پیر، 18 جولائی، 2016

عجیب اور دلچسپ : ویت نام کے ’’ٹارزن‘‘ (جنگلی لوگوں کی دلچسپ کتھا)


ویت نام کی جنگ کو ختم ہوئے آج چار دہائیاں گزر چکی ہیں، لیکن ملک کے ایک جنگل سے ایسے دو افراد ملے ہیں جو سمجھ رہے تھے کہ جنگ اب بھی جاری ہے اور وہ اس سے بھاگ کر جنگل میں چھپے ہوئے تھے۔ یہ ہو وان لانگ اور اس کے والد ہو وان تھانھ تھے، جو کوانگ اینگی صوبے کے ضلع تے ترا کے ایک جنگل میں مقیم تھے۔ 2013ء میں حکام نے ان’’ٹارزنوں‘‘ کو جنگل سے نکالا۔ اب تھانھ کی عمر 85 سال ہے اور اس کا بیٹا لانگ 44 سال کا ہے۔ 1972ء میں امریکی فوج نے ان کے گاؤں پر بمباری کی تھی تو تھانھ کی بیوی اور دو بچوں سمیت پورا خاندان مارا گیا تھا۔ تب وہ اپنے دو سالہ بیٹے کو لے کر جنگلوں میں چھپ گیا۔ 41 سال تک کسی کو نظر نہ آنے والا ان لوگوں سے بھی چھپتا رہا جو مختلف کاموں کے لیے جنگل میں آتے تھے۔ اس نے درختوں میں پانچ میٹر کی اونچائی پر ایک جگہ بنا رکھی تھی ،جہاں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کی زندگی خوراک حاصل کرنا، جمع کرنا اور شکار کرکے زندہ رہنا تھی۔ یہاں تک کہ چند افراد نے اس ’’جنگلی آدمی‘‘ کی اطلاع مقامی حکام کو دی۔ ابتدا میں تو دونوں نے جنگل سے نکلنے سے انکار کردیا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ جنگ اب بھی چل رہی ہے لیکن بڑھاپے کی وجہ سے صحت کے مسائل سے دوچار تھانھ کو طبی امداد کی ضرورت بھی تھی جس کی وجہ سے انہیں مجبوراً اپنی ’’دنیا‘‘ چھوڑنی پڑی۔ اس پر انہیں ایک دور پرے کے رشتہ دار سے آمادہ کیا۔ یوں وہ تین سال سے’’تہذیب یافتہ‘‘ دنیا میں واپسی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کی کہانی حال ہی میں الوارو سیریزو کو پتہ چلی۔ وہ ہانگ کانگ کی ایک کمپنی ’’ڈوکاسٹ اوے‘‘ کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ یہ ادارہ اپنے صارفین کو ایشیا کے غیر آباد علاقوں کے دورے کرواتا ہے۔ سیریزو نے ہو وان لانگ سے بات کی کہ وہ ان کے لیے ایک مرتبہ پھر جنگل چلے اور بتائے کہ دنیا سے الگ تھلگ رہتے ہوئے انہوں نے کس طرح زندگی گزاری۔ لانگ نے بتایا کہ وہ مکئی اور دیگر چیزیں اُگاتے تھے اور آگ کو بھی بجھنے نہیں دیتے تھے جو دن کے 24 گھنٹے اور سال کے 365 دن جلتی رہتی تھی۔ ان کی خوراک وقت کے ساتھ بدلتی رہتی تھی۔ جو بھی چیز جنگل سے کھانے کے قابل ملتی تھی، وہ استعمال کرتے تھے۔ وہ جس علاقے میں رہتے تھے وہاں کے بیشتر پھل اور پودے کھانے کے قابل تھے۔ اس لیے وہ پھل سبزیاں کھاتے اور مکھیوں کے چھتوں سے شہد بھی نکال کر استعمال کرتے تھے۔ مچھلیوں اور پرندوں سے لے کر چمگادڑوں، مینڈکوں، چھپکلیوں، بندروں، چوہوں اور سانپوں تک کا گوشت کھایا۔ وہ ہاتھوں سے کچھ اوزار بھی بناتے تھے، اور انہیں بنانے کے لیے جنگل میں جو چیز ملتی جمع کرلیتے تھے، ایک مرتبہ انہیں امریکی بموں کے ٹکڑے بھی ملے۔ دونوں باپ بیٹا وہ کبھی اپنے ہاتھوں سے نہیں کھاتے تھے بلکہ بانس سے کھانے کی روایتی چینی تیلیاں بھی بنائی تھیں۔ ویسے تو صحت کے حوالے سے دونوں کو کبھی کوئی بڑا مسئلہ درپیش نہیں آیا، البتہ سال میں ایک بار نزلہ وغیرہ ہوتا تھا اور کبھی کبھار پیٹ میں درد۔ الویرو سیریزوں نے پایا کہ ہو وان لانگ کو اب بھی بیرونی دنیا، یہاں تک کہ اپنے ملک کی کسی خبر میں بھی کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ بجلی استعمال نہیں کرتا اور زمین کا جو ٹکڑا اسے دیا گیا ہے اس کی کاشت میں لگا رہتا ہے۔ وہ شادی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ جنگل سے نکلنے تک اس نے کبھی کوئی عورت نہیں دیکھی تھی۔
 ( بحوالہ: اُردو ٹرائب) -

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں