جمعہ، 22 جولائی، 2016

وال پیپر: آج سندھ سے رینجرز واپس آ گئی تو ۔۔۔۔



قیام کی مدت اور اختیارات میں توسیع نہ ہونیکے باعث سندھ میں رینجرز کے اپریشن بند اور سندھ حکومت کا تحفظات کا اعادہ
کراچی میں رینجرز نے خصوصی اختیارات اور اپریشن کی مدت میں توسیع نہ ملنے کے باعث اپنے اپریشنز بند کر دئیے اور سندھ بھر میں رینجرز کے تمام ونگز کو چھاپوں سے روک دیا گیا۔ رینجرز کی جانب سے ملزمان کو 90 روز تک تحویل میں رکھنے کے اختیارات کی مدت پہلے ہی ختم ہو چکی تھی جبکہ رینجرز کے قیام کی مدت کے آخری روز محکمہ سندھ نے توسیع کی سمری وزیر اعلیٰ سندھ کو ارسال کی جس پر وزیر اعلیٰ نے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ بتایا گیا ہے کہ رینجرز کو اپریشن کے دوران سندھ بھر میں اہم گرفتاریاں کرنا تھیں اور گرفتار ملزمان کی نشاندہی پر بعض اہم کارروائیاں عمل میں لائی جانی تھیں تاہم اختیارات میں توسیع نہ ملنے کے باعث رینجرز نے کراچی میں سنیپ چیکنگ بھی روک دی اور سندھ بھر میں مخبری کی بنیاد پر مارے جانے والے چھاپے بھی روک دئیے گئے۔ سندھ حکومت کے ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور صوبائی وزیر سہیل انور سیال اس معاملہ میںپارٹی قیادت سے مشاورت کے لئے دوبئی جائیں گے، جس کے بعد رینجرز کے اختیارات اور قیام کی مدت میں توسیع کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ نے اس معاملہ میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں کی جانب سے ڈی جی رینجرز سندھ کو بھجوائے گئے مراسلہ کا بھی جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
عروس البلاد کراچی میں گزشتہ دہائی سے جاری ٹارگٹ کلنگ اور قبضہ مافیا اور بھتہ خوروں کی قانون ہاتھ میں لینے کی کارروائیوں اور ٹارگٹ کلنگ کے سدباب اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے اقتدار کے آغاز ہی میں رینجرز اور پولیس کے ذریعے ٹارگٹڈ اپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے لئے انہوں نے تمام سٹیک ہولڈرز بشمول سیاسی، دینی قیادتوں، بیوروکریسی، تاجروں، صنعتکاروں اور دانشوروں سے پہلے طویل مشاورت کی اور پھر ان کے اتفاق رائے سے ٹارگٹڈ اپریشن کا آغاز کیا جس کے پیرامیٹرز بھی متعین کئے گئے، اگرچہ اس وقت ایم کیو ایم متحدہ کی جانب سے رینجرز اور پولیس کے ٹارگٹڈ اپریشن پر تحفظات کا اظہار کیا گیا اور متحدہ کے قائد الطاف حسین نے لندن سے ٹیلی فونک خطاب میں براہ راست پاک فوج کے ذریعے اپریشن کا تقاضہ کیا تاہم بعدازاں متحدہ نے بھی ٹارگٹڈ اپریشن کی توثیق کر دی اور اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس اپریشن کے آغاز ہی میں ٹارگٹ کلرز، لینڈ مافیا، بھتہ خوروں اور دوسرے جرائم پیشہ عناصر کو نکیل ڈالنے میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں جس سے اپریشن کی افادیت بھی نظر آنے لگی اور اس اپریشن کے جاری رہنے کی صورت میں ملک کے تجارتی حب کراچی میں خراب کی گئی امن و امان کی صورتحال کی بحالی کی امید بھی پیدا ہو گئی جو کراچی ہی نہیں پورے ملک کی بھی ضرورت تھی۔ اس اپریشن کے دوران گرفتار ہونے والے ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں سے تفتیش کے دوران کراچی کے حالات کی خرابی میں بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کا ہاتھ شامل ہونے کی بھی نشاندہی ہوئی جس پر رینجرز کی کارروائیوں کا دائرہ وسیع کیا گیا اور متحدہ کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو پر چھاپہ مارا گیا تو متحدہ کی قیادت نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور براہ راست افواج پاکستان اور عسکری قیادتوں کو رگیدنا شروع کر دیا۔ تاہم رینجرز نے اپنے اپریشن میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ پیدا ہونے دی۔ اس دوران سانحہ بلدیہ ٹائون کراچی کی جے آئی ٹی رپورٹ سامنے آئی تو فیکٹری کے ڈیڑھ سو سے زائد ملازمین کو فیکٹری کے اندر زندہ جلانے کے اس سانحہ میں بھی متحدہ کے لوگوں کے ملوث ہونے کی نشاندہی ہوئی۔ اس پر متحدہ کی جانب سے رینجرز اپریشن کے حوالے سے انتقامی سیاسی کارروائیوں کے الزامات کا سلسلہ شروع ہوا جبکہ رینجرز کی کارروائیوں میں سندھ کی حکمران پیپلز پارٹی کے لوگوں کی بھی گرفت ہونا شروع ہو گئی تو اس پارٹی کی قیادتوں نے بھی بالخصوص سابق مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کے بعد عسکری قیادتوں کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا جبکہ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کی قیادت نے وفاقی حکمران مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ساتھ بھی سیاسی محاذ آرائی کی فضا استوار کر دی۔ اسی کشیدگی کی فضا میں گزشتہ سال بھی رینجرز اپریشن کی مدت اور اس کے دائرہ اختیار میں توسیع کے ایشو پر پیپلز پارٹی کی قیادت نے پس و پیش سے کام لینا شروع کیا اور رینجرز کے اختیارات سے متعلق ایک بل سندھ اسمبلی میں پیش کرکے اکثریت رائے سے منظور کرا لیا جبکہ اپریشن سے ہونے والی کامیابیوں کے تناظر میں وفاقی حکومت اپریشن کو ادھورا چھوڑنے کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی چنانچہ وفاقی حکومت کی جانب سے اپنے آئینی اختیارات کی بنیاد پر رینجرز اپریشن کی مدت اور دائرہ بڑھانے کا عندیہ دے دیا گیا، اسی دوران سابق صدر آصف علی زرداری ملک سے باہر منتقل ہوئے اور پھر پیپلز پارٹی کی قیادت کو طوحاً و کرہاً معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرکے رینجرز کے قیام کی مدت اور اس کے اختیارات میں توسیع کا فیصلہ قبول کرنا پڑا۔
تین سال سے زائد عرصہ سے جاری رینجرز کے ٹارگٹڈ اپریشن کے اب تک بلاشبہ خاصے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ آئے روز کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ مکمل ختم نہیں ہوا تو کنٹرول میں ضرور آ گیا ہے اور اسی طرح بھتہ خوروں کی جانب سے متمول کاروباری شخصیات کو پرچیاں بھجوانے کے سلسلہ میں بھی نمایاں کمی آئی ہے اور اودھم مچاتے ہوئے سٹریٹ کرائم کی بھی اب کم ہی نوبت آتی ہے۔ اسی بنیاد پر اپریشن کی افادیت تسلیم ہوئی جبکہ کراچی کے حالات کی خرابی میں بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے معاملہ کا قطعی کھوج لگانے کی امید بھی ٹارگٹڈ اپریشن میں مصروف رینجرز سے ہی وابستہ ہوئی چنانچہ اس اپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانا کراچی کے امن و امان کی بحالی کے ساتھ ساتھ ملک کی سلامتی ا ور ترقی کے لئے بھی ضروری ہے جس کے لئے بالخصوص کراچی کے عوام اور کاروباری طبقات نے رینجرز سے ہی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ اسی تناظر میں رینجرز کے قیام کی مدت اور اس کے اختیارات میں مزید توسیع کا سوچا جا رہا تھا کہ گزشتہ ماہ کلفٹن کراچی میں دن دہاڑے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے صاحبزادے کے اغوا کی واردات کے باعث امن و امان کی صورتحال پر ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی تشویش بھی اپریشن کو تیز کرنے کی متقاضی ہو گئی۔ اس دوران رینجرز کو چیف جسٹس سندھ کے صاحبزادے کے اغوا میں سندھ حکومت کے ایک وزیر کے بھائی کے ملوث ہونے کی نشاندہی ہوئی تو اس کی گرفتاری کے لئے رینجرز نے چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کیا جس پر پیپلز پارٹی کی قیادت نے پھر رینجرز اپریشن کے حوالے سے محاذ آرائی کی کیفیت پیدا کر دی۔ اسی دوران رینجرز کے قیام کی مدت اور اس کے اختیارات میں مزید توسیع کا معاملہ سامنے آیا تو پیپلز پارٹی کی قیادت اور سندھ حکومت اب پھر اس معاملہ میں سیاسی محاذ آرائی بڑھانے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے ڈی جی رینجرز کراچی کو مراسلہ بھجوایا گیا جس کے تحت رینجرز کو اپریشن جاری رکھنے کا کہا گیا چنانچہ سندھ حکومت نے وفاقی وزارت داخلہ کے اس اقدام کو بھی چیلنج کرنا شروع کیا اور اسی چپقلش میں رینجرز کے قیام اور اس کے اختیارات میں کی گئی توسیع کی مدت ختم ہو گئی نتیجتاً رینجرز کو گزشتہ سوا تین سال سے جاری ٹارگٹڈ اپریشن روکنا پڑا ہے۔ اگر اب اس ایشو پر پیپلز پارٹی کی سیاست کی بنیاد پر رینجرزکا ٹارگٹڈ اپریشن ادھورا چھوڑ دیا جاتا ہے اور رینجرز کو سندھ سے واپس بلوا لیا جاتا ہے تو اس سے جہاں اپریشن کی اب تک کی ساری کامیابیاں غارت ہو جائیں گی وہیں کوئی چیک نہ ہونے کے باعث ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں اور لینڈ مافیا کو پھر قانون ہاتھ میں لینے اور کھل کھیلنے کا موقع مل جائے گا جیسا کہ گزشتہ روز متحدہ کے کچھ لوگوں نے اسلحہ اٹھا کر کراچی کے مختلف مقامات پر خوف و دہشت کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جنہیں بعدازاں اسلحہ سمیت حراست میں لیا گیا۔ اس صورت حال میں سیاست اپنی جگہ، مگر کراچی، سندھ اور ملک کا امن مقصود ہے تو پھر رینجرز کو ٹارگٹڈ اپریشن کے ذریعے اپنا مشن مکمل کرنے کا بہرصورت موقع دینا ہو گا۔ اس حوالے سے مشیر اطلاعات سندھ مولا بخش چانڈیو کا یہ موقف دودھ میں مینگنیں ڈالنے کے مصداق نظر آتا ہے کہ رینجرز نے اپنے اختیارات بے دردی سے استعمال کئے ہیں اس لئے اب اسے صرف چار متعینہ مقاصد کی تکمیل کے لئے توسیع دی جائے گی۔ اگر سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے پاس رینجرز کے اختیارات کے ناجائز استعمال کے کوئی ثبوت موجود ہیں تو وہ انہیں منظر عام پر لائے تاہم رینجرز کے اپریشن پر بلاتحقیق سیاسی انتقامی کارروائیوں کا الزام لگانا اس کی کامیابیوں کا سفر کھوٹا کرنے کے مترادف ہو گا۔ اگر آج اس صورتحال میں رینجرز پر بھی کراچی میں امن و امان کی بحالی اور جرائم کی بیخ کنی میں ناکامی کا لیبل لگ گیا تو پھر ملک کا کون سا ادارہ وہاں امن کی بحالی کی ذمہ داری نبھا پائے گا۔
اس تناظر میں بہتر یہی ہے کہ رینجرز اپریشن کو کسی انا کا مسئلہ بنایا جائے نہ اسے سیاست کی نذر ہونے دیا جائے۔ چونکہ وزیر اعلیٰ سندھ نے رینجرز کے قیام کی مدت اور اس کے اختیارات میں توسیع خود کرنی ہے اس لئے وہ اس معاملہ میں مزید کوئی تاخیر نہ کریں اور اس سلسلہ میں وزارت داخلہ سندھ کی جانب سے بھجوائی گئی سمری کی منظوری دے دیں بصورت دیگر رینجرز کراچی میں امن و امان کی بحالی کے مشن سے دستکش ہو گی تو پھر کراچی کا امن اور اس کی روشنیاں واپس لوٹانے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو پائے گا۔
(نوائے وقت)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں