بدھ، 20 جولائی، 2016

منا فع بخش تجارت

رضا الدین صدیقی


حضر ت صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ کے آباؤ اجداد عرب تھے ۔ وہ طلوع اسلام سے بہت پہلے ہجر ت کرکے ساحل فرات پر واقع ایک گاؤں میں آباد ہوگئے تھے ۔ جب رومیوں کے لشکر نے اس علاقہ پر چڑھائی کی تو کمسن صہیب کو جنگی قیدی بنالیا اور عرب کے قبیلہ بنو کلب کے کسی شخص کے ہاتھ فروخت کردیا ۔ وہ انہیں مکہ لے آیا جہاں عبداللہ بن جدعان نے انھیں خرید کرآزاد کردیا ۔ آپ نے مکہ ہی میں رہائش اختیا ر کرلی۔ انکے مقد ر نے یاوری کی اور انھیں نبی کریم ﷺ کے دست اقدس پر اسلام قبول کرنے کا شر ف حاصل ہوا ۔ صہیب نے مکہ میں کاروبار شروع کیا جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بڑی برکت عطا ء فرمائی اور ان کا شمار مکہ کے مالدار تاجروں میں ہونے لگا۔حضور انور ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو صہیب کی طبیعت بھی بڑی بے چین رہنے لگی ۔انکے دلِ مضطر کوکسی پہلو قرار نہ آتا۔ آخر انھوں نے بھی ہجرت کا مصمم ارادہ کرلیا۔جب وہ مکہ سے رخصت ہونے لگے تواہل مکہ کو خبر ہوگی ۔ انکے نوجوانوں کے ایک جھتے نے آکر ان کا گھیراؤ کرلیااور کہنے لگے ۔اے صہیب تم یہاں آئے تو مفلس و کنگال تھے۔ ایک حقیر انسان تھے۔ یہاں رہ کر تم نے بے شمار دولت کمائی اورمعاشرے میں بلند مقام حاصل کیا اب تم یہاں سے نکلنا چاہتے ہواور اپنا مال ومتاع بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہو ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ آپ نے فرمایا’’ اے گروہ قریش تمھیں خبر ہے کہ میں ایک بہتر ین تیر انداز ہوں اللہ کی قسم تم لوگ مجھے اس وقت نہیں پہنچ سکوگے ۔ جب تک میں اپنا ترکش خالی نہ کرلوں ، جان لو کہ میر ے تیر ختم ہوگئے تو میں تلوار سے لڑوں گا۔اب اگر تم یہی چاہتے ہو تو آگے بڑھو ۔لیکن بہتر ہے کہ میر ا مال لے لو اورمیراراستہ چھوڑ دو‘‘۔ صہیب عشق کے اس امتحان سے سرخرو ہوکر جب سرکارِ دوعالم کی خدمت اقدس میں پہنچے تو آپکی زبان مبارک سے بے ساختہ نکلا رَبِحَ صہیب ،رَبِحَ صہیب بڑامنافع کمایا صہیب نے،بڑامنافع کمایا صہیب نے اس موقع پر قرآن مجید کی یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔ ’’اورلوگوں میں وہ بھی ہے جو اپنی جان(عزیز) کو اللہ کی خوشنودیاں حاصل کرنے کیلئے بیچ دیتا ہے اور اللہ اپنے بندوں پر بہت ہی مہربان ہے۔(البقرۃ 207) صہیب کو اللہ اور اسکے پیارے رسول کی بارگاہِ میں بڑا تقر ب حاصل ہوا آپ خود فرماتے ہیں اسلام کی تاریخ میں کوئی بھی بیعت ، غزوہ اور سِریہ ایسا نہیں ہے جس میں مجھے حضور کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ شجا عت اوربہادری کے ساتھ آپ اپنی سخاوت اور خوش طبعی کی وجہ سے بھی حضور کے ہاں بڑے مقبول ٹھہرے ۔حضر ت انس فرماتے ہیں : حضور نے ارشاد فرمایا ،سبقت لے جانے والوں میں چار ہیں ۔ میں (محمدصلی اللہ علیہ وسلم ) عربوں میں ، صہیب رومیوں میں ،سلمان اہل فارس میں اور بلال اہل حبش میں ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں