پنجابی کے عوامی شاعر استاد دامن نے فلمی گیت بہت کم لکھے ہیں۔ جو لکھے مگر مقبول بہت ہوئے۔ ان میں سے ایک تو آج بھی کبھی کبھار ایف۔ایم ریڈیوز پر سننے کو مل جاتا ہے۔ جی ہاں وہی گیت جس میں نور جہاں بڑی سرمستی میں یہ فرمائش کررہی ہے کہ ’’مینوں دھرتی کلی کرادے میں نچاں ساری رات‘‘۔
اس گیت کی دوشیزہ کو رات بھر ناچنے کے لئے دھرتی کو صاف کرکے اسے چونے سے چمکانا درکار ہے۔ خواہش بہت معصوم ودلبرانہ ہے۔ اپنے تئیں اس معاشرے کو کرپشن سے پاک کرنے پر مامور لکھاریوں اور عقل کل بنے اینکرخواتین وحضرات کی خواہشات مگر بہت سفاکانہ ہیں۔ا ن کا ’’چرخہ‘‘ کئی برسوں سے کسی ’’دیدہ ور‘‘ کو متحرک کرنے کے لئے کوک رہا ہے۔
ان کے ’’دیدہ ور‘‘ کو گوشہ نشینی چھوڑ کر کسی پہاڑ سے نیچے نہیں اترنا۔ راولپنڈی سے ایک Convoyکی صورت اسلام آباد پہنچ کر صرف ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کرنا ہے۔ جس کے بعد ہر گلی کی نکڑ پر ’’نااہل اور بدعنوان سیاستدان‘‘ کھمبوں پر لٹکے پائے جائیں گے۔ قوم کی لوٹی ہوئی دولت ہمارے ریاستی خزانے میں واپس آجائے گی۔ ہمیں اس دولت کے لوٹ آنے کے بعد کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑے گا۔نہ ہی ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف کے سامنے کشکول رکھ کر قرضے مانگنا ہوں گے۔ بجلی سستی اور 24گھنٹے میسر رہے گی ۔ شہر صاف ہوجائیں گے۔ تھر کے بچے غذائی قلت کی وجہ سے مرنا بند ہوجائیں گے۔ بھارت کا وزیر اعظم نریندر مودی گھبراجائے گا۔ کشمیر پر قابض اس کی فوج وہاں کے بچوں اور نوجوانوں کی بینائی چھروں بھری گولیوں سے چھینناترک کردے گی۔امریکہ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات ہوا کرے گی۔ رونق ہی رونق۔ چارسو پھیلی خوش حالی اور عزم نو کے ساتھ ترقی کی جانب بڑھتی پوری قوم۔
’’دیدہ ور‘‘ کے انتظار میں چرخہ گھماتے ہمارے یہ دوست گزشتہ جمعہ کی رات بہت خوش ہوئے۔ میں تو مختلف النوع گولیاں کھاکر گہری نیند سورہا تھا۔ ہفتے کی صبح جاگا تو معلوم ہوا کہ گزشتہ رات ترکی میں فوجیوں کے ایک گروہ نے اپنی قوم کا نجات دہندہ بننے کا قدم اٹھایا تھا۔ قدم ترکی میں اٹھایا گیا مگر پاکستانی قوم کا مقدر سنوارنے کو بے چین ہمارے کئی دوست اپنے گھروں میں مقیم ہوتے ہوئے بھی خوشی سے رات بھر سو نہ سکے۔ ترکی صدر ’’ارد‘‘ان کی نظر میں اب ’’وان‘‘ نہیں رہا تھا ۔Goneہوگیا تھا۔ ان کی خوشی مگر عارضی ثابت ہوئی ۔ ٹویٹر پر تصویریں آئیں جن میں نہتے لوگ ٹینکوں کے سامنے لیٹے اور کھڑے ہوئے نظر آئے۔ مسجدوں سے اذانیں شروع ہوگئیں۔ فضاء اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اُٹھی۔ اردوان استنبول کی سڑکوں پر جمع ہوئے ہجوم کے سامنے نمودار ہوگیا۔ فوجی بغاوت ناکام ہوگئی۔
ترک فوج کے ایک گروہ کی جانب سے ہوئے خروج کے ناکام ہوجانے کے بعد میرے چند دوست اپنی حسرتوں پر آنسو بہاکر سو گئے۔ بیدار ہوئے تو خود کو یہ بات یاد دلاکر تسلی دینا شروع ہوگئے کہ پاکستان ترکی نہیں۔ پاکستان ہے۔ یہاں ’’دیدہ ور‘‘ نے قدم بڑھایا تو ہمارے ’’اردوانوں‘‘ کو بچانے کوئی ایک شخص بھی سڑکوں پر نہیں آئے گا۔ عمران خان نے تو لندن سے آزادکشمیر پہنچ کر جلسہ عام میں اعلان کردیاکہ ایسا ہوا تو عوام مٹھائیاں بانٹیں گے۔ میں عمران خان کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ 4جولائی 1977اور 12کتوبر 1999ء کے بعد مٹھائیاں ہی تو بٹی تھیں۔ پاکستان میں کوئی ’’دیدہ ور‘‘ اقتدار پر قبضہ کرلے تو مٹھائی بٹتی ہے،کیونکہ پاکستان ترکی نہیں۔
پاکستان،ترکی ہو بھی نہیں سکتا۔ اس خطے پر تاریخ میں کئی بار وسطی ایشیاء یا افغانستان سے محمود غزنوی،شہاب الدین غوری اور ظہیر الدین بابر جیسے دلاورقابض رہے ہیں جنہوںنے محمود وایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا تھا۔ میرے بچپن میں کئی بزرگ بڑی حسرت سے ’’انگریز کا زمانہ‘‘ یاد کیا کرتے تھے جب قانون کی حکمرانی ہوا کرتی تھی۔ کہیں قتل ہوتا تو لال آندھی چل پڑتی۔ سائیکلوں پر سورج ڈھلنے کے بعد بتی لگائے بغیر گھروں سے باہر آنا ناممکن ہوا کرتا تھا۔ عدل وانصاف کے یقینی ہونے کے تصور نے ہر شخص کو ’’سیدھا‘‘ بنارکھا تھا۔
ترک قوم کی تاریخ میں انہیں ’’سیدھا‘‘ رکھنے کے لئے بیرونی دلاور نہیں آیا کرتے تھے۔ استنبول 600برسوں تک خلافتِ عثمانیہ جیسی ایک پرشکوہ ایمپائر کا دارالخلافہ رہا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران سامراجی قوتوں نے اس خلافت کے زیرنگین علاقوں کو چھین لیا۔ترکی یورپ کا ’’مردبیمار‘‘ ہوگیا۔ اناطولیہ کے دلاوروںنے مگر استنبول کو بچالیا۔ قائدان کا اتاترک تھا جو ترک فوج ہی سے اٹھا تھا۔ترکی کو سامراجی قوتوں سے بچالینے کے بعد ترک فوج اپنے ملک کی اصل محافظ قرار پائی۔ اسی وجہ سے جب ماضی میں چار مرتبہ اس نے اقتدار پر قبضہ کیا تو کوئی مزاحمت نہ ہوئی۔
1980ء میں لگے مارشل لاء کے بعد مگر حالات بدل چکے تھے۔اس مارشل لاء کو بھرپور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔مزاحمت مگر ان سیاسی کارکنوں کی جانب سے ہوئی جو خود کو سوشلسٹ کہا کرتے تھے۔ ایسے ’’لادین‘‘ مزاحمت کاروں کا مقابلہ کرنے کے لئے ’’سیکولرازم‘‘ کی متشدد حامی ومحافظ ہونے کی دعوے دار ترک فوج ’’اسلام پسندوں‘‘ سے رجوع کرنے پر مجبور ہوئی۔ تقریباََ اسی طرح جیسے ہمارے جنرل ضیاء الحق کوبھٹو کو پھانسی لگانے کے لئے جماعت اسلامی کی حمایت حاصل کرنا پڑی تھی۔ بعدازاں جنرل ضیاء کو مزید ’’مسلمان‘‘ ثابت کرنے کے لئے افغانستان میں ’’جہاد‘‘ برپا ہوگیا
فوجی آمروں کا مسئلہ ہی مگر یہ رہا ہے کہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے وہ جن "Bloody Civilians"پر تکیہ کرتے ہیں، کچھ وقت گزرجانے کے بعد فرینکنسٹائن کے بنائے بھوت کی طرح ’’خود مختار‘‘ ہوجاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کبھی ایوب خان کے بہت لاڈلے ہوا کرتے تھے۔ معاہدہ تاشقند کے بعد مگر ’’انقلابی‘‘ ہوگئے۔ رجب طیب اردوان کی جماعت کو 1980ء کے مارشل لاء نے ایک سوچی سمجھی تدبیر کے تحت سیاسی میدان میں پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کئے تھے۔نواز شریف کو بھی 1980ء کی دہائی میں جنرل جیلانی کی مشفقانہ سرپرستی نصیب ہوئی تھی۔ 1992ء میں اپنی حکومت کی تحلیل کے بعد موصوف مگر بدل گئے۔ نواز شریف میں موجود ’’تعاون‘‘ کے رہے سہے جراثیموں کاخاتمہ جنرل مشرف کے ہاتھوں ہوگیا۔
معاملہ مگر افراد کا نہیں۔ اردوان ہویا نواز شریف۔ یہ دونوں صرف چہرے ہیں۔ ایک ایسے رحجان کے نمائندہ جو مارکیٹ اکانومی اور گلوبلائزیشن نے پاکستان اور ترکی جیسے ممالک میں پروان چڑھائے ہیں۔اس رحجان کی شناخت کرنا اور اسے پوری طرح سمجھنا ہوتو کچھ وقت نکال کر ایرانی نژاد امریکی مفکر ولی نصرکی ایک کتاب پڑھ لیجئے۔
"Forces of Fortune"اس کتاب کا عنوان ہے۔ اس کے سرورق پر یہ دعویٰ ہے کہ اس کتا ب میں مسلم ممالک میں نمودار ہوکر دن بدن مضبوط تر ہونے والی’’نئی مڈل کلاس‘‘ پر توجہ دی گئی ہے اور مقصد اس کا یہ معلوم کرنا ہے کہ کاروباری طبقات کی نمائندہ یہ مڈل کلاس آج کی دُنیا میں کیا اہمیت حاصل کرچکی ہے۔
ولی نصر نے یہ کتاب لکھ کر درحقیقت امریکی اشرافیہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ وہ مسلم ممالک میں ’’دیدہ وروں‘‘ کے ذریعے اپنے مفادات کے حصول کے لئےOne Windowپر انحصار کرنا اب چھوڑ دے۔ دیدہ وروں کا زمانہ لدچکا ہے۔ گزشتہ ہفتے ترکی کے واقعات کے تناظر میں ولی نصر درست ثابت ہوا ہے۔ پاکستان ہرگز ترکی نہیں ہے مگر یہاں بھی کئی ’’اردوان‘‘ پیدا ہوچکے ہیں۔ نوازشریف اکیلا نہیں۔ نہ ہی پاکستانی’’اردوانوں‘‘ پر ان کی مسلم لیگ کا اجارہ ہے۔ تحریک انصاف کے جہانگیر ترین اور علیم خان بھی مستقبل کے ’’اردوان‘‘ ثابت ہوں گے۔ اوکاڑہ کا ایک نودولتیا- ریاض جج- جس نے مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے امیدواروںکو ’’آزاد‘‘ حیثیت میں ہرا کر ہمیں حیران کردیا تھا ایک ممکنہ’’اردوان‘‘ ہی تو ہے۔
شہر شہر ابھرتے ان ’’اردوانوں‘‘کے ہوتے ہوئے صرف ڈنڈے کے زورپر ریاست کے لئے ہر شے کو ’’سیدھا‘‘ رکھنا اب ممکن ہی نہیں رہا۔ ’’دیدہ ور‘‘ کے منتظر چرخے خواہ کتنا ہی کوکتے رہیں۔
اس گیت کی دوشیزہ کو رات بھر ناچنے کے لئے دھرتی کو صاف کرکے اسے چونے سے چمکانا درکار ہے۔ خواہش بہت معصوم ودلبرانہ ہے۔ اپنے تئیں اس معاشرے کو کرپشن سے پاک کرنے پر مامور لکھاریوں اور عقل کل بنے اینکرخواتین وحضرات کی خواہشات مگر بہت سفاکانہ ہیں۔ا ن کا ’’چرخہ‘‘ کئی برسوں سے کسی ’’دیدہ ور‘‘ کو متحرک کرنے کے لئے کوک رہا ہے۔
ان کے ’’دیدہ ور‘‘ کو گوشہ نشینی چھوڑ کر کسی پہاڑ سے نیچے نہیں اترنا۔ راولپنڈی سے ایک Convoyکی صورت اسلام آباد پہنچ کر صرف ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کرنا ہے۔ جس کے بعد ہر گلی کی نکڑ پر ’’نااہل اور بدعنوان سیاستدان‘‘ کھمبوں پر لٹکے پائے جائیں گے۔ قوم کی لوٹی ہوئی دولت ہمارے ریاستی خزانے میں واپس آجائے گی۔ ہمیں اس دولت کے لوٹ آنے کے بعد کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑے گا۔نہ ہی ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف کے سامنے کشکول رکھ کر قرضے مانگنا ہوں گے۔ بجلی سستی اور 24گھنٹے میسر رہے گی ۔ شہر صاف ہوجائیں گے۔ تھر کے بچے غذائی قلت کی وجہ سے مرنا بند ہوجائیں گے۔ بھارت کا وزیر اعظم نریندر مودی گھبراجائے گا۔ کشمیر پر قابض اس کی فوج وہاں کے بچوں اور نوجوانوں کی بینائی چھروں بھری گولیوں سے چھینناترک کردے گی۔امریکہ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات ہوا کرے گی۔ رونق ہی رونق۔ چارسو پھیلی خوش حالی اور عزم نو کے ساتھ ترقی کی جانب بڑھتی پوری قوم۔
’’دیدہ ور‘‘ کے انتظار میں چرخہ گھماتے ہمارے یہ دوست گزشتہ جمعہ کی رات بہت خوش ہوئے۔ میں تو مختلف النوع گولیاں کھاکر گہری نیند سورہا تھا۔ ہفتے کی صبح جاگا تو معلوم ہوا کہ گزشتہ رات ترکی میں فوجیوں کے ایک گروہ نے اپنی قوم کا نجات دہندہ بننے کا قدم اٹھایا تھا۔ قدم ترکی میں اٹھایا گیا مگر پاکستانی قوم کا مقدر سنوارنے کو بے چین ہمارے کئی دوست اپنے گھروں میں مقیم ہوتے ہوئے بھی خوشی سے رات بھر سو نہ سکے۔ ترکی صدر ’’ارد‘‘ان کی نظر میں اب ’’وان‘‘ نہیں رہا تھا ۔Goneہوگیا تھا۔ ان کی خوشی مگر عارضی ثابت ہوئی ۔ ٹویٹر پر تصویریں آئیں جن میں نہتے لوگ ٹینکوں کے سامنے لیٹے اور کھڑے ہوئے نظر آئے۔ مسجدوں سے اذانیں شروع ہوگئیں۔ فضاء اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اُٹھی۔ اردوان استنبول کی سڑکوں پر جمع ہوئے ہجوم کے سامنے نمودار ہوگیا۔ فوجی بغاوت ناکام ہوگئی۔
ترک فوج کے ایک گروہ کی جانب سے ہوئے خروج کے ناکام ہوجانے کے بعد میرے چند دوست اپنی حسرتوں پر آنسو بہاکر سو گئے۔ بیدار ہوئے تو خود کو یہ بات یاد دلاکر تسلی دینا شروع ہوگئے کہ پاکستان ترکی نہیں۔ پاکستان ہے۔ یہاں ’’دیدہ ور‘‘ نے قدم بڑھایا تو ہمارے ’’اردوانوں‘‘ کو بچانے کوئی ایک شخص بھی سڑکوں پر نہیں آئے گا۔ عمران خان نے تو لندن سے آزادکشمیر پہنچ کر جلسہ عام میں اعلان کردیاکہ ایسا ہوا تو عوام مٹھائیاں بانٹیں گے۔ میں عمران خان کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ 4جولائی 1977اور 12کتوبر 1999ء کے بعد مٹھائیاں ہی تو بٹی تھیں۔ پاکستان میں کوئی ’’دیدہ ور‘‘ اقتدار پر قبضہ کرلے تو مٹھائی بٹتی ہے،کیونکہ پاکستان ترکی نہیں۔
پاکستان،ترکی ہو بھی نہیں سکتا۔ اس خطے پر تاریخ میں کئی بار وسطی ایشیاء یا افغانستان سے محمود غزنوی،شہاب الدین غوری اور ظہیر الدین بابر جیسے دلاورقابض رہے ہیں جنہوںنے محمود وایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا تھا۔ میرے بچپن میں کئی بزرگ بڑی حسرت سے ’’انگریز کا زمانہ‘‘ یاد کیا کرتے تھے جب قانون کی حکمرانی ہوا کرتی تھی۔ کہیں قتل ہوتا تو لال آندھی چل پڑتی۔ سائیکلوں پر سورج ڈھلنے کے بعد بتی لگائے بغیر گھروں سے باہر آنا ناممکن ہوا کرتا تھا۔ عدل وانصاف کے یقینی ہونے کے تصور نے ہر شخص کو ’’سیدھا‘‘ بنارکھا تھا۔
ترک قوم کی تاریخ میں انہیں ’’سیدھا‘‘ رکھنے کے لئے بیرونی دلاور نہیں آیا کرتے تھے۔ استنبول 600برسوں تک خلافتِ عثمانیہ جیسی ایک پرشکوہ ایمپائر کا دارالخلافہ رہا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران سامراجی قوتوں نے اس خلافت کے زیرنگین علاقوں کو چھین لیا۔ترکی یورپ کا ’’مردبیمار‘‘ ہوگیا۔ اناطولیہ کے دلاوروںنے مگر استنبول کو بچالیا۔ قائدان کا اتاترک تھا جو ترک فوج ہی سے اٹھا تھا۔ترکی کو سامراجی قوتوں سے بچالینے کے بعد ترک فوج اپنے ملک کی اصل محافظ قرار پائی۔ اسی وجہ سے جب ماضی میں چار مرتبہ اس نے اقتدار پر قبضہ کیا تو کوئی مزاحمت نہ ہوئی۔
1980ء میں لگے مارشل لاء کے بعد مگر حالات بدل چکے تھے۔اس مارشل لاء کو بھرپور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔مزاحمت مگر ان سیاسی کارکنوں کی جانب سے ہوئی جو خود کو سوشلسٹ کہا کرتے تھے۔ ایسے ’’لادین‘‘ مزاحمت کاروں کا مقابلہ کرنے کے لئے ’’سیکولرازم‘‘ کی متشدد حامی ومحافظ ہونے کی دعوے دار ترک فوج ’’اسلام پسندوں‘‘ سے رجوع کرنے پر مجبور ہوئی۔ تقریباََ اسی طرح جیسے ہمارے جنرل ضیاء الحق کوبھٹو کو پھانسی لگانے کے لئے جماعت اسلامی کی حمایت حاصل کرنا پڑی تھی۔ بعدازاں جنرل ضیاء کو مزید ’’مسلمان‘‘ ثابت کرنے کے لئے افغانستان میں ’’جہاد‘‘ برپا ہوگیا
فوجی آمروں کا مسئلہ ہی مگر یہ رہا ہے کہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے وہ جن "Bloody Civilians"پر تکیہ کرتے ہیں، کچھ وقت گزرجانے کے بعد فرینکنسٹائن کے بنائے بھوت کی طرح ’’خود مختار‘‘ ہوجاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کبھی ایوب خان کے بہت لاڈلے ہوا کرتے تھے۔ معاہدہ تاشقند کے بعد مگر ’’انقلابی‘‘ ہوگئے۔ رجب طیب اردوان کی جماعت کو 1980ء کے مارشل لاء نے ایک سوچی سمجھی تدبیر کے تحت سیاسی میدان میں پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کئے تھے۔نواز شریف کو بھی 1980ء کی دہائی میں جنرل جیلانی کی مشفقانہ سرپرستی نصیب ہوئی تھی۔ 1992ء میں اپنی حکومت کی تحلیل کے بعد موصوف مگر بدل گئے۔ نواز شریف میں موجود ’’تعاون‘‘ کے رہے سہے جراثیموں کاخاتمہ جنرل مشرف کے ہاتھوں ہوگیا۔
معاملہ مگر افراد کا نہیں۔ اردوان ہویا نواز شریف۔ یہ دونوں صرف چہرے ہیں۔ ایک ایسے رحجان کے نمائندہ جو مارکیٹ اکانومی اور گلوبلائزیشن نے پاکستان اور ترکی جیسے ممالک میں پروان چڑھائے ہیں۔اس رحجان کی شناخت کرنا اور اسے پوری طرح سمجھنا ہوتو کچھ وقت نکال کر ایرانی نژاد امریکی مفکر ولی نصرکی ایک کتاب پڑھ لیجئے۔
"Forces of Fortune"اس کتاب کا عنوان ہے۔ اس کے سرورق پر یہ دعویٰ ہے کہ اس کتا ب میں مسلم ممالک میں نمودار ہوکر دن بدن مضبوط تر ہونے والی’’نئی مڈل کلاس‘‘ پر توجہ دی گئی ہے اور مقصد اس کا یہ معلوم کرنا ہے کہ کاروباری طبقات کی نمائندہ یہ مڈل کلاس آج کی دُنیا میں کیا اہمیت حاصل کرچکی ہے۔
ولی نصر نے یہ کتاب لکھ کر درحقیقت امریکی اشرافیہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ وہ مسلم ممالک میں ’’دیدہ وروں‘‘ کے ذریعے اپنے مفادات کے حصول کے لئےOne Windowپر انحصار کرنا اب چھوڑ دے۔ دیدہ وروں کا زمانہ لدچکا ہے۔ گزشتہ ہفتے ترکی کے واقعات کے تناظر میں ولی نصر درست ثابت ہوا ہے۔ پاکستان ہرگز ترکی نہیں ہے مگر یہاں بھی کئی ’’اردوان‘‘ پیدا ہوچکے ہیں۔ نوازشریف اکیلا نہیں۔ نہ ہی پاکستانی’’اردوانوں‘‘ پر ان کی مسلم لیگ کا اجارہ ہے۔ تحریک انصاف کے جہانگیر ترین اور علیم خان بھی مستقبل کے ’’اردوان‘‘ ثابت ہوں گے۔ اوکاڑہ کا ایک نودولتیا- ریاض جج- جس نے مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے امیدواروںکو ’’آزاد‘‘ حیثیت میں ہرا کر ہمیں حیران کردیا تھا ایک ممکنہ’’اردوان‘‘ ہی تو ہے۔
شہر شہر ابھرتے ان ’’اردوانوں‘‘کے ہوتے ہوئے صرف ڈنڈے کے زورپر ریاست کے لئے ہر شے کو ’’سیدھا‘‘ رکھنا اب ممکن ہی نہیں رہا۔ ’’دیدہ ور‘‘ کے منتظر چرخے خواہ کتنا ہی کوکتے رہیں۔
(بشکریہ نوائے وقت)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں