چچا تیز گام بے چینی کے عالم میں اپنے کمرے میں ٹہل رہے تھے۔ وہ ٹہلنے کے ساتھ ساتھ اپنے سر کو بھی زور زور سے ہلا رہے تھے جس سے اُن کی ٹوپی کا پھُند نا کسی مداری کی ڈگڈگی کی طرح اِدھر اُدھر پھدک رہا تھا۔ چچا تیز گام کمرے کے ایک کونے سے دُوسرے کونے کی طرف چکر لگا رہے تھے۔ اُن کا پارہ چڑھا ہوا تھا۔ مارے غصے سے اُن کا چہرہ تمتما رہا تھا۔
بات دراصل یہ تھی کہ آج اُنہیں ایک افطار پارٹی پر جانا تھا۔ افطار پارٹی اُن کے دوست مبین میاں کے ہاں تھی۔ اُن کا گھر شاداب کالونی میں تھا جو چچا تیز گام کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھی۔ مبین میاں نے اُن کو دعوت کیا دے دی وہ تو ہواؤں میں اڑنے لگے تھے۔ مارے خوشی کے وہ پھول کر کپّا ہو گئے تھے۔
یہ دعوت مبین میاں نے چچا تیز گام کو دی نہیں تھی بلکہ انہوں نے خود لی تھی۔ کل چچا تیز گام شبراتی حلوائی کی دُکان کے سامنے سے گزر رہے تھے کہ انہیں مبین میاں شبراتی حلوائی سے باتیں کرتے نظر آئے۔
’’ٹھیک ہے۔۔ شبراتی۔۔ ذرا دھیان سے۔۔ دو سو سموسے۔۔ اور دس کلو پکوڑے، ذرا اچھے سے انداز میں بنانا، ہاں۔۔ ہاں میں افطاری سے کچھ دیر پہلے لے جاؤں گا۔ ‘‘ مبین میاں کے یہ الفاظ چچا تیز گام کے کانوں میں پڑے تو اُن کے کان کھڑے ہو گئے۔ چچا تیز گام تیر کی طرح اُن کی طرف لپکے۔
’’ارے۔۔ بھئی۔۔! یہ چپکے چپکے کیا باتیں ہو رہی ہیں ؟‘‘چچا تیز گام انجان سے بن کر بولے۔
’’آؤ۔۔ آؤ میاں تیز گام! وہ کل گھر میں افطار پارٹی ہے، اس کے لیے میں شبراتی کو سموسوں اور پکوڑوں کا آرڈر دے رہا تھا۔ ‘‘ مبین میاں چچا تیز گام کو دیکھتے ہوئے بولے۔
’’ارے مبین میاں ! ہمیں نہیں بلاؤ گے۔ افطار پارٹی میں، اکیلے ہی اکیلے روزہ افطار کرو گے!‘‘ چچا تیز گام مصنوعی خفگی سے بولے۔
’’ارے میاں تیز گام! افطار پارٹی میں اگر آپ کو نہیں بلائیں گے تو بھلا کس کو بلائیں گے۔ آپ کے بغیر افطار پارٹی کا خاک مزہ آئے گا۔ آپ تو افطار پارٹی کے مہمان خصوصی ہوں گے۔۔ مہمانِ خصوصی۔ ‘‘ مبین میاں خوشامدانہ انداز میں بولے۔
’’واہ۔۔ بھئی۔۔ واہ۔۔! بہت خوب۔۔! مہمان خصوصی اور وہ بھی ہم۔۔ پھر تو ہم پوری آن بان شان سے آئیں گے، ہم ابھی سے تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ ‘‘
چچا تیز گام اکڑ کر بولے۔ چچا تیز گام ابھی گھر کی طرف روانہ ہونے ہی والے تھے کہ مبین میاں بولے۔
’’ارے۔۔ ارے بھئی! یاد رکھئے گا۔۔ افطار پارٹی کل ہے۔۔ آج نہیں۔۔‘‘ مبین میاں کو خطرہ تھا کہ چچا تیز گام اپنی تیزی کی وجہ سے کہیں آج ہی نہ ٹپک پڑیں۔
’’اچھا، اچھا ہمیں یاد ہے اب ہم اتنے بھی تیز گام نہیں۔ ‘‘
چچا تیز گام بُراسا منہ بنا کر بولے اور تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے گھر کی طرف چل دئیے۔
’’بیگم۔۔! او۔۔ بیگم۔۔!‘‘ چچا تیز گام زور زور سے چلاتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔
’’کیا ہوا ہے؟ کیا مصیبت آن پڑی ہے جو یوں چلا رہے ہو۔ ‘‘ باورچی خانے سے بیگم کی جھلّاتی ہوئی آواز سنائی دی۔
’’مصیبت نہیں۔۔ بیگم! افطار پارٹی آن پڑی ہے۔ افطار پارٹی۔۔ وہ اپنے مبین میاں ہیں نا، ارے وہی جو شاداب کالونی میں رہتے ہیں۔ اُن کے ہاں کل افطار پارٹی ہے۔۔ پتہ ہے۔۔ بیگم۔۔ انہوں نے افطار پارٹی کی دعوت دیتے ہوئے کیا کہا تھا۔ ‘‘ چچا تیز گام تیز تیز بولتے چلے گئے۔
’’مجھے کیا پتہ۔۔ کیا کہا تمہارے مبین میاں نے؟ پتہ نہیں کون ہیں یہ مبین میاں ؟ کھانے کے لئے تو تم ہر ایرے غیرے سے واقفیت نکال لیتے ہو۔ ‘‘ بیگم جلے کٹے لہجے میں بولی۔
’’کیا کہا۔۔؟ ایرا غیرا، اماں جاؤ، مبین میاں کوئی غیر نہیں، اپنا یار ہے جگری یار۔۔ جبھی تو انہوں نے کہا تھا چچا تت۔۔ نہیں۔۔ میرا مطلب ہے۔۔ تنویر احمد آپ تو افطار پارٹی کے مہمانِ خصوصی ہوں گے۔۔ مہمانِ خصوصی!‘‘
’’مہمانِ خصوصی اور آپ۔۔!‘‘ جمن جو کافی دیر سے خاموش تھا، حیرت سے چچا تیز گام کو دیکھتے ہوئے بولا۔
’’کیا آپ مہمانِ خصوصی ہوں گے؟‘‘
’’کیوں۔۔ کیا ہم مہمانِ خصوصی نہیں ہو سکتے؟‘‘ چچا تیز گام نے آنکھیں نکالیں۔
’’ہو سکتے ہیں۔۔ حضور۔۔ ہو سکتے ہیں۔ مہمانِ خصوصی تو کیا آپ سب کچھ ہو سکتے ہیں۔ ‘‘ جمن جلدی سے بولا۔
’’ہاں تو بیگم صاحبہ ہم افطار پارٹی میں مہمانِ خصوصی ہوں گے اس لیے ہماری تیاری بھی تو خصوصی ہونی چاہیے۔ تیاری تو ہم کل کریں گے۔ بیگم تم سے تو بس ہم یہی کہنے آئے ہیں کہ ہمیں سحری کے وقت اٹھا دینا۔ اب بغیر روزہ رکھے افطار پارٹی کے مہمانِ خصوصی بنتے کیا ہم اچھے لگیں گے۔ ‘‘
’’تو یوں کہو نا کہ افطار پارٹی کے لیے روزہ رکھو گے۔ ‘‘ بیگم ہاتھ نچا کر بولیں۔
’’بیگم تم کچھ بھی کہو۔ کل تو خیر ہم روزہ ضرور رکھیں گے۔ اس بلا کی پڑتی ہوئی گرمی میں ہم سے پیاس برداشت نہیں ہوتی۔ ہمارا معدہ کھانے سے اتنی لمبی جدائی برداشت نہیں کر سکتا، لیکن اب ہم اتنے گئے گزرے بھی نہیں ہیں کہ ایک روزہ بھی نہ رکھ سکیں۔ ‘‘ چچا تیز گام بُرے بُرے سے منہ بناتے بولتے چلے گئے۔
وہ دن تو جیسے تیسے گزر گیا۔ رات کو چچا تیز گام خواب میں بھی سموسے، پکوڑے اور دہی بڑے کھاتے رہے۔
سحری کے وقت جب سارا گھر چچا تیز گام کے خراٹوں سے گونج رہا تھا تو ان کی بیگم نے انہیں جگایا:
’’محمود کے ابا۔۔ اب اٹھ بھی جاؤ۔ ‘‘ اس مرتبہ بیگم نے ان کو زور سے جھنجوڑا۔ کیونکہ اس سے پہلے وہ دو مرتبہ چچا تیز گام کو اٹھا چکی تھیں، لیکن وہ چچا تیز گام ہی کیا جو ایک بار کے اٹھانے سے اٹھ جائیں۔ خیر اللہ اللہ کر کے چچا تیز گام اٹھے اور سحری کی۔
نمازِ فجر کے فوراً بعد ہی جمن اور استاد کی شامت آ گئی۔
’’ارے جمن۔۔! او۔۔ جمن! ذرا دوڑ کے میرے پاس آؤ۔۔ اُستاد! تم بھی آؤ۔ ‘‘
’’جی حضور۔۔!‘‘
’’جمن۔۔! یہ میرے جوتے لے جاؤ اور بدھو موچی سے پالش کروا لاؤ اور سنو! بدھو موچی سے کہنا پالش ذرا بڑھیا قسم کی لگا کر جوتے اچھی طرح چمکائے۔ ‘‘ چچا تیز گام نے جمن کو جوتے تھمائے اور پھر استاد کو کہا:
استاد! میری شیروانی جمعہ خان دھوبی سے استری کروا لاؤ۔ ‘‘
’’جی حضور!‘‘ استاد بولا۔
جمن اور استاد سوچ رہے تھے کہ اس کے بعد اُن کی چھٹی ہو جائے گی، لیکن چچا تیز گام بھلا اتنی جلدی کہاں چھٹی دینے والے تھے۔ دن میں تقریباً دس مرتبہ تو جمن کو جوتے پالش کروانے کے لئے بھجوایا اور اتنی ہی مرتبہ استاد کی شامت آئی۔ تب کہیں جا کر اُن کو جوتوں کی پالش اور اچکن کی استری پسند آئی۔ وہ ابھی تیزی سے شیروانی پہن ہی رہے تھے کہ اُن کی بیگم کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی:
’’ارے اتنی بلا کی پڑتی ہوئی گرمی میں شیروانی پہننے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’لو بھئی۔۔ اور سنو! ارے۔۔ شیروانی تو ہماری پہچان ہے۔ اور جو قومیں اپنی پہچان کو پسِ پشت ڈال دیتی ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کرتیں۔ ‘‘
چچا تیز گام نے کسی مقررّ کی طرح اکڑ کر کہا اور تیزی سے اچکن پہننے لگے، لیکن یہ کیا جیسے ہی انہوں نے شیروانی پہننے کے لئے اپنا سر شیروانی میں ڈالا۔ ان کا سر پھنس کر رہ گیا۔ کیونکہ انہوں نے جلدی میں اپنا سر بازو میں ڈال دیا تھا۔ پھر بڑی مشکل سے انہوں نے اپنا سر بازو میں سے نکالا۔ اب شیروانی پہن کر وہ جلدی جلدی بٹن بند کرنے لگے تو بٹن ٹوٹ گیا۔ بٹن ٹوٹنے پر چچا تیز گام بوکھلا گئے۔
’’جمن۔۔! او جمن۔۔! غضب خدا کا اس نگوڑے مارے بٹن کو بھی آج ہی ٹوٹنا تھا، جاؤ شیدی ماسٹر سے بٹن لگوا کر لاؤ اور ذرا جلدی آنا ہم پہلے ہی بہت لیٹ ہو چکے ہیں۔ ‘‘
جمن کہہ کر تو یہ گیا تھا کہ بس چچا تیز گام میں یوں گیا اور یوں آیا۔ لیکن وہ کافی دیر گزرنے پر بھی نہ آیا تھا۔ اب چچا تیز گام اُس کے انتظار میں کمرے میں ٹہل رہے تھے۔ آخر کافی دیر بعد جمن ہانپتا ہوا نمودار ہوا۔
’’کہاں مر گیا تھا؟‘‘
’’وہ۔۔ مالک کتے۔۔‘‘ جمن میاں نے کہنا چاہا۔
’’کیا کہا۔۔ مالک کتے۔۔ ہم تمہیں کتا نظر آتے ہیں ‘‘ چچا تیز گام غصے سے چلا اُٹھے۔
’’نن۔۔ نہیں مالک! میرا یہ مطلب نہیں تھا‘‘ جمن گھبرا کر جلدی سے بولا۔
’’تو پھر کیا مطلب تھا تمہارا۔۔‘‘ وہ غصے سے پھنکارتے ہوئے بولے
’’میرا مطلب ہے میرے پیچھے کتے لگ گئے تھے۔ اسی لیے میں لیٹ ہو گیا ہوں۔ ‘‘ جمن بولا۔
آخر خدا خدا کر کے چچا تیز گام کی تیاری مکمل ہوئی۔ اور وہ پوری آن بان شان کے ساتھ مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے افطار پارٹی پر جانے کے لئے گھر سے چل پڑے، لیکن یہ کیا جیسے ہی چچا تیز گام گھر سے باہر نکلے بوندا باندی شروع ہو گئی۔
’’ارے۔۔ اس بارش کو بھی آج ہی ہونا تھا۔ استاد۔۔! او۔۔ استاد۔۔! ذرا بھاگ کر جا۔۔ میرے کمرے سے چھتری تو اٹھا لا۔ ‘‘ چچا تیز گام نے دروازے پر کھڑے کھڑے ہانک لگائی۔
’’میں کہتی ہوں، اس بارش میں افطار پارٹی میں جانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ‘‘ ان کی بیگم بولی۔
’’بیگم! کیا بات کرتی ہو اگر مہمان خصوصی ہی نہ گیا تو پارٹی کیا خاک ہو گی۔ ‘‘
اتنے میں استاد چھتری لے آیا۔ چچا تیز گام نے چھتری پکڑی اور جلدی سے گھر سے نکلنے ہی لگے تھے کہ ان کی شیروانی دروازے کے ایک کیل میں الجھ کر رہ گئی۔ اب وہ چچا تیز گام ہی کیا جو سکون سے الجھی ہوئی شیروانی کو سلجھاتے۔ چچا تیز گام نے جو زور سے شیروانی کو کھینچا تو ’’چیڑ‘‘ کی آواز کے ساتھ شیروانی کا بازو پھٹ گیا۔
اس اچانک افتاد پر چچا تیز گام ایک مرتبہ تو ٹھٹک کر رہ گئے۔ وہ افطار پارٹی میں جانے یا نہ جانے کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ مہمانِ خصوصی کا بھوت پھر اُن کے سر پر سوار ہو گیا۔ سموسے پکوڑے اور دھی بڑے ان کی آنکھوں کے سامنے گردش کر رہے تھے۔ لہٰذا چچا تیز گام ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ پھٹی بازو والی شیروانی پہنے ایک مرتبہ پھر گھر سے چل دئیے۔
بوندا باندی آہستہ آہستہ بارش کی شکل اختیار کرتی جا رہی تھی۔ ہوا بھی تیز چل رہی تھی۔ اب جو ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا تو چچا تیز گام کے قدم لڑکھڑا گئے۔ کیونکہ چچا تیز گام ٹھہرے اک دھان پان قسم کے آدمی، اب قدم جو لڑکھڑائے تو چھتری اُن کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور ہوا میں اڑنے لگی۔
’’میری چھتری۔۔ میری چھتری۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ چھتری کے پیچھے ہو لیے۔ اب چھتری آگے آگے اور چچا تیز گام پیچھے پیچھے تھے۔ آخر چچا تیز گام نے چھتری کو جا لیا۔ چھتری ابھی تک ہوا میں محو پرواز تھی۔ چچا تیز گام نے چھتری کو پکڑنے کے لئے ہوا میں چھلانگ لگائی تو وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے۔ لہٰذا وہ چھتری سمیت زمین پر آ رہے۔ بارش تیز ہونے کی وجہ سے کیچڑ ہو چکی تھی۔ چچا تیز گام کی شیروانی کیچڑ میں لت پت ہو گئی جس سے اُس پر عجیب و غریب نقش و نگار بن گئے تھے۔ لیکن وہ بھلا کب ان نقش و نگار کو خاطر میں لانے والے تھے۔ چھتری مضبوطی سے تھامے تیزی سے مبین میاں کے گھر کی طرف چل دئیے۔ وہ ابھی راستے میں تھے کہ افطاری کا سائرن بج اُٹھا۔ سائرن کا بجنا تھا کہ چچا تیز گام نے
مبین میاں کے گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔ کیچڑ میں وہ بھلا کہاں دوڑ سکتے تھے۔ لہٰذا جیسے ہی وہ دوڑے اُن کا پاؤں پھسلا، اب چھتری ایک طرف تو چچا تیز گام دوسری طرف تھے۔ اس مرتبہ چچا تیز گام نے چھتری کی بھی پروا نہ کی اور اٹھ کر دوبارہ دوڑ لگا دی۔ چچا تیز گام مبین کے گھر پہنچے تو وہاں افراتفری کا عالم تھا۔ لوگ سموسوں اور پکوڑوں پر جلدی جلدی ہاتھ صاف کر رہے تھے۔ چچا تیز گام بھی جلدی سے لوگوں کی بھیڑ میں گھس گئے۔
’’ارے ….. ارے کون ہو تم۔۔! جو یوں منہ اٹھائے چلے آ رہے ہو۔ ‘‘ ایک آدمی ان کو دیکھتے ہوئے بولا۔
’’ذرا زبان سنبھال کر بات کرو، میں ہوں اس افطار پارٹی کا مہمانِ خصوصی۔ ‘‘ چچا تیز گام نے اکڑ کر کہا۔
’’ ارے یہ تو اپنے چچا تیز گام ہیں، چچا تیز گام! یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟‘‘
’’مبین میاں ! حالت کو چھوڑو۔۔ کچھ کھانے کو دو۔۔ ورنہ تو لگتا ہے چند ہی منٹوں
میں سب کچھ چٹ ہو جائے گا۔ ‘‘ چچا تیز گام جلدی سے بولے اور پاس رکھے سموسوں پر پل پڑے۔ اُن کی یہ حالت دیکھ کر لوگوں کے قہقہے بلند ہو رہے تھے۔
(فہیم عالم کی کتاب: "چچا تیز گام "سے)

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں