اسرا ر بخاری
ترکی میں جو ہوا اسے چند لفظوں میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ حکمران اگر عوام کے مفادات کو مقدم رکھیں گے تو عوام ہر مشکل میں ان کے لئے ڈھال بنیں گے ورنہ وہ سڑکوں پر ضرور نکلیں گے مگر مزاحمت کے لئے نہیں بلکہ جشن منانے اور مٹھائیاں تقسیم کرنے۔ حکمران بالخصوص پاکستان کے حکمران ایک لمحے کے لئے سوچ لیں خدا نخواستہ پاکستان میں ایسی صورت بنی تو کیا پاکستان کے عوام ہزاروں کی تعداد میں ٹینکوں کے سامنے لیٹ جائیں گے اگر وہ اس کا جواب خود ’’ہاں‘‘ میں پائیں تو وہ بلاشبہ چین کی بانسری بجانا ان کا حق ہے۔
مجھ پر تجسس آمیز سوالات کی بوچھاڑ ہوئی، وزیراعلیٰ شہباز شریف کی اہلیہ بیگم تہمینہ درانی کے انٹرویو نے ان سوالات کو جنم دیا۔ صحافتی اسرار و رموز کے شناور جانتے ہیں بعض انٹرویوز کئے نہیں جاتے بلکہ کروائے جاتے ہیں۔ اس انٹرویو کو جس نے بھی کھلے کانوں سے سنا ہے اور باڈی لینگوئج پر نظر رکھی ہے، اس پر کھل گیا ہوگا کہ اس انٹرویو کی خاص چیز چند جملے تھے جو دراصل پیغام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ پیغام جن کے لئے تھا، یہ ان کی فہم و فراست پر منحصر ہے کہ وہ اسے کس انداز سے وصول کرتے ہیں۔ بعض جملے اپنے اندر معنوں کا جہان رکھتے ہیں۔ ایک خاص موقع پر ایک خاص ماحول میں کہا گیا یہ جملہ ’’کیا قربانیوں کے لئے ہم ہی رہ گئے ہیں‘‘ اس کی تپش آج بھی کہیں اضطراب کا باعث ہے۔
اضطراب کا باعث تو پوری پاکستانی قوم کے لئے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال بھی ہے لیکن عوامی صفوں اور حکومتی حلقوں میں اس اضطراب کی کیفیت مختلف ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے نواز شریف حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف آواز تک اٹھانے کی آٹھ روز تک فرصت نہیں ملی اور اس سے عوام میں پھیلے تاثر کو ختم کرنا بلکہ کم کرنا بھی اس حکومت کے بس کی بات نہیں رہی کہ اگر جنرل راحیل شریف کور کمانڈرز کے اجلاس کے بعد پوری دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کا نوٹس لینے اور مسئلہ کشمیر حل کرانے والا بیان نہ دیتے تو شاید وزیراعظم نواز شریف 15 جولائی کو بھی کابینہ کا اجلاس بلاتے نہ مذمتی بیان جاری کرتے تاہم کابینہ کا اجلاس ہوا مگر عوامی سطح پر بہت توقعات تھیں۔ یہ توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ بلاشبہ حکومت اعلان جنگ نہیں کر سکتی تھی مگر ایسے اقدامات ضرور کر سکتی تھی جس سے دنیا اس تشویش کا شکار ہو کر کہ ان دو ملکوں میں چوتھی جنگ اس مسئلہ پر نہ ہو جائے وہ کوئی عملی کردار اس حوالے سے کرنے پر سنجیدگی سے توجہ دیتی۔ وفاقی کابینہ نے یوم سیاہ منانے، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کشمیریوں کی حمایت جاری رکھنے کے فیصلے کئے اور وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کے مسئلہ پر عالمی ضمیر کو جگائیں گے ان میں سے ایک بھی قدم ایسا نہیں ہے جو بھارت کے لئے پریشانی کا سامان پیدا کر دے سوال کیا جا سکتا ہے پھر کیا کرنا چاہئے تھا اس کا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلے بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط کو فوری طور پر پاکستان طلب کر لیا جاتا ہے ایک انتہائی غیر موثر بلکہ مردہ تنظیم سہی مگر دنیا کو متوجہ کرنے کے لئے اسلامی کانفرنس تنظیم کا سربراہی اجلاس طلب کیا جاتا اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا مشترکہ اجلاس وزیراعظم کی صدارت میں آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں طلب کیا جاتا اس میں تمام سیاسی قائدین اپنے خطاب کے ذریعہ کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے۔ بھارت سے ہم آواز ہو کر کشمیریوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کیا جاتا اور وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں تمام سیاسی قائدین، مظفر آباد کی سڑکوں پر احتجاجی مارچ کرتے اور اقوام متحدہ کے نمائندوں کو اجتماعی مراسلہ پیش کیا جاتا مگر ستم بالائے ستم یہ کہ یوم سیاہ منانے کے لئے 19 جولائی کا انتخاب کر لیا گیا۔
یہ تاریخ یوم الحاق پاکستان سے موسوم ہے اس تاریخ کو آزاد کشمیر کے بانی صدر غازی ملت ابراہیم خان کی صدارت میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے آزادی کے بعد پورے جموں و کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی قرارداد منظور کی تھی اور اس وقت سے تادم تحریر پاکستانی اور بالخصوص آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے عوام ہر سال اس تاریخ کو نہایت جوش و خروش کے ساتھ یہ دن مناتے ہیں اس روز ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ سیمینارز ہوتے ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی لاکھوں کی تعداد میں موجودگی کے باوجود پاکستانی پرچم اٹھا کر جلوس نکالے جاتے ہیں وہ کیا نامسعود لمحہ تھا جب وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں اس تاریخی دن کو یوم سیاہ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کر دیا گیا ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ کشمیری کہلوانے والے وزیراعظم کو بھی یہ یاد نہ رہا اس پر ملک میں جس ردعمل کا اظہار کیا گیا ان سطور کی اشاعت سے قبل یوم سیاہ منانے کی تاریخ بدل دی گئی ہے اب یوم سیاہ 20 جولائی کو منایا جائے گا مگر نواز شریف حکومت کی کشمیری عوام سے تعلق خاطر اور مسئلہ کشمیر سے دلچسپی و سنجیدگی کا بھانڈا ضرور پھوٹ گیا ہے۔وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جو حقیقت نمایاں طور پر کھل کر سامنے آئی وہ یہ کہ وزیراعظم نواز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے مابین ذہنی فاصلوں کی جو خبریں اندازوں اور شکوک و شبہات میں لپٹے الفاظ میں دی جا رہی تھیں وہ کھل کر سامنے آگئی ہے۔ چودھری نثار کے حوالے سے وزیراعظم کی سرد مہری و ناراضگی کو واضح طور پر محسوس کیا گیا اجلاس کے دوران چودھری نثار نے وزیراعظم کو پانچ بار مخاطب کرکے کوئی بات کرنی چاہی مگر وزیراعظم نے انہیں ہر بار نظرانداز کر دیا حتیٰ کہ دونوں نے ایک ہی جگہ کھانا بھی الگ الگ کھایا چودھری نثار نے وہیں بیٹھ کر جبکہ وزیراعظم اور دیگر وزراء نے گورنر ہاؤس کے اندر جا کر کھانا کھایا۔ وزیراعظم نے بعض وزراء کی جانب سے بھارتی مظالم پر جارحانہ رویہ ختیار کرنے کی تجاویز کو بھی سنجیدگی سے نہ لیا اس اجلاس کے شرکاء بھی حیران رہ گئے جب انوشہ رحمان نے آزاد کشمیر کو پاکستان کا مقبوضہ قرار دے دیا۔ آزاد کشمیر کو پاکستان کا مقبوضہ کشمیر کوئی بھارتی تو کہہ سکتا ہے پاکستان میں وفاقی وزیر کی سطح کا کوئی فرد یہ بات کہے تو اسے شرمناک ہی کہا جا سکتا ہے بعض معاملات کی توثیق و تردید واقعاتی شواہد سے ہوتی ہے اور کچھ حلقوں کی جانب سے جو یہ بات کی جا رہی ہے کہ میاں نواز شریف نے بھارت سے بہتر تعلقات کی شرط قبول کرکے اقتدار حاصل کیا تھا اس میں کچھ نہ کچھ صداقت ضرور تلاش کی جا سکتی ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر بھارت کو مذاکرات کرنے کیلئے جو کہا گیا ہے۔ اس کے بھی مضمرات اور نتائج و عواقب کا اندازہ نہیں کیا گیا اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ بجا طور پر تشویش ناک اس لئے ہے کہ اسے بھارت خود کو موجودہ صورتحال سے نکالنے کے لئے ہمیشہ کی طرح استعمال کر سکتا ہے اس لئے بھارت سے مذاکرات نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کی جلد از جلد تاریخ دینے کا مطالبہ کیا جائے، بھارت مذاکرات کی دعوت بلا تاخیر قبول کرکے ٹال مٹول کرے گا تاکہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کی شدت کم ہو جائے اور پھر وہ کوئی بہانہ بنا کر مذاکرات سے فرار اختیار کرے گا۔ اس طرح یہ شعوری طور پر نہ سہی لاشعوری طور پر بھارت کو موجودہ مشکل سے نکالنے کی راہ دینے کے مترادف ہوگا۔
بات ترکی سے شروع ہوئی تھی، اس کا پاکستان سے موازنہ تو بنتا ہی نہیں ہے۔ پاکستان میں سیاسی قیادت فوج کے گملوں میں اگتی رہی ہے جبکہ ترکی میں سیاسی عمل کے بطن سے جنم لیتی رہی ہے۔ طیب اردگان یا ان کی فیملی کی کوئی آف شور کمپنی نہیں ہے۔ ان کی سیاست کی بنیاد گورننس ہے، ان کی پہلی ترجیح صحت، تعلیم، پبلک ٹرانسپورٹ اور صفائی رہی۔ اس کی تکمیل کے بعد میٹرو بس سروس چلائی۔ اقتدار کو سنبھالا تو ملک 25 بلین ڈالر کا مقروض تھا۔ آج ترکی قرض دینے والا ملک ہے۔ فی کس آمدنی 20 ہزار ڈالر ہے۔ یہ اس گورننس کا انعام ہے کہ لوگ جانوں کی پرواہ کئے بغیر ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ خدانحواستہ پاکستان میں ایسا وقت آیا تو عوام کا ردعمل کیا ہوگا، یہ سوچنے کی بات ہے مگر کس کے لئے، یہ بھی اہم سوال ہے البتہ بلاخوف تردید ترکی میں فتح حکومت کی نہیں، گورننس کی ہوئی ہے۔
مجھ پر تجسس آمیز سوالات کی بوچھاڑ ہوئی، وزیراعلیٰ شہباز شریف کی اہلیہ بیگم تہمینہ درانی کے انٹرویو نے ان سوالات کو جنم دیا۔ صحافتی اسرار و رموز کے شناور جانتے ہیں بعض انٹرویوز کئے نہیں جاتے بلکہ کروائے جاتے ہیں۔ اس انٹرویو کو جس نے بھی کھلے کانوں سے سنا ہے اور باڈی لینگوئج پر نظر رکھی ہے، اس پر کھل گیا ہوگا کہ اس انٹرویو کی خاص چیز چند جملے تھے جو دراصل پیغام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ پیغام جن کے لئے تھا، یہ ان کی فہم و فراست پر منحصر ہے کہ وہ اسے کس انداز سے وصول کرتے ہیں۔ بعض جملے اپنے اندر معنوں کا جہان رکھتے ہیں۔ ایک خاص موقع پر ایک خاص ماحول میں کہا گیا یہ جملہ ’’کیا قربانیوں کے لئے ہم ہی رہ گئے ہیں‘‘ اس کی تپش آج بھی کہیں اضطراب کا باعث ہے۔
اضطراب کا باعث تو پوری پاکستانی قوم کے لئے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال بھی ہے لیکن عوامی صفوں اور حکومتی حلقوں میں اس اضطراب کی کیفیت مختلف ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے نواز شریف حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف آواز تک اٹھانے کی آٹھ روز تک فرصت نہیں ملی اور اس سے عوام میں پھیلے تاثر کو ختم کرنا بلکہ کم کرنا بھی اس حکومت کے بس کی بات نہیں رہی کہ اگر جنرل راحیل شریف کور کمانڈرز کے اجلاس کے بعد پوری دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کا نوٹس لینے اور مسئلہ کشمیر حل کرانے والا بیان نہ دیتے تو شاید وزیراعظم نواز شریف 15 جولائی کو بھی کابینہ کا اجلاس بلاتے نہ مذمتی بیان جاری کرتے تاہم کابینہ کا اجلاس ہوا مگر عوامی سطح پر بہت توقعات تھیں۔ یہ توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ بلاشبہ حکومت اعلان جنگ نہیں کر سکتی تھی مگر ایسے اقدامات ضرور کر سکتی تھی جس سے دنیا اس تشویش کا شکار ہو کر کہ ان دو ملکوں میں چوتھی جنگ اس مسئلہ پر نہ ہو جائے وہ کوئی عملی کردار اس حوالے سے کرنے پر سنجیدگی سے توجہ دیتی۔ وفاقی کابینہ نے یوم سیاہ منانے، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کشمیریوں کی حمایت جاری رکھنے کے فیصلے کئے اور وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کے مسئلہ پر عالمی ضمیر کو جگائیں گے ان میں سے ایک بھی قدم ایسا نہیں ہے جو بھارت کے لئے پریشانی کا سامان پیدا کر دے سوال کیا جا سکتا ہے پھر کیا کرنا چاہئے تھا اس کا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلے بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط کو فوری طور پر پاکستان طلب کر لیا جاتا ہے ایک انتہائی غیر موثر بلکہ مردہ تنظیم سہی مگر دنیا کو متوجہ کرنے کے لئے اسلامی کانفرنس تنظیم کا سربراہی اجلاس طلب کیا جاتا اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا مشترکہ اجلاس وزیراعظم کی صدارت میں آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں طلب کیا جاتا اس میں تمام سیاسی قائدین اپنے خطاب کے ذریعہ کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے۔ بھارت سے ہم آواز ہو کر کشمیریوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کیا جاتا اور وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں تمام سیاسی قائدین، مظفر آباد کی سڑکوں پر احتجاجی مارچ کرتے اور اقوام متحدہ کے نمائندوں کو اجتماعی مراسلہ پیش کیا جاتا مگر ستم بالائے ستم یہ کہ یوم سیاہ منانے کے لئے 19 جولائی کا انتخاب کر لیا گیا۔
یہ تاریخ یوم الحاق پاکستان سے موسوم ہے اس تاریخ کو آزاد کشمیر کے بانی صدر غازی ملت ابراہیم خان کی صدارت میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے آزادی کے بعد پورے جموں و کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی قرارداد منظور کی تھی اور اس وقت سے تادم تحریر پاکستانی اور بالخصوص آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے عوام ہر سال اس تاریخ کو نہایت جوش و خروش کے ساتھ یہ دن مناتے ہیں اس روز ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ سیمینارز ہوتے ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی لاکھوں کی تعداد میں موجودگی کے باوجود پاکستانی پرچم اٹھا کر جلوس نکالے جاتے ہیں وہ کیا نامسعود لمحہ تھا جب وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں اس تاریخی دن کو یوم سیاہ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کر دیا گیا ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ کشمیری کہلوانے والے وزیراعظم کو بھی یہ یاد نہ رہا اس پر ملک میں جس ردعمل کا اظہار کیا گیا ان سطور کی اشاعت سے قبل یوم سیاہ منانے کی تاریخ بدل دی گئی ہے اب یوم سیاہ 20 جولائی کو منایا جائے گا مگر نواز شریف حکومت کی کشمیری عوام سے تعلق خاطر اور مسئلہ کشمیر سے دلچسپی و سنجیدگی کا بھانڈا ضرور پھوٹ گیا ہے۔وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جو حقیقت نمایاں طور پر کھل کر سامنے آئی وہ یہ کہ وزیراعظم نواز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے مابین ذہنی فاصلوں کی جو خبریں اندازوں اور شکوک و شبہات میں لپٹے الفاظ میں دی جا رہی تھیں وہ کھل کر سامنے آگئی ہے۔ چودھری نثار کے حوالے سے وزیراعظم کی سرد مہری و ناراضگی کو واضح طور پر محسوس کیا گیا اجلاس کے دوران چودھری نثار نے وزیراعظم کو پانچ بار مخاطب کرکے کوئی بات کرنی چاہی مگر وزیراعظم نے انہیں ہر بار نظرانداز کر دیا حتیٰ کہ دونوں نے ایک ہی جگہ کھانا بھی الگ الگ کھایا چودھری نثار نے وہیں بیٹھ کر جبکہ وزیراعظم اور دیگر وزراء نے گورنر ہاؤس کے اندر جا کر کھانا کھایا۔ وزیراعظم نے بعض وزراء کی جانب سے بھارتی مظالم پر جارحانہ رویہ ختیار کرنے کی تجاویز کو بھی سنجیدگی سے نہ لیا اس اجلاس کے شرکاء بھی حیران رہ گئے جب انوشہ رحمان نے آزاد کشمیر کو پاکستان کا مقبوضہ قرار دے دیا۔ آزاد کشمیر کو پاکستان کا مقبوضہ کشمیر کوئی بھارتی تو کہہ سکتا ہے پاکستان میں وفاقی وزیر کی سطح کا کوئی فرد یہ بات کہے تو اسے شرمناک ہی کہا جا سکتا ہے بعض معاملات کی توثیق و تردید واقعاتی شواہد سے ہوتی ہے اور کچھ حلقوں کی جانب سے جو یہ بات کی جا رہی ہے کہ میاں نواز شریف نے بھارت سے بہتر تعلقات کی شرط قبول کرکے اقتدار حاصل کیا تھا اس میں کچھ نہ کچھ صداقت ضرور تلاش کی جا سکتی ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر بھارت کو مذاکرات کرنے کیلئے جو کہا گیا ہے۔ اس کے بھی مضمرات اور نتائج و عواقب کا اندازہ نہیں کیا گیا اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ بجا طور پر تشویش ناک اس لئے ہے کہ اسے بھارت خود کو موجودہ صورتحال سے نکالنے کے لئے ہمیشہ کی طرح استعمال کر سکتا ہے اس لئے بھارت سے مذاکرات نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کی جلد از جلد تاریخ دینے کا مطالبہ کیا جائے، بھارت مذاکرات کی دعوت بلا تاخیر قبول کرکے ٹال مٹول کرے گا تاکہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کی شدت کم ہو جائے اور پھر وہ کوئی بہانہ بنا کر مذاکرات سے فرار اختیار کرے گا۔ اس طرح یہ شعوری طور پر نہ سہی لاشعوری طور پر بھارت کو موجودہ مشکل سے نکالنے کی راہ دینے کے مترادف ہوگا۔
بات ترکی سے شروع ہوئی تھی، اس کا پاکستان سے موازنہ تو بنتا ہی نہیں ہے۔ پاکستان میں سیاسی قیادت فوج کے گملوں میں اگتی رہی ہے جبکہ ترکی میں سیاسی عمل کے بطن سے جنم لیتی رہی ہے۔ طیب اردگان یا ان کی فیملی کی کوئی آف شور کمپنی نہیں ہے۔ ان کی سیاست کی بنیاد گورننس ہے، ان کی پہلی ترجیح صحت، تعلیم، پبلک ٹرانسپورٹ اور صفائی رہی۔ اس کی تکمیل کے بعد میٹرو بس سروس چلائی۔ اقتدار کو سنبھالا تو ملک 25 بلین ڈالر کا مقروض تھا۔ آج ترکی قرض دینے والا ملک ہے۔ فی کس آمدنی 20 ہزار ڈالر ہے۔ یہ اس گورننس کا انعام ہے کہ لوگ جانوں کی پرواہ کئے بغیر ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ خدانحواستہ پاکستان میں ایسا وقت آیا تو عوام کا ردعمل کیا ہوگا، یہ سوچنے کی بات ہے مگر کس کے لئے، یہ بھی اہم سوال ہے البتہ بلاخوف تردید ترکی میں فتح حکومت کی نہیں، گورننس کی ہوئی ہے۔
(روزنامہ نوائے وقت)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں