چاند تاروں سے دوستی ٹھہری
دل کے آنگن میں روشنی ٹھہری
سارے الزام آ گئے مجھ پر
اِک خطا بھی نہ آپ کی ٹھہری
میں کہ سادہ سا آدمی ٹھہرا
اور جنّت کی وہ پری ٹھہری
دل میں دریا ہے موج زن لیکن
میرے ہونٹوں پہ تشنگی ٹھہری
اُن سے بچھڑے تھے جس گھڑی راغبؔ
ہے ابھی تک وہیں گھڑی ٹھہری
٭٭٭
افتخار
راغب
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں