بدھ، 20 جولائی، 2016

وال پیپر: اور کتنے یوم سیاہ



کشمیریوں پر مظالم کے خلاف آج ملک بھر میں یوم سیاہ منایا جا رہا ہے تاکہ عالمی (مردہ) ضمیر کی توجہ بھارتی افواج کے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مبذول کرائی جا سکے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کیخلاف ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں جن میں مودی کے پتلے اور بھارتی پرچم نذر آتش کئے گئے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کی عمر بھی اتنی ہی ہے جتنی پاکستان کی عمر ہے۔ آج تک تو دنیا نے مسئلہ کشمیر حل کرانے میں عملاً دلچسپی نہیں لی۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو ساری دنیا دیکھ رہی ہے لیکن اس جدوجہد کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام میں بھارت کے خلاف بہت زیادہ غم و غصہ ہے۔ ہندوستانی فورسز نہتے مظاہرین پر گولیاں چلا رہی ہے۔ بھارتی فوج پیلیٹ گر استعمال کر رہی ہے جس کی وجہ سے تقریباً سو کے قریب کشمیری نوجوانوں کی بینائی خطرے میں ہے۔ بھارت نے کشمیر میں ظلم و ستم کی انتہا کر دی ہے۔ حکومت فوج کم کرنے کے بجائے مزید کشمیر میں تعینات کر رہی ہے تاکہ مزید ظلم کیا جا سکے۔ کشمیر کی جدوجہد آزادی کو 85 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ کشمیریوں کی پانچویں نسل ہندوستان کیخلاف سڑکوں پر نکل آئی ہے۔ بھارتی حکومت مسئلہ کشمیر کو سڑک، بجلی اور پانی کا مسئلہ بنا کر پیش رہی ہے جبکہ سڑکوں پر موجود کشمیری نوجوان پانی بجلی نہیں صرف آزادی مانگ رہے ہیں۔ برہان وانی کی شہادت سے جو انقلاب آیا ہے اس موقع کو ہاتھ سے نہ گنوایا جائے۔ہم نصف صدی سے ایک ہی بات کئے چلے آ رہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قرارداوں کے مطابق نکالا جائے۔ اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے دفتر میں یادداشتیں جمع کرانے سے کبھی کوئی فائدہ ہوا؟ کشمیری عوام کا بھارتی فوج کے مدِمقابل آنا، پوری وادی کا سراپا احتجاج بننا اور عالمی برادری سے اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنا ہی عوامی ریفرنڈم ہے۔ ہمارے شدید احتجاج کی بھارت نے کب پرواہ کی ہے؟ بھارتی ہائی کمشنر کی دفتر خارجہ میں طلبی سے بھارت کی صحت پر کبھی کوئی فرق پڑا؟ اسرائیل کی فلسطینیوں اور بھارت کی کشمیریوں کیلئے ہٹ دھرمی اور بے حسی ایک جیسی ہے۔ دونوں ہٹ دھرم ممالک امریکہ کے کارِخاص ہیں۔ ہم یہ بات درجنوں بار دہرا چکے ہیں کہ بھارتی حکومت سکیورٹی کونسل کی قراردادوں اور انسانی حقوق کی پاسداری کرے۔ بھارت ہماری ہر بات کو ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کور کمانڈرز کانفرنس میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کی مذمت کر چکے ہیں۔

جموں و کشمیر 92 فیصد مسلمان اکثریت کا علاقہ ہے چار بڑی پاک بھارت جنگیں ہو چکی ہیں۔ چھ لاکھ سے زائد کشمیری جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ آج کی دنیا میں تنازعات جبر سے حل نہیں کئے جا سکتے۔ پھر کیا وجہ ہے بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق غیر جانبدارانہ رائے شماری کرانے سے کیوں کتراتا ہے؟ 90 سے زیادہ کشمیری نوجوانوں کی آنکھیں ضائع ہونے پر انسانی حقوق کا دم بھرنے والے ادارے حرکت میں کیوں نہیں آتے؟

آج تمام پاکستانی سفارت خانے اور قونصل خانے بھارت کی ریاستی دہشتگردی کیخلاف اقوام متحدہ میں قراردادیں جمع کرائیں گے۔ کیا یوم سیاہ منانے سے عالمی ضمیر جاگ جائیگا؟ کیا 7 لاکھ بھارتی فوج مقبوضہ علاقے سے نکال لی جائیگی؟ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور شہادتوں کے خلاف ہم سال میں کئی بار ریلیاں نکالتے ہیں۔ غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں لیکن عالمی ضمیر بیدار نہیں ہوتا۔ مقبوضہ کشمیر میں 1989ء سے شروع کی گئی جدوجہد آزادی کو دبانے کیلئے بھارتی سورماؤں نے اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید جبکہ 13 ہزار سے زائد کشمیری نوجوانوں کو غائب کر رکھا ہے تاہم بھارت کا سینہ تان کر مقابلہ کرنے والے 6 لاکھ لوگ اپنے جسم کو چھلنی کر کے شمع حریت کو جلائے ہوئے ہیں۔ بھارتی قابض انتظامیہ نے کالے قوانین کا نفاذ کرتے ہوئے ایک لاکھ 32 ہزار سے زائد آزادی کے متوالوں کو مختلف عقوبت خانوں میں بند کر رکھا ہے۔ پاکستان اس وقت نیوکلیئر دوڑ میں بھارت کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے جس کی وجہ سے بھارتی فوج میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ ہندوستانی فوج کے سر پر لٹکتی پاکستانی نیوکلیئر تلوار نے مودی اوباما کو سر جوڑنے پر مجبور کر دیا ہے دو سال میں دونوں رہنما سات بار مل چکے ہیں۔ پاکستان نے پچھلے دس سال میں چار ری ایکٹر تیار کئے ہیں یہ ہندوستان سے چار گنا زیادہ ہیں۔ بھارتی لابی مسلسل پاکستان مخالف پراپیگنڈہ میں مصروف رہتی ہے اب بھی امریکی کانگریس کے اجلاس میں اس لابی نے کہا کہ جب پاکستان امریکہ کے مفادات میں کام نہیں کر رہا اور نہ ہی طالبان کے خلاف کوئی کارروائی کر رہا ہے تو پھر ہم پاکستان کو مالی امداد کیوں دیں۔ پاک چین اقتصادی راہ داری منصوبے نے امریکہ کو خدشات میں مبتلا کر رکھا ہے۔ امریکہ کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے کیونکہ اسے چین کیخلاف اس خطے میں ایک طاقت تیار کرنی ہے اسی لئے وہ بھارت کو جدید اسلحے سے بھر رہا ہے۔ ایک طرف امریکہ کشمیر کے مسئلہ کو پرامن طور پر حل کرنے کیلئے پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کرنے کی تلقین کر رہا ہے۔ دوسری جانب کشمیر میں جاری بھارتی ریاستی دہشتگردی کی کسی بھی امریکی ذمہ دار نے مذمت نہیں کی۔ کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ کی زیرالتوا قراردادیں امریکہ کو دکھائی کیوں نہیں دیتیں؟ 2007ء سے اب تک غزہ میں محصور لاکھوں فلسینی بدترین بحران سے دوچار ہیں۔ انکے پاس نہ تو کھانے کیلئے مناسب خوراک ہے نہ ہی پینے کیلئے صاف پانی۔ امریکہ کو یہ بدنصیب بھی دکھائی نہیں دیتے۔ امریکہ کو کشمیر اور فلسطین جیسے نصف صدی سے زیادہ عرصے سے سلگتے ہوئے مسائل نظر نہیں آتے۔ بھارت اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد سے ڈرتا ہے تو اس کی ایک ہی وجہ ہے اسے اس بات کا یقین ہے کہ کشمیری عوام اسکے خلاف رائے دیں گے۔

27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوجیں سرینگر میں داخل ہوئیں اور برصغیر کی تقسیم کے منصوبے اور کشمیریوں کی خواہشات کے برعکس جموں کشمیر پر زبردستی قبضہ کیا گیا۔ ریاست جموں کشمیر کبھی بھارت کا حصہ تھی ہی نہیں۔ بھارت نے فوج کشی کے ذریعے کشمیر پر اپنا جابرانہ تسلط قائم کیا۔ کشمیر پر سلامتی کونسل کی 18 قراردادیں موجود ہیں۔ جنوبی ذوڈان اور مشرقی تیمور عیسائی اکثریتی علاقے تھے۔ یاد ہو گا ان کی علیحدگی کیلئے سلامتی کونسل کیسی متحرک ہوئی تھی۔ امریکی سامراج اور دیگر عالمی اداروں کی خاموشی کو دنیابھر کے حریت پسند نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پرامن جنگ اور مسلسل جدوجہد ہی کشمیریوں کو آزادی دلا سکتی ہے۔ حکومت کی کشمیر کمیٹی نے عالمی سطح پر کیا حال کردار ادا کیا ہے؟ کون سے عالمی فورم پر مولانا فضل الرحمن نے خطاب کیا ہے؟ انکی سیاست کا مرکز و محور ہر حکومت وقت سے فیض یاب ہونا ہے برہان مظفر وارثی کی شہادت نے مسئلہ کشمیر کو ایک بار پھر اجاگر کیا ہے۔ اقوام متحدہ اور امریکہ جان لے کہ فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے بغیر کرہ ارض کا پرامن ہونا ناممکن ہے شہیدوں کا لہو رنگ لا کر رہتا ہے۔ ترک عوام نے ثابت کیا ہے کہ زیادتی کا مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر حسینیت کو زندہ کیا ہے۔ کشمیری نہتے عوام کیلئے یہ پیغام ہے کہ وہ ظلم کے سامنے ننگی تلوار بن جائیں حق کو اسی طرح بالادستی نصیب ہوتی ہے ترکوں نے بغاوت کی مذمت نہیں کی باغیوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ زندہ قوم کی یہی نشانی ہے۔
                                                   (بشکریہ نوائے وقت)



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں