھی جنہیں اللہ رب العزت نے معجزانہ طور پر اس دھماکے میں محفوظ رکھا بھی وہیں موجود تھے اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے کے عمل کی نگرانی کر رہے تھے۔ یہ سننا تھا کہ فوراً فیصلہ کیا کہ جو بھی ہو میری کوشش ہو گی کہ عبدالستار ایدھی صاحب کا انٹرویو بھی کروں گا اور ان سے پوچھنے کی کوشش کروں گا کہ وہ کیا جذبہ تھا کہ بیماری اور ضعف عمری کے باوجود وہ زخمی بہن بھائیوں کے مدد کے لئے خود ہسپتال کے باہر آن کھڑے ہوئے۔ ایدھی صاحب جو کہ گذشتہ کئی ماہ سے علیل تھے، انہوں نے بھی موضوع کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے بات کرنے کی حامی بھرلی۔ ماضی میں مختلف ڈاکومینٹریوں کی ریکارڈنگ کے دوران بہت سے رفاعی اداروں کے سربراہوں کو انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ رفاعی اداروں کے بڑے بڑے دفاتر اور کمروں کو یخ بستہ کر دینی والی مشینوں کی موجودگی میں گھومنے والی کرسیوں پر اکڑی گردن کے ساتھ تفاخر سے اپنی کامیابیوں کی داستانیں سناتے مداریوں کو دیکھ کر ذہن میں خیال آیا کہ ایدھی صاحب کی رہائش کا کمرہ تو کم از کم خاصہ بڑا ہو گا اور ہمیں ریکارڈنگ کرتے ہوئے روشنی وغیرہ کے مسائل نہیں آئیں گے اور اس کے پیش نظر میں نے اپنے سٹاف سے کہا کہ ہم ایدھی صاحب کا انٹرویو دو کیمروں پر ریکارڈ کریں گے تا کہ کسی قسم کی تکنیکی غلطی کا احتمال نہ رہے۔ جب میں عبدالستارایدھی صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو مجھے لگا کہ جیسے کسی نے میرے پیٹ میں ایک گھونسا دے مارا ہو۔ ایدھی صاحب ایک 10 ضرب 10 کے چھوٹے سے کمرے میں بیڈ پر علیل لیٹے ہوئے تھے اور وہاں اتنی جگہ نہیں تھی کہ ہم دو کیمرے رکھ کر ریکارڈنگ کر سکیں۔ کراچی سے چترال اور خیبر سے چمن تک دنیا کہ سب سے بڑھی ایمبولینس سروس اور ہزاروں فلاحی سینٹر بنانے والا روشنی کا مینار میرے سامنے تھا۔ لاکھوں افراد کا سہارا بننے والے عبدالستار ایدھی کو سہارا دے کر بٹھایا ،تو ذہن میں ایک خدشہ تھا کہ ایدھی صاحب پتا نہیں دہشت گردی کے موضوع پر بولیں گے بھی یا نہیں۔ اگر بولیں گے بھی تو وہ اس ڈر اور خوف کے ماحول میں کس حد تک جائیں گے۔ دل میں ایک خدشہ اور بھی تھا کہ ایدھی صاحب بہت علیل ہیں اور پتا نہیں کہ وہ دوبارہ کیمرے کے سامنے آئیں گے بھی کہ نہیں۔ نزدیکی مسجد کے لاوڈ اسپیکر سے شعلہ بیان مولوی صاحب جمعہ کا خطبہ جاری رکھے ہوئے تھے کہ میں نے ایدھی صاحب سے سوالات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ایدھی صاحب کی گفتگو شروع ہوئی تو میں ایک سچے اور کھرے آدمی کے منہ سے نکلے لفظوں کے سحر میں بتلا ہوتا جا رہا تھا۔ مجھے شاید اس گھڑی یہ بھی یاد نہیں تھا کہ میری گفتگو کا موضوع کیا ہے۔ خیر ایدھی صاحب نے جب ایدھی فاؤنڈیشن کی خدمات کے متعلق بات ختم کی تو میرے کیمرہ مین نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ خیالات کو یکجا کر کے دہشت گردی کے حوالے سے سوال کیا تو جناب عبدالستار ایدھی نے مختصر سے پیغام میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ایک قابل عمل حل نہ صرف تجویز کر دیا بلکہ دہشت گردی کا حصہ بن جانے والوں کو اپیل بھی کر دی۔ وہ اندیشہ جو انٹرویو شروع کرتے ہوئے تھا کہ شاید یہ ایدھی صاحب کا آخری انٹرویو ہو سچ ثابت ہوا۔ کل رات برادر اویس توحید کے فیس بک پر ایدھی صاحب کی رحلت کا پیغام پڑا تو زندگی کا حاصل وہ تمام لمحات یادوں کی پٹاری سے نکل کر سامنے آن کھڑے ہوئے۔ بابا جی تو گئے، لیکن وہ جو آخری پیغام دے گئے ،وہ آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ سوچتا ہوں کہ ڈھلیں گے یہ اندھیرے کیسے لوگ رخصت ہوئے اور لوگ بھی کیسے کیسے (بحوالہ: آئی بی سی اُردو) ٭…٭…٭


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں