
امام محمد رحمۃ اللہ علیہ بہت حسین تھے، مگر ان کی شادی ایسی عورت سے ہوئی جس پر حسن کا اطلاق ممکن نہ تھا۔ پہلے زمانے میں بچے اتنے شریف ہوتے تھے کہ ماں باپ جہاں رشتہ لگا دیں وہ ماں باپ سے لڑتے نہیں تھے، کہ میں کیسا ہوں اور آپ نے انتخاب کیسا کیا؟
(خون کے رشتوں کی وجہ سے ترجیح دے دی کہ خون کا رشتہ ہے، اس کا حق ادا ہو جائے گا، صلہ رحمی ہو جائے گی …ایک لڑکی کا گھر بس جائے گا۔)
ایک دن ایک شاگرد سے کھانا منگوایا، تیز ہوا سے امام محمد کی بیوی کا نقاب ذرا سی دیر کو ہٹ گیا، تو دیکھا کہ بیوی امام صاحب کے بالکل بر عکس ہے، کھانا تو لے آیا، مگر الگ بیٹھ کے رونے لگا، امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کہ ’’کیوں روتا ہے؟‘‘
اس نے کہا
’’آپ کی قسمت پر رو رہا ہوں، آپ جس قدر حسین ہیں آپ کی بیوی اتنی ہی غیر حسین ہے‘‘ امام محمدؒ ہنس پڑے اور فرمایا ۔
’’اے بیٹے، میں اس وقت فقہ پر چھ کتابیں لکھ رہا ہوں، زیادات، مبسوط، جامع صغیر، جامع کبیر، سیر صغیر، سیر کبیر اور تم لوگوں کو پڑھا بھی رہا ہوں اگر بیوی حسین ہوتی تو اپنی بیوی کے پاس بیٹھا ہوا اس کے حسن کا مشاہدہ و معائنہ اور ملاحظہ کرتا تم کہتے کہ
استادصاحب!’’کنز الدقائق‘‘ کا گھنٹہ ہو گیا،
میں کہتا کہ میں ’’حسن الدقائق‘‘ میں مشغول ہوں اور
پھر ایک جملہ فرمایا کہ
دوستو! آج اس کو درد دل سے پیش کرتا ہوں۔ جو بد نظری کے علاج کے لیے نہایت مفید جملہ ہے) فرمایا ’’جس کو اللہ تعالیٰ اپنے پیار کے لیے قبول کرتے ہیں، اپنی محبت کے لیے منتخب فرماتے ہیں۔ اپنے دین کی خدمت کے لیے، جس کا انتخاب کرتے ہیں، اس کو مٹی کے کھلونوں میں ضائع نہیں کرتے، آج سارے عالم میں جو حسین بکھرے ہوئے ہیں، چاہے، وہ حسین فی الطریق ہوں یا حسین فی السّوق ہوں یا حسین فی المطار ہوں یا حسین فی القطار ہوں یہ سب مٹی کے کھلونے ہیں ایک دن قبروں میں دفن ہو کر مٹی ہو جائیں گے ان کے حسن اور نمک کو تلاش کرو گے، تو سوائے مٹی کے کچھ نہیں پاؤ گے لہٰذا ان مٹی کے کھلونوں پر اپنی حیات کو ضائع نہ کرو، اس لیے میرا آج سے پچیس سال پہلے کا شعر ہے کہ…
کسی خاکی پہ مت کر خاک اپنی زندگانی کو
جوانی کرفدا اس پر کہ جس نے دی جوانی کو
(فیضان حرم، ص ۸۶)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں