ڈاکٹر احمد سلیم
کچھ دن قبل ایک چینل پرایک اینکر کی جانب سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا ’’ ریاست ‘ ‘ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ کسی کے عقیدے کا تعین کرے؟ ان کا سوال قادیانیوں کے بارے میں تھا جنہیں پاکستان کے آئین میں غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔ ویسے تو یہ سوال اٹھانے والی شخصیت اتنی اہم نہیں ہے کہ انکی جانب سے اس قسم کے سوال اٹھائے جائیں یا انکے کسی سوال کا جواب دینا ضروری ہو لیکن اسکے بعد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سوشل میڈیا پر باقاعدہ ایک مہم اور بحث کا آغاز کر دیا گیا جو بچوں اور کم عمر کے نوجوانوں کے کچے ذہنوں کو ’’بنیادی انسانی حقوق ‘‘ کے نام پر زہر آلود کر رہی ہے۔ سوچاسمجھا منصوبہ میں نے اس لیے کہا کہ ان موصوف نے بھی اپنا ’’ میٹھا زہر‘‘ اگلتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ’’ میرے پروڈیوسر نے کہا تھا کہ پروگرام کے آخر میں یہ بات کرنی ہے‘‘ ۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ لائیو پروگرام میں انکے منہ سے کچھ فقرے نکل گئے ہوں بلکہ اس بارے میں باقاعدہ بحث اور پلاننگ کی گئی تھی۔
آئین میں درج کسی طے شدہ بات سے اختلاف دراصل پاکستان کے آ ٓئین سے بغاوت ہے اور پاکستا ن سمیت کسی بھی ریاست کو نہ صرف یہ اختیار حاصل ہے بلکہ اس کا بنیادی فرض ہے کہ وہ نہ صرف ریاست میں موجود ہر شخص کے کردار کا تعین کرے جو اس نے اس ریاست اور معاشرے میں ادا کرنا ہے بلکہ ساتھ ہی تمام افراد کی حدود بھی متعین کرے چاہے وہ اسکے حقوق کے بارے میں ہوں یا پیشے کے، یا پھر افراد کے باہمی تعلقات اور عقائد کے بارے میں ۔ اگر ریاست اپنا یہ فرض ادا نہیں کرے گی تو معاشرے اور ریاست کے تانے بانے ہفتوں بلکہ دنوں میں ادھڑ جائیں گے۔
کسی بھی ملک میں اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ڈاکٹر ہے تو ریاست کا قانون یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ شخص ڈاکٹر ہونے کی شرائط پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ اگر وہ ان شرائظ پر پورا اترتا ہے تو وہ ڈاکٹر ہے وگرنہ نہیں۔ اس بارے میں دو ممالک کے قوانین فرق بھی ہو سکتے ہیں ۔ ایک شخص جس کے پاس ایم بی بی ایس کی پاکستانی ڈگری ہے اسے پاکستان کی ریاست تو ڈاکٹر مانتی ہے لیکن برطانیہ یا امریکہ میں وہ اس وقت تک ڈاکٹر نہیں مانا جاتا جب تک وہ ڈاکٹر ہونے کی ان ممالک کی شرائط کو پورا نہ کر لے۔ ایسا ہر شخص کے بارے میں ہوتا ہے ، چاہے وہ ریاست میں کوئی بھی کردار ادا کرنا چاہ رہا ہو۔ جب تک ریاست کسی کو ڈرائیونگ لائیسنس نہ دے دے کوئی قانون اسے ڈرائیور تک نہیں مانتا۔ اگر میں کسی دھات کے ٹکڑے کو سونا کہہ کر بازار میں فروخت کرنے کی کوشش کروں تو ریاست کا قانون فیصلہ کریگا کہ وہ دھات سونا ہونے کی شرائط پورا کرتی ہے کہ نہیں۔ اگر اسکا رنگ، خواص اور ایٹمی نمبر سونا ہونے کی شرائط پر پورا اترتا ہے تب ہی اسے سونا مانا جائیگا بصورت دیگر میرے کہنے سے پیتل سونا نہیں بن جائیگا بلکہ مجھے دھوکہ باز کہا جائیگا۔
اگر کل بھارت کی ایک لاکھ فوج یہ کہتے ہوئے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کرے کہ وہ پاکستانی ہیں تو کیا ہم انکو پاکستان میں داخل ہونے دیں گے اور لاہور کے جم خانہ میں پارٹی دینگے؟ بالکل بھی نہیں۔ پاکستان کی ریاست کے قانون اور آئین نے ’’ پاکستانی‘‘ ہونے کیلئے کچھ شرائط طے کی ہیں اور صرف وہی شخص پاکستانی ہے جو ان شرائط پر پورا اترتا ہے۔ مسلمان ہونے کا دعویٰ تو پاکستانی ہونے کے دعویٰ سے بہت بڑا ہے اور مسلمان ہونے کی کم سے کم بنیادی شرائط کیا ہیں ان کا تعین اللہ تعالیٰ اور رسول پاکؐ کر چکے ہیں۔ اور ہماری ریاست ِ پاکستان کا حق ہی نہیں بلکہ فرض ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے قانون کیمطابق یہ فیصلہ کرے کہ دعویٰ کرنیوالا مسلمان ہے کہ نہیں۔ مختلف فرقوں میں چھوٹے موٹے اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن کچھ بنیادی شرائط اور قوانین ایسے ہیں جن پر کوئی اختلاف نہیں ہے اور ان میں سے ایک اہم عقیدہ ’’ ختم نبوت‘‘ ہے۔ قرآن نے واضح اور صاف الفاظ میں حکم دے دیا ہے کہ حضرت محمدؐ ’’ خاتم النبیین‘‘ ہیں اور ساتھ ہی قرآن مجید میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ ہمارا دین مکمل ہو چکا ہے( بحوالہ سورۃ مائدہ آیت نمبر 3؛ اور سورۃ الاحزاب آیت نمبر 40 )۔ اسکے بعد اب اس سلسلے میں کوئی سوال اٹھانے یا بحث کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے قانون اور آئین میں تمام مذاہب سمیت قادیانیوں کو بھی اپنے عقیدے کیمطابق رہنے سہنے اور عبادت کرنے کی مکمل آزادی ہے اور ریاست نہ تو انکے عقائد کا تعین کر رہی ہے اور نہ ان میں کوئی دخل اندازی۔ وہ جو مرضی عقائد رکھیں اور اپنے مذہب کو جو مرضی نام دیں یہ انکا انسانی حق ہو سکتا ہے جسے پاکستان کی ریاست تسلیم کرتی ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے آپ کو مسلمان کہیں گے تو ریاست کا فرض بن جاتا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات اور قانون کے مطابق فیصلہ کرے کہ کیا قادیانیت سے تعلق رکھنے والے مسلمان ہونے کی بنیادی شرائط پر پورا اترتے ہیں ؟ اگر نہیں تو پھر وہ پیتل کو سونا کہہ کر دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آسان اور صاف سی بات ہے کہ جو نام اور پہچان یہ استعمال کرنے کی کوشش اور ضد کر رہے ہیں اس نام اور پہچان کے تمام حقوق 1500سال پہلے سے کسی اور کے نام رجسٹرڈ ہیں ۔کسی معاشرے میں اس سے بڑا جرم کیا ہو سکتا ہے کہ اس معاشرے میں رہنے والوں کی پہچان اور نام چرا لیا جائے۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر ہماری ریاست نہ انکے انسانی حقوق کو کچھ نہیں کہہ رہی ہے اور نہ انکی دل آزاری کر رہی ہے ، بلکہ انہیں ’’ دھوکہ بازی‘‘ سے روک رہی ہے۔ مزید یہ کہ جس طرح اس اقلیت کے بنیادی انسانی حقوق ہیں اسی طرح اکثریت کے بھی بنیادی انسانی حقوق ہیں۔ کسی بھی اقلیت کے بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھنا ریاست اور معاشرے کا فرض ہے لیکن اکثریت کے انسانی حقوق کی اہمیت سے انکار اور اکثریت کی دل آزاری بھی نہیں کی جا سکتی۔ جمہوریت کا بھی یہی اصول ہے کہ اکثریت کی رائے اور جذبات کا احترام کیا جائے۔
جس طرح حضرت عیسیٰؑ کے بعد حضرت محمدؐ کو نبی ماننے والے کو مغرب سمیت تمام دنیا میں نہ تو کوئی عیسائی کہتا ہے اور نہ تسلیم کرتا ہے اسی طرح حضرت محمدؐ کے آخری نبی ہونے کا مکمل یقین نہ رکھنے والے کو مسلمان تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ ایک بات جس کا فیصلہ قرآن، حدیث اور ہمارا آئین کر چکا ہے اس کو نہ ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔( ویسے عربی لغت میں ’’ کوئی بات نہ ماننے ‘‘ اور ’’ انکار کرنے والے‘‘ kdgv' ’’ کفر ‘‘ اور ’’ کافر ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں)۔ بطور مسلمان میرے لیے اس قسم کے احمقانہ سوال پر غور کرنے یا اس کا جواب دینے کی کوئی ضرورت ہی نہیں بنتی، لیکن اس اٹھائے گئے سوال اور بعد کے حالات میں مجھے ایک شدید اور گھٹیا شرارت محسوس ہو رہی ہے اسی لیے مجھے اسکا جواب دینا ضروری محسوس ہوا۔
آئین میں درج کسی طے شدہ بات سے اختلاف دراصل پاکستان کے آ ٓئین سے بغاوت ہے اور پاکستا ن سمیت کسی بھی ریاست کو نہ صرف یہ اختیار حاصل ہے بلکہ اس کا بنیادی فرض ہے کہ وہ نہ صرف ریاست میں موجود ہر شخص کے کردار کا تعین کرے جو اس نے اس ریاست اور معاشرے میں ادا کرنا ہے بلکہ ساتھ ہی تمام افراد کی حدود بھی متعین کرے چاہے وہ اسکے حقوق کے بارے میں ہوں یا پیشے کے، یا پھر افراد کے باہمی تعلقات اور عقائد کے بارے میں ۔ اگر ریاست اپنا یہ فرض ادا نہیں کرے گی تو معاشرے اور ریاست کے تانے بانے ہفتوں بلکہ دنوں میں ادھڑ جائیں گے۔
کسی بھی ملک میں اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ڈاکٹر ہے تو ریاست کا قانون یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ شخص ڈاکٹر ہونے کی شرائط پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ اگر وہ ان شرائظ پر پورا اترتا ہے تو وہ ڈاکٹر ہے وگرنہ نہیں۔ اس بارے میں دو ممالک کے قوانین فرق بھی ہو سکتے ہیں ۔ ایک شخص جس کے پاس ایم بی بی ایس کی پاکستانی ڈگری ہے اسے پاکستان کی ریاست تو ڈاکٹر مانتی ہے لیکن برطانیہ یا امریکہ میں وہ اس وقت تک ڈاکٹر نہیں مانا جاتا جب تک وہ ڈاکٹر ہونے کی ان ممالک کی شرائط کو پورا نہ کر لے۔ ایسا ہر شخص کے بارے میں ہوتا ہے ، چاہے وہ ریاست میں کوئی بھی کردار ادا کرنا چاہ رہا ہو۔ جب تک ریاست کسی کو ڈرائیونگ لائیسنس نہ دے دے کوئی قانون اسے ڈرائیور تک نہیں مانتا۔ اگر میں کسی دھات کے ٹکڑے کو سونا کہہ کر بازار میں فروخت کرنے کی کوشش کروں تو ریاست کا قانون فیصلہ کریگا کہ وہ دھات سونا ہونے کی شرائط پورا کرتی ہے کہ نہیں۔ اگر اسکا رنگ، خواص اور ایٹمی نمبر سونا ہونے کی شرائط پر پورا اترتا ہے تب ہی اسے سونا مانا جائیگا بصورت دیگر میرے کہنے سے پیتل سونا نہیں بن جائیگا بلکہ مجھے دھوکہ باز کہا جائیگا۔
اگر کل بھارت کی ایک لاکھ فوج یہ کہتے ہوئے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کرے کہ وہ پاکستانی ہیں تو کیا ہم انکو پاکستان میں داخل ہونے دیں گے اور لاہور کے جم خانہ میں پارٹی دینگے؟ بالکل بھی نہیں۔ پاکستان کی ریاست کے قانون اور آئین نے ’’ پاکستانی‘‘ ہونے کیلئے کچھ شرائط طے کی ہیں اور صرف وہی شخص پاکستانی ہے جو ان شرائط پر پورا اترتا ہے۔ مسلمان ہونے کا دعویٰ تو پاکستانی ہونے کے دعویٰ سے بہت بڑا ہے اور مسلمان ہونے کی کم سے کم بنیادی شرائط کیا ہیں ان کا تعین اللہ تعالیٰ اور رسول پاکؐ کر چکے ہیں۔ اور ہماری ریاست ِ پاکستان کا حق ہی نہیں بلکہ فرض ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے قانون کیمطابق یہ فیصلہ کرے کہ دعویٰ کرنیوالا مسلمان ہے کہ نہیں۔ مختلف فرقوں میں چھوٹے موٹے اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن کچھ بنیادی شرائط اور قوانین ایسے ہیں جن پر کوئی اختلاف نہیں ہے اور ان میں سے ایک اہم عقیدہ ’’ ختم نبوت‘‘ ہے۔ قرآن نے واضح اور صاف الفاظ میں حکم دے دیا ہے کہ حضرت محمدؐ ’’ خاتم النبیین‘‘ ہیں اور ساتھ ہی قرآن مجید میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ ہمارا دین مکمل ہو چکا ہے( بحوالہ سورۃ مائدہ آیت نمبر 3؛ اور سورۃ الاحزاب آیت نمبر 40 )۔ اسکے بعد اب اس سلسلے میں کوئی سوال اٹھانے یا بحث کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے قانون اور آئین میں تمام مذاہب سمیت قادیانیوں کو بھی اپنے عقیدے کیمطابق رہنے سہنے اور عبادت کرنے کی مکمل آزادی ہے اور ریاست نہ تو انکے عقائد کا تعین کر رہی ہے اور نہ ان میں کوئی دخل اندازی۔ وہ جو مرضی عقائد رکھیں اور اپنے مذہب کو جو مرضی نام دیں یہ انکا انسانی حق ہو سکتا ہے جسے پاکستان کی ریاست تسلیم کرتی ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے آپ کو مسلمان کہیں گے تو ریاست کا فرض بن جاتا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات اور قانون کے مطابق فیصلہ کرے کہ کیا قادیانیت سے تعلق رکھنے والے مسلمان ہونے کی بنیادی شرائط پر پورا اترتے ہیں ؟ اگر نہیں تو پھر وہ پیتل کو سونا کہہ کر دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آسان اور صاف سی بات ہے کہ جو نام اور پہچان یہ استعمال کرنے کی کوشش اور ضد کر رہے ہیں اس نام اور پہچان کے تمام حقوق 1500سال پہلے سے کسی اور کے نام رجسٹرڈ ہیں ۔کسی معاشرے میں اس سے بڑا جرم کیا ہو سکتا ہے کہ اس معاشرے میں رہنے والوں کی پہچان اور نام چرا لیا جائے۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر ہماری ریاست نہ انکے انسانی حقوق کو کچھ نہیں کہہ رہی ہے اور نہ انکی دل آزاری کر رہی ہے ، بلکہ انہیں ’’ دھوکہ بازی‘‘ سے روک رہی ہے۔ مزید یہ کہ جس طرح اس اقلیت کے بنیادی انسانی حقوق ہیں اسی طرح اکثریت کے بھی بنیادی انسانی حقوق ہیں۔ کسی بھی اقلیت کے بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھنا ریاست اور معاشرے کا فرض ہے لیکن اکثریت کے انسانی حقوق کی اہمیت سے انکار اور اکثریت کی دل آزاری بھی نہیں کی جا سکتی۔ جمہوریت کا بھی یہی اصول ہے کہ اکثریت کی رائے اور جذبات کا احترام کیا جائے۔
جس طرح حضرت عیسیٰؑ کے بعد حضرت محمدؐ کو نبی ماننے والے کو مغرب سمیت تمام دنیا میں نہ تو کوئی عیسائی کہتا ہے اور نہ تسلیم کرتا ہے اسی طرح حضرت محمدؐ کے آخری نبی ہونے کا مکمل یقین نہ رکھنے والے کو مسلمان تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ ایک بات جس کا فیصلہ قرآن، حدیث اور ہمارا آئین کر چکا ہے اس کو نہ ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔( ویسے عربی لغت میں ’’ کوئی بات نہ ماننے ‘‘ اور ’’ انکار کرنے والے‘‘ kdgv' ’’ کفر ‘‘ اور ’’ کافر ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں)۔ بطور مسلمان میرے لیے اس قسم کے احمقانہ سوال پر غور کرنے یا اس کا جواب دینے کی کوئی ضرورت ہی نہیں بنتی، لیکن اس اٹھائے گئے سوال اور بعد کے حالات میں مجھے ایک شدید اور گھٹیا شرارت محسوس ہو رہی ہے اسی لیے مجھے اسکا جواب دینا ضروری محسوس ہوا۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں