
حضرت سیدنااحمد بن ابوالحواری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیدناابو سلیمان دارانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس گیا تو انہیں روتے ہوئے پایا ۔
میں نے ان سے پوچھا کہ
'' کس چیز نے آپ کو رُلایا؟''
کہنے لگے:
جب رات کی تاریکی اپنی چادر بچھا دیتی ہے تواہل ِمحبت قیام (یعنی نماز)میں کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
ان کے آنسو رکوع اور سجدہ کی حالت میں ان کے رخساروں پر بہہ رہے ہوتے ہیں ۔
پھر جب اللہ جل جلالہ ان پر نگاہِ کرم کرتاہے توارشاد فرماتاہے ،
''اے جبرئیل (علیہ السلام)!میرے سامنے وہ کھڑاہے جس نے میرے کلام سے لذت حاصل کی اور مجھ سے مناجا ت کی راحت پائی ،
بے شک میں اس سے باخبر ہوں اوراس کے کلام کو سن رہا ہوں اور اس کے رونے اور آہ وزاری کو دیکھ رہا ہوں ،
اے جبرئیل اس سے کہو:
''میں جویہ تمہارا غم دیکھ رہاہوں یہ کیاہے ؟
کیا تمہیں کسی نے خبردی ہے کہ کوئی دوست اپنے دوستو ں کو آگ کا عذاب دیتا ہے یا کیا میں گوارا کرو ں گا کہ میں کسی قوم کو رات گزارنے کے لئے ٹھکانا فراہم کروں پھر انہیں نیند کی حالت میں جہنم میں ڈالنے کا حکم دو ں ۔
یہ کام تو کسی بدکار بندے کو بھی سزاوار نہیں تو کریم با دشاہ عزوجل کے لائق کیسے ہوسکتاہے ۔
مجھے اپنی عزت کی قسم !
کہ میں انہیں ضرورایک تحفہ عطا فرماؤں گا ،
وہ اس طرح کہ میں ان پر نظر رحمت فرماؤں گا اور وہ میرا دیدار کریں گے ۔''
حضرتِ سیِّدُنا ابو سلیمان دار انی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے بعض آسمانی کتابو ں میں پڑھا کہ اللہ عزوجل فرماتاہے ،
وہ لوگ میرے سامنے ہیں جو میرے لئے تکالیف برداشت کرتے ہیں اور میری رضا کی طلب میں کبیدہ خاطر ہوئے ۔
تو ان بندوں کا کیا عالم ہوگا جو میری رحمت کی پناہ میں آگئے اور میری جنت کے باغات کے مکین ہوئے ۔
اپنے اعمال میں مصروف ہونے والے اپنے مقرب محبو ب کے دیدار کی خوشخبری سن لیں کیاتم یہ سمجھتے ہو کہ میں ان کے اعمال کو ضائع کردوں گا ؟
تومیں یہ کیسے کرو ں حالانکہ میں دوستو ں پر جُود وکرم کرتاہوں او رگنہگاروں کی توبہ قبول فرماتا ہوں
اورمیں ان پر سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہوں۔''
(حلیۃ الاولیاء ، ابو سلیمان الدار انی ، رقم ۱۳۸۴۱، ج ۹،ص۲۶۸)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں